پیدائشی لیڈر

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  اتوار 21 دسمبر 2014
03332257239@hotmail.com

[email protected]

لیڈر کہتے ہیں اسے جو رہنمائی کرے، جو قائد ہو اور جو پیشوا ہو۔ ہمارے کالم کا عنوان ہے پیدائشی لیڈر۔ وہ شخص جو جھولے میں کھیلنے سے ہی لیڈر ہو۔ دوسری قسم کے وہ لوگ رہنمائی کرتے ہیں جو اتفاق سے یا حادثاتی طور پر لیڈر بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ بھی ہمیں لیڈر کی فہرست میں نظر آتے ہیں جو اپنی محنت کی بدولت لیڈر بن گئے ہیں۔ ہم ان لوگوں کا تذکرہ نہیں کر رہے جو کسی اور سبب سے لیڈر بن گئے ہیں۔ آج ہم پیدائشی لیڈر کی بات کر رہے ہیں۔

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بے شمار نومولود قائدانہ صلاحیت لے کر پیدا ہوئے ہوں لیکن بدقسمتی نے انھیں اعلیٰ مقام نہ دیا ہو۔ بالکل درست۔ صحیح وقت پر صحیح فیصلے اور قسمت کی یاوری ہی پیدائشی لیڈر کو بڑی کرسی اور تاریخ میں نام عطا کرتی ہے۔ دنیا بھر کی فہرست بنائی جائے تو ایسے لوگوں کی تعداد سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔ ان کا تذکرہ کسی کتاب میں تو ہوسکتا ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی میں وہ نہیں سما سکتے۔ برصغیر پاک و ہند کی بات کریں تو ہمیں دس کے قریب رہنما نظر آتے ہیں جنھیں ہم پیدائشی لیڈر کہہ سکتے ہیں۔ یہاں ہم صرف ایک صدی تک اپنے آپ کو محدود کر رہے ہیں۔ اس میں بھی ہماری زیادہ توجہ پاکستان پر ہوگی۔

مولانا محمد علی جوہر کا جذبہ، امنگ اور حرارت ظاہر کرتی ہے کہ بی اماں کی گود میں پرورش پانیوالا پیدائشی لیڈر تھا۔ زبان پر قدرت اور تقریر کا ملکہ انھیں پیدائشی لیڈروں کی صف میں شامل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ خوب صورت نثر نگاری اور بے خوفی انھیں برصغیر کی بیسویں صدی کا پہلا بڑا لیڈر قرار دلوا رہی ہے۔ ’’تحریک خلافت‘‘ کو پورے برصغیر میں گرما دینے کا حوصلہ کسی دور میں ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ایسے قائدین پر بعض اوقات ہوش سے زیادہ جوش کا غلبہ رہتا ہے۔ یہ صفت اکثر ان کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ کامیابی کے پیمانے سے ایسے قائدین کو ناپے بغیر ہم انھیں پیدائشی لیڈر کی صف میں شامل کر لیتے ہیں۔

گاندھی جی کو بھی ہم پیدائشی لیڈروں کی صف میں شامل کر رہے ہیں۔ جس انداز سے انھوں نے ساؤتھ افریقہ میں مظلوموں کے لیے لڑائی لڑی وہ اس کا بڑا ثبوت ہے۔ ہندوستان میں آکر انھوں نے احتجاجی تحریک شروع کرکے سیاست کو نیا رنگ عطا کیا۔ سن 42 میں کانگریس کی ’’ہندوستان چھوڑو‘‘ تحریک انھیں پیدائشی لیڈر ظاہر کرتی ہے۔

انگریزوں کی کمزوری اور کانگریس کی طاقت کے باوجود احتجاجی تحریک غیر ملکی حکمرانوں کو ہندوستان سے نکالنے میں کامیاب نہ رہی۔ سبھاش چندر بوس کے علاوہ ہم بھگت سنگھ کو چوتھا پیدائشی لیڈر قرار دے رہے ہیں۔ گو کہ اس نے نہ کسی تحریک کی قیادت کی اور نہ بظاہر کوئی بڑی کامیابی، اس کے باوجود انتہائی طاقتور انگریزوں سے ٹکرانے کے حوصلے کی بدولت ہم انھیں پیدائشی لیڈر قرار دے رہے ہیں۔ اسی طرح سبھاش نے جس طرح آزادی کی فوج بناکر انگریزوں کو ٹف ٹائم دیا وہ انھیں پیدائشی لیڈروں کی صف میں شامل کر رہا ہے۔

قائداعظم محمد علی جناح بھی پیدائشی لیڈر تھے۔ دادا بھائی نوروجی جیسے لیڈر کے قریب رہنا، کانگریس میں شمولیت اور کم عمری سے ہی ممبئی سے انتخابات میں حصہ لینا ان کے پیدائشی لیڈر ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ مقامی زبان پر عبور نہ ہونے کے باوجود انگریز حکمرانوں اور ہم عصر قائدین سے انگریزی میں آئینی معاملات کو سلجھانا ان کے پیدائشی لیڈر ہونے کا ثبوت ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت برٹش اور سب سے بڑی سیاسی طاقت یعنی کانگریس سے مقابلہ کیسے کیا جاسکتا تھا؟

یہ کسی اتفاقی اور حادثاتی لیڈر کا کام نہ تھا۔ تاریخ و جغرافیہ کو بدل کر رکھ دینے والے اور ایک بالکل نئی قوم کو وجود میں لے آنیوالی دنیا کی منفرد شخصیت کو ہم پیدائشی لیڈر قرار دینے پر مجبور ہیں۔ عقیدت نہیں بلکہ حقیقت کی بدولت۔ کالم کے نصف مرحلے پر دیکھیں کہ کوئی لیڈر اپنے خاندان کی بے ساکھی یا زمین و جائیداد کے سبب پیدائشی لیڈر نہیں کہا جاسکتا۔

بھٹو اور مجیب بھی پیدائشی لیڈر تھے۔ ایک ہی وقت میں جنم لینے والے اور ایک ہی وقت میں کامیابیاں سمیٹنے والے دونوں قائدین کا خاندانی پس منظر بالکل مختلف تھا۔ بھٹو سندھ کے بڑے جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے دنیا کی عمدہ ترین درسگاہوں میں علم کے موتی سمیٹنے کا موقع ملا۔ مجیب مشرقی بنگال کے متوسط گھرانے میں جنم لینے والے انسان تھے۔ وہ بنگالیوں کی خاطر جئے اور ان ہی کی خاطر مرے۔

مسلم لیگ میں آئے تو اپنی قوم کے فائدے کے لیے اور عوامی لیگ میں شمولیت اختیار کی تو اپنے ہم نسلوں کی خاطر۔ بھٹو کو بے شک اسکندر مرزا اور ایوب خان کی سرپرستی حاصل رہی لیکن اپنی ذہانت کی بدولت۔ اس دور میں بھٹو سے بڑے زمیندار موجود تھے۔ ایوب سے علیحدگی کے بعد عوامی پارٹی بنانا اور غریبوں کے دل میں امید کے دیے جلانا بھٹو کے پیدائشی لیڈر ہونے کا ثبوت ہے۔ بھٹو اور مجیب دونوں شاندار مقرر تھے۔

نواز شریف، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، قاضی حسین احمد اور عمران خان کو ہم نے پیدائشی لیڈروں میں شمار نہیں کیا۔ کالم میں مزید تین پیدائشی لیڈروں پر گفتگو کے بعد ہم ان پانچ رہنماؤں کی فہرست میں شامل نہ ہونے کی وجہ بیان کریں گے۔ الطاف حسین اور شیخ رشید کے پیدائشی لیڈر ہونے سے کون انکار کرسکتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں جاگیردار و سرمایہ دار نہ ہونے اور کسی مذہبی پارٹی سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود ایک مقام بنانا ان کے بائی برتھ پیدائشی لیڈر ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ عوامی انداز اور عمدہ مقرر ہونا دونوں کی اضافی خوبی ہے۔

سیاست میں کسی کا حامی ہونا یا مخالف ہونا الگ بات ہے لیکن حقیقت کو تسلیم کرنا مختلف بات ہے۔ دسویں اور آخری شخصیت جماعت اسلامی کے حافظ نعیم کی ہے۔ قاضی حسین احمد جیسے لوگوں کو چھوڑ کر ہماری نظر نسبتاً کم عمر شخصیت پر جا رہی ہے جنھیں پیدائشی لیڈر کہا جا رہا ہے۔ جمعیت میں ناظم کراچی و سندھ منتخب ہونے کے بعد پاکستان کے ناظم اعلیٰ بنے۔ جماعت اسلامی میں کراچی کے سیکریٹری و نائب امیر بننے کے بعد امیر شہر بننا ظاہر کرتا ہے کہ حافظ نعیم کو ہر موقعے پر بیلیٹ کے ذریعے قیادت کا اہل سمجھا جا رہا ہے۔ اب ہم ان پانچ شخصیات کی جانب آرہے ہیں جنھیں اس فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔

بے نظیر اور آصف زرداری شہادتوں کی بدولت بڑے لیڈر بنے۔ یہ سب کچھ حادثاتی طور پر ہوا۔ اگر بھٹو حکومت کا خاتمہ نہ ہوتا اور انھیں ایک ٹرم اور مل جاتی تو مرتضیٰ بھٹو اپنے والد کی جگہ سنبھالتے۔ اسی طرح اگر 2007 میں بے نظیر حادثے کا شکار نہ ہوتیں تو آصف زرداری لیڈر نہ بنتے۔ نواز شریف اور عمران خان بائی چانس اور محنت کی بدولت قائد بنے ہیں۔

جاوید میاں داد اگر ظہیر عباس کے نام پر اتفاق کرلیتے تو عمران کرکٹ ٹیم کے کپتان نہ بنتے اور پھر ورلڈ کپ سے تحریک انصاف تک کچھ نہ ہوتا۔ قاضی حسین احمد پر دور طالب علمی کے بعد قیادت کے جوہر کھلے اور اپنی محنت کی بدولت ایک مقام بنایا۔ ہم نے دس لیڈروں کو پیدائشی لیڈر کہا اور پانچ بڑے لیڈروں کو اس فہرست میں شامل نہیں کیا۔ ممکن ہے آپ کو اس سے اختلاف ہو۔ یہ آپ کا پیدائشی حق ہے کہ آپ اس فہرست کو نہ تسلیم کریں جو ہم نے ترتیب دی ہے۔ ممکن ہے آپ کوئی فہرست بنائیں تو کچھ اور لوگ ہوں آپ کی نظر میں پیدائشی لیڈر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔