فکر و فلسفہ کے چند اہم اور ابتدائی نقوش

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  اتوار 21 دسمبر 2014
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

’’جب تک میرے جسم میں جان ہے میں ایک فلسفی کی سی زندگی بسر کروں گا۔ جو شخص بھی مجھے ملے گا میں اس کی ہمت افزائی کروں گا اور اسے بتاؤں گا کہ یہ بات سچ ہے۔ میں اس سے سوال کروں گا، اس کا جائزہ لوں گا، اس کے باطن کو ٹٹولوں گا اور اگر میں دیکھوں گا کہ وہ نیک ہونے کا دعویٰ کرتا ہو لیکن حقیقت میں نیک نہیں ہے تو میں اسے ملامت کروں گا، میں اس سے کہوں گا کہ وہ بیش بہا چیزوں کو کم بہا تصور کررہا ہے اور جن چیزوں کی کوئی قیمت نہیں ہے ان کو بیش بہا سمجھ رہا ہے اس لیے ایتھنز کے لوگو! تم چاہو تو مجھے جانے دو اور چاہو تو نہ جانے دو لیکن جو کچھ کرو یہ سمجھ کر کرو کہ میرا طرز عمل یہی ہوگا جس کی میں نے توضیح کردی خواہ مجھ کو سو بار کیوں نہ مرنا پڑے…‘‘

مندرجہ بالا تاریخ ساز اور حکمت و دانائی سے لبریز بصیرت افروز الفاظ حکیم و فلسفی سقراط کے ہیں، سقراط پر جرم ثابت کردیا گیا تھا اور اس کا جرم تھا سچ اور حق کی ترجمانی… جس کی پاداش میں اس کو زہر کا پیالہ نوش کرنا پڑا۔ سقراط کو زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا گیا۔ اس سے کہا گیا کہ حق پرستی چھوڑ کر روایت پرستی و باطل پرستی پر مبنی زندگی کا انتخاب کرلے یا پھر اپنے لیے موت کو منتخب کرلے۔

سقراط نے ایک بے مقصد زندگی پر موت کو بخوشی ترجیح دی، نہ کسی مصلحت سے کام لیا نہ کسی کی خوشامد کی، جھکا اور نہ ہی بکا، وہ ایک سچا اور دیانت دار فلسفی تھا، وہ جانتا تھا کہ جو بات وہ کہہ رہا ہے اسے اس کے زمانے کے لوگ نہیں مانیں گے بلکہ صدیوں بعد ہی سہی لیکن حق، باطل پر غالب ضرور آئے گا۔

سقراط کی زندگی عصر کی محبت، فلسفہ، یونان اور یونان کے نوجوان تھے، اس نے یونان کی خاطر جنگیں بھی لڑی تھیں، پیشے کے اعتبار سے وہ ایک اعلیٰ درجے کا مجسمہ ساز تھا، سقراط کبھی کج بختی نہیں کرتا تھا، اس کا اصول تھا کہ سوال پر سوال کرتا اور پھر نتیجہ اخذ کرتا اور حقیقت نیز حق و صداقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا۔ سقراط نے خود تو کوئی تحریر نہیں چھوڑی البتہ اس کے نظریات کو اس کے شاگرد افلاطون نے قلمبند کیا اور تحریری شکل دی۔ سقراط کہتا ہے کہ حکمت و دانش لاعلمی کے ادراک میں پنہاں ہے، جہالت کا مقابلہ کرنا چاہیے، انسان کو انصاف و ظلم اور سچ و جھوٹ میں ہمیشہ تمیز کرنا چاہیے۔

افلاطون (347۔417 قبل مسیح) ایک نہایت دولت مند اور مقتدر خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ ایتھنز میں وہ سقراط کے زیر اثر آگیا اور اس نے اپنی توجہ فلسفے کی جانب مبذول کردی۔ ایتھنز کے نوجوانوں کے ذہن بگاڑنے کے الزام میں سقراط کو سزائے موت دیے جانے کے بعد افلاطون نے سقراط کا کام جاری رکھنے کا بیڑا اٹھایا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ افلاطون نے سقراط کے شاگرد ہونے کا حق ادا کردیا اور اپنے استاد سقراط کی طرح افلاطون نے بھی صاحبان اقتدار و حکمران وقت سے کوئی تعلق نہیں رکھا۔ افلاطون کے مکتب فکر نے ارسطو جیسے عظیم فلسفی کو جنم دیا۔

ارسطو 354 قبل مسیح مقدونیہ میں پیدا ہوا۔ 18 برس کی عمر میں ایتھنز چلا گیا، 37 برس تک افلاطون کے مکتب سے وابستہ رہا۔ 53 برس کی عمر میں اس نے مدینۃ الحکمت کی بنیاد ڈالی، ارسطو کے بھی بہت سے شاگرد ہوں گے۔ تاہم وہ سقراط اور افلاطون کی طرح شاگرد پیدا نہ کرسکا، فلپ دوم نے اسے اپنے بیٹے سکندر کا اتالیق مقرر کردیا تھا جسے تاریخ سکندراعظم کے نام سے جانتی ہے لہٰذا ارسطو نے تاریخ کو فلسفی سکندر تو نہیں دیا البتہ فاتح سکندر دیا۔

ارسطو نے 7 مارچ 322 قبل مسیح میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔ ارسطو کے بعد عرسطارقس نے جنم لیا، وہ ہمارے عہد حاضر سے 2200 برس قبل پیدا ہوا لیکن وہ ارسطو کا شاگرد نہیں تھا، عرسطارقس وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ خیال پیش کیا کہ زمین کے بجائے سورج نظام سیارگان کے مرکز میں ہے اور یہ کہ تمام سیارے بشمول زمین سورج کے گرد گردش کناں ہیں، یہ وہی تصور ہے جسے ہم کوپرنیکس سے وابستہ کرتے ہیں اور جسے گلیلو نے شمسی مرکز نظریے کا ’’مجدد اور مصدق‘‘ قرار دیا ہے لیکن موجد نہیں، عرسطارقس اور کوپرنیکس کے درمیان 1800 برس کا عرصہ ہے، اس سے بیشتر عرصے میں کسی کو سیاروں کا حقیقی علم نہ تھا، حالانکہ اس کو واضح طور پر 280 قبل مسیح میں بیان کیا جاچکا تھا۔

چھٹی صدی قبل مسیح میں آیونیا میں ایک نیا تصور پیدا ہوا جو دراصل نوع انسانی کے چند عظیم تر خیالات میں سے تھا۔ قدیم آیونی سمجھتے تھے کہ کائنات کا ادراک ممکن ہے کیوں کہ اس میں ایک اندرونی ترتیب، ایک زیر سطح نظم و ضبط موجود ہے، نظام فطرت میں باقاعدگیاں ہیں جن کی مدد سے اس کے اسرار پر سے پردہ ہٹایا جاسکتا ہے۔ فطرت مکمل طور پر بے اصول نہیں ہے، چند ایسے اصول ہیں جن کی پابندی فطرت کو بھی کرنی پڑتی ہے، کائنات کے اسی انتظامی اور قابل تحسین پہلو کو کون و مکان کہا جاتا ہے۔

لیکن آخر آیونیا ہی میں ایسے خیالات کیوں ابھرے؟ مشرقی بحر روم کے یہ دور دراز جزائر اور خاکنائے ہی کیوں اس منصب کے لیے منتخب کیے گئے، مصر، بابل، بھارت، چین قدیم، امریکا کے کسی بڑے شہر میں ایسا کیوں نہ ہوا؟

خیال ہے کہ اگر چین، بھارت اور قدیم امریکا کو تہذیبی ارتقا کے لیے کچھ اور وقت دستیاب ہوجاتا تو وہ بھی فلسفہ و سائنس کی دہلیز پار کرلیتے۔ ثقافتیں ہر جگہ یکساں رفتار، تغیر اور جادۂ تغیر اختیار کرکے ارتقا پذیر نہیں ہوئیں، نہ ہی بھیڑ چال کے انداز میں ترقی پاتی ہیں۔ ثقافتیں تو مختلف ادوار میں جنم لیتی ہیں اور ان کا ارتقا بھی مختلف ادوار میں اور مختلف رفتار سے عمل میں آتا ہے۔ سائنس پر مبنی دنیا کا نقطہ نظر اتنا قابل قبول ہے، اتنے اسرار پر سے پردہ ہٹادیتا ہے اور ہمارے ذہن کے ارفع ترین درجات سے اس حد تک ہم آہنگ ہے کہ عام خیال یہی ہے کہ اگر کسی بھی تہذیب کو آزادانہ طور پر ترقی کرنے کا وقت دیا جائے تو وہ جلد یا بہ دیر سائنس کو دریافت کرلیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی تہذیب کو تو اس دریافت میں پہل کرنی ہی تھی۔ سو آیونیا ہی وہ پہلی تہذیب ثابت ہوئی۔

600 اور 400 قبل مسیح کے درمیان انسانی فکر میں اس بڑے انقلاب کی بنیاد پڑی اور یہ مفکر بازی لے گئے، انھوں نے اوہام کو یک قلم برطرف کردیا اور حیرت انگیز ایجادات کیں۔ اکثر اس دور میں جو تشبیہات اور کنائے استعمال کیے گئے تھے ممکن ہے کہ آج ہمارے لیے وہ قطعی بے معنی اور مبہم ہوں، چند صدیوں بعد اس نئی بصیرت پر پہرے لگانے کی شعوری کوششیں کی گئی تھیں۔ اس انقلاب کے قائد یونانی ناموں والے افراد تھے جن میں سے اکثر آج ہمارے لیے قطعی اجنبی ہیں، لیکن وہ ہماری قدیم تہذیب اور نسل انسانی کی ترقی میں حقیقی بانی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

دنیا کا اولین سائنسدان ام ہوتپ یونانی تھا، دوسرا سائنسدان اہموس مصری تھا اور تیسرا سائنسدان ثالیس ملطی تھا۔ یہ ترتیب وار دنیا کے اول تا سوم فلسفی و سائنسدان ہیں، جن کے تذکرے تاریخ نے محفوظ رکھے ہیں، اس کے بعد انکسا غورث کے دور کا آغاز ہوا، انکسا غورث کے بعد فیثاغورث کا عہد آتا ہے۔

اس کے بعد سقراط جیسا عظیم فلسفی آیا پھر افلاطون اور ارسطو آئے، ارسطو کے بعد عرسطارقس کا ذکر ملتا ہے، ثالیس سے دیمقراطس اور انکساغورث تک تمام عظیم سائنسدانوں کی تاریخ یا فلسفے کی کتابوں میں عام طور پر ’’پیش رویان سقراط‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے، جن کی زندگیوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ سقراط، افلاطون اور ارسطو کے ورود تک فلسفے کا قلعہ سنبھالے رکھیں اور اگر ہوسکے تو ان کے مستقبل کے خیالات پر تھوڑا بہت اثر انداز ہوں، عرسطارقس نے جو نظریات بیان کیے اگرچہ وہ حقیقت سے قریب ترین تھے تاہم اس کے تصورات نے سقراط اور انکساغورث، برونو اور گلیلیو کی طرح اس کے عہد کے معاصرین کو بھی برانگیختہ کردیا۔

اس کے خلاف بھی ویسے ہی نعرے لگنے لگے جیسے سقراط وغیرہ جیسے حیرت پسند فلسفیوں کے خلاف لگائے گئے تھے یعنی یہ کہ اسے معصیت کی سخت ترین سزا دی جائے، اس نے بھی سزا پر حق و صداقت کو ترجیح دی اور صاحبان اقتدار کے سامنے سر جھکایا اور نہ ہی بکا، بلکہ حق کی اشاعت پر کاربند رہا۔ آج فلسفہ و سائنس ان ہی عظیم لوگوں کی بدولت ہم تک پہنچا ہے اور تاریخ میں یہ فلسفہ و فلسفی زندہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔