اختلاف در اختلاف

قادر خان  ہفتہ 20 دسمبر 2014
qakhs1@gmail.com

[email protected]

22 دسمبر 2012 کو عوامی نیشنل پارٹی کے دلیر رہنما بشیر احمد بلور شہید ہوئے تو 16 دسمبر 2014 پشاور کے ایک اسکول میں سقوط پاکستان کے المیے کے دن 136 معصوم بچوں کو ماؤں کی گود سے چھین کر قبر کی آغوش میں اتار دیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ آج بھی یہی کہا جاتا ہے کہ پشاور میں صرف دو شخصیات ایسی تھیں جو دہشت گردی کے ہر واقعے پر سیکیورٹی اداروں سے پہلے پہنچ جایا کرتے تھے۔

بشیر احمد بلور شہید اور غازی میاں افتخار حسین۔ بشیر احمد بلور شہید کا سیاسی کردار کیا تھا اور اے این پی کے حوالے سے ان کی کیا خدمات تھیں اس پر لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا، بولنے والوں نے بہت کچھ کہا، سننے والوں نے آنکھیں بند کرکے خوب سنا  ہوگا اور کہا جاتا رہے گا۔ لیکن کسی نے ان کی اس بات پر توجہ نہیں کی کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں سب کو متحد ہونا ہوگا۔ یہ جنگ شمال مغربی سرحدوں سے نکل کر کراچی کے سمندر تک پہنچ چکی ہے، برسوں سے جاری دہشت گردی کی اس جنگ میں ہزاروں شہیدوں کی قربانی کے باوجود اب بھی سیاسی و مذہبی جماعتیں یکجا نہیں ہوئیں تو پھر پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔

اس بات کا یقین تھا کہ دلیر بشیر احمد بلور شہید جس طرح دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن پر ہیں انھیں شہادت کا رتبہ ضرور ملے گا۔ بشیر احمد بلور شہید کے جنازے میں سیکیورٹی کے جس طرح انتظامات کیے گئے تھے اسے دیکھ کر یقین ہوگیا کہ پشاور ہی نہیں بلکہ پورا پاکستان غیر محفوظ ہے۔

دہشت گردی کیا ہے ؟ دہشت کسے کہتے ہیں؟ ’’خوف  و ہراس اور وحشت کی فضا پیدا کرکے عدم تحفظ کا احساس پیداکرنا‘‘۔ جس میں مٹھی بھر دہشتگرد کامیاب ہوجاتے ہیں اور انھیں کامیاب بنانے کے لیے سیاسی، مذہبی اور سماجی جماعتوں سمیت حکومت کا مکمل تعاون رہا ہے، کیونکہ ان کے اپنے اقتدار کی ہوس نے تمام حساس اداروں کی توجہ دھرنوں اور احتجاجوں کی جانب مبذول کردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی قوم کو متفق نہیں کرسکا، کوئی سونامی خان بن گیا تو کوئی طالبان کا  سہولت کار، کسی نے طالبان کا نام لیا تو کسی نے امریکا کا، کسی نے دہشت گردوں کو شہید کہا تو کسی نے شہیدوں کو دہشت گرد، جو بچ گیا اس نے بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا تو کسی کی تان داغستان، کرغستان، تاجک یا روس پر جا  اٹکی، شمالی مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہوئیں تو بلوچستان میں حکومت کی رٹ قائم نہیں ہورہی، بلوچستان غلط پالیسیوں کے سبب علیحدگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

آہ، میرے مولا، کیسا منظر تھا کہ ایک جانب  وزیراعلیٰ بلوچستان بلوچ جوانوں کی پاسنگ آؤٹ پریڈ مییں بلوچ جوانوں پر فخر کر رہے تھے  اور اعلیٰ کارکردگی ریکروٹس کے حوصلے بلند اور اعزازات دے رہے تھے تو دوسری جانب  ملک و مسلم دشمن دہشت گرد معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے، انھیں شہادتیں دے رہے تھے، سیکڑوں معصوم تڑپتے لاشے زمین پر پڑے تھے، کوئی کرسی کے پیچھے چھپ رہا تھا تو کوئی میز کے عقب میں، لیکن موت ان کے تعاقب میں تھی اور دوسری جانب سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ سلسلہ یہیں پر تھما نظر نہیں آتا، پاکستان کے نامعلوم ہاتھوں کی جانب سے بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اورکراچی میں خود ساختہ ریاستوں کے قیام کے سلسلے میں  ایسی اصلاحات کی جا رہی ہیں کہ بہت جلد وہاں سے بھی علیحدگی کی آوازیں اٹھنا شروع ہوجائیں گی۔

پاکستان کا اولین مسئلہ دہشت گردی کا خاتمہ ہے لیکن اس کے بجائے سب اپنے اپنے فروعی ایجنڈے  پر عمل پیرا کروانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگارہے ہیں۔ سب سے بڑی اہم بات بناسپتی سیاست دانوں کی  منطقیں تھیں جس میں انتخابی حوالے سے آئین کی تمام شقوںکی تفسیر تو بیان کردیتے ہیں لیکن انتہا پسندی اوردہشت گردی کے ذمے داروں کے خلاف لب کشائی سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہیں۔

نام نہاد گول میز کانفرنسوں میں باہمی اتحاد کے اختلاف میں اندرونی و بیرونی ایجنسیوں کا ہاتھ نہیں ہے لیکن یہ نہیںبتایا جاتا کہ ڈرون حملوں، افغانستان سے در اندازی، بلوچستان میں مداخلت، کراچی بدامنی، خیبر پختونخوا میں کن عناصر کا ہاتھ ہے۔ تمام زور کس بات کے لیے ہے، اسے سمجھنے سے کوئی قاصر نہیں کیونکہ عوام تو سب جانتے ہیں کہ انھیں کس قسم کے نمایندوں کو منتخب کرنا چاہیے لیکن جب وہ اس سسٹم کو توڑنا ہی نہیں چاہتے تو پھرکروڑوں روپے خرچ کرکے کس کے ایجنڈے پر عمل درآمد کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ دھرنے بازوں کو نئے پاکستان بنانے کی اتنی فکر ہے کہ جس صوبے نے اسے امن کے نام پر مینڈیٹ دیا اس کے ذمے داران رقص و سرود کی محافل سے ہی فرصت حاصل کرنے کو تیار نہیں، حکومت بھی تفریح کے اتنے مواقع میسر ہونے کے باوجود اپنا قیمتی وقت ضایع کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کرے کیونکہ وہ بھی جانتی ہے کہ عوام بے وقوف ہیں  یا پھر یہ وہی ’’فرشتے‘‘ تو نہیں جو عوام کی مرضی کے بغیر ووٹ ڈال جاتے ہیں۔ یہ فرشتے صرف انتخابی دنوں میں نظر آتے ہیں اور پاکستان کے تمام مشکوک انتخابات میں اپنا بھرپور کردار ادا کرکے چلے جاتے ہیں۔

جاگیرداری، سرمایہ داری، وڈیرانہ اور خوانین نظام کے خلاف سب آواز اٹھاتے ہیں لیکن ان کی اپنی صفیں ان ہی فصلی بٹیروں سے بھری ہوتی ہیں۔ روٹی، کپڑا مکان کے لیے پیپلزپارٹی سے بڑھ کر کس نے آواز اٹھائی ہوگی، مسلم لیگ الف سے لے کر ی تک بنتی چلی گئی، قائداعظم کا پاکستان نہیں بناسکی۔

دہشت گردی کی روک تھام کے نام پر اپوزیشن جماعتوں کو آیندہ الیکشن میں قوم کی ہمدردیاں ضرور حاصل ہوجائیں گی، لیکن بادی النظر نہیں لگتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والے سپہ سالاروں کی شہادتوں کے بعد کسی جماعت کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہو اور جو فصل کے بیج ماضی میں لگائے گئے تھے اس کے کاٹنے کے لیے پختونوں کی مزید خون کی قربانی دینے سے باز آجائے۔ ہم بحیثیت پاکستانی قوم واحد نہیں بلکہ منتشر قوم ہیں۔ قوم کے جذبات سے اور معصوم بچوں کے خون سے کھیلنے والے لوگ آتے رہیں گے۔

عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے، ہم بے وقوف بنتے رہیں گے۔ اقتدار اور کرسی بچانے کے لیے یہ پتلی تماشا کیوں ہورہا ہے، اس کی صاف وجہ یہی نظر آتی ہے کہ کسی بھی طور پر بیرونی نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی جائے۔ جب دہشت گردی کے خلاف قوم میں اختلاف در اختلاف ہو تو اس کا واضح مطلب ہے کہ احساس کی رمق تک موجود نہیں ہے، ریاست بچاؤ یا سیاست بچاؤ کرتے جاؤ، دہشت گرد کربلا برپا کرتے چلے جائیں گے، نوحے مائیں، بہنیں کریں گی، ماتم باپ اور بھائی کریں گے۔ کوئی کچھ نہیں کرے گا۔ لیکن خدا کے واسطے! بے گناہ عوام آپ اپنے آپ کو ہی تختہ مشق بنانے سے بچاؤ۔ تم کب یکجا ہوگے، آخر کب؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔