تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے خلا میں پہلا تھری ڈی اوزار تیار کرکے نئی تاریخ رقم کردی گئی

ویب ڈیسک  پير 22 دسمبر 2014
اس نئی تخلیق سے خلائی اسٹیشن چھوٹے اوزار بنانے میں زیادہ خود کفیل ہوجائے گا،ناسا

اس نئی تخلیق سے خلائی اسٹیشن چھوٹے اوزار بنانے میں زیادہ خود کفیل ہوجائے گا،ناسا

نیو یارک: ٹیکنالوجی کی دنیا میں سائنسدانوں نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے تھری ڈی پرنٹر کو نئی جدت دے دی ہے اوراس کا عملی مظاہرہ کیا گیا بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر جہاں تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے ایک رینچ بنا کر نئی تاریخ رقم کردی گئی۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق خلائی اسٹیشن کے کمانڈر بیری ولمور نے ناسا سے ایک رینچ بھیجنے کی درخواست کی تھی لیکن ان کی اس ڈیمانڈ کو پورا کرنے میں کافی عرصہ درکارتھا کیونکہ  اسے کسی راکٹ کے ذریعے ہی خلا میں بھیجا جاسکتا تھا اور اس سے قبل بھی کسی بھی خلاباز کی کوئی  ضرورت  پورا کرنے میں بھی کئی ماہ لگ جاتے تھے، اس دوران تھری ڈی پرنٹر بنانے والی کمپنی نے خلائی اسٹیشن کے کمانڈر کی درخواست کوریڈیوپرسن لیا بس پھر کیا تھا انہوں نے لمحوں میں اس رینچ کی ایک تصویر بنا کر اسے خلائی اسٹیشن ای میل کےذریعے روانہ کردیا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ اس رفتار سے تو  راکٹ بھی کوئی چیز خلا نہیں لے جا سکتا۔ گزشتہ سال ستمبر میں بھیجے جانے والے تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے زمین سے بھیجی گئی ہدایات کا استعمال کرتے ہوئے ولمور نے خلا کا پہلا تھری ڈی اوزار تیار کر لیا، ناسا کا کہنا ہے کہ اس نئی تخلیق سے خلائی اسٹیشن چھوٹے اوزار بنانے میں زیادہ خود کفیل ہوجائے گا۔

تھری ڈی پرنٹرز بنانے والی کمپنی کے بانی مائیک چن کا کہنا تھا کہ یہ پہلا اوزار ہے جسے زمین پر ڈیزائن کیا گیا اور خلا میں ڈیجیٹلی اسے ہارڈ ویئر کی شکل میں حاصل کر لیا گیا جب کہ یہ صرف آغاز ہے اب اس کے ذریعے آپ اسپیئر پارٹس، اجزا اور دیگر اشیا بھی بنا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمپنی اگلے سال مدار میں ایک بڑی مینوفیکچرنگ مشین بھیجنے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے نہ صرف خلائی اسٹیشن اپنے لیے بلکہ مدار میں موجود دیگر مصنوعی سیاروں کے لیے بھی ہارڈ ویئر بناسکے گا اور انہیں امید ہے کہ  ناسا یادوسری خلائی ایجنسیاں مختلف اشیا کو بنوانے کے لیے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر باقاعدگی سے پرنٹنگ کے آڈر بھیجا کریں گی، کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پرنٹر سے اشیا کی پرنٹنگ کے لیے مختلف اقسام کے خام مال استعمال کرنے کے تجربات کر رہی ہے، جن میں چاند کی مٹی کی طرح کا مادہ بھی شامل ہے جس کے ذریعے ہی وہاں بیس بنانے کے لیے ضروری اشیا کو پرنٹ کیا جاسکتا ہے۔

بہرحال مستقبل میں یہ منصوبہ کس قدر کامیابی حاصل کر سکتا ہے تاہم فی الحال خلا بازوں کے لیے یہی کافی ہے وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے خلا میں ہی اپنے اوزار بنا سکیں گے اور بھی بغیر کسی محنت کے اور اس کےساتھ ساتھ کئی کئی ماہ تک انتظار سے بھی ان کو چھٹکارا مل گیا ہے۔ بس جیسے ہی کسی اوزار کی ضرورت پڑی زمین پر درخواست بھیج دی گئی اور لمحوں میں ڈیزائن ان کے پاس ہوگا جب کہ اگلے چند لمحوں میں تھری پرنٹر کی مدد سے اوزار ہارڈ ویئر کی شکل میں ان کے ہاتھ میں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔