سبق پھر پڑھ صداقت کا

شہلا اعجاز  پير 22 دسمبر 2014
 shehla_ajaz@yahoo.com

[email protected]

حضرت لقمان حکیم کے آقا نے ایک مرتبہ ان سے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے دو بہترین حصے میرے پاس لے آؤ۔ لقمان حکیم نے بکری ذبح کی اور اس کے دل اور زبان آقا کے پاس لے گئے۔ آقا نے پھر ایک حکم دیا کہ ایک بکری ذبح کرو اور اس کے دو بدترین ٹکڑے میرے پاس لے آؤ، انھوں نے بکری ذبح کی اور پھر دل اور زبان لے آئے، آقا نے یہ دیکھ کر ان سے پوچھا کہ میں نے بہترین حصے طلب کیے تو تم یہی لے کر آئے تھے اور جب میں نے بدترین حصے کہا تب بھی تم یہ لے آئے۔ حضرت لقمان حکیم نے کہا میرے آقا! دل اور زبان اچھے رہیں تو پھر ان سے بہترین کوئی عضو نہیں، اگر یہ بگڑ جائیں تو پھر ان سے بدتر کوئی عضو نہیں ہوسکتا۔

اس تیز رفتار دور میں دل تک پہنچ کا راستہ خاصا مشکل ہے کہ ویسے ہی لوگ دل میں کچھ تو لبوں پر کچھ رکھتے ہیں۔ البتہ زبان کا استعمال جس بھی طرح سے کیا جائے سامنے آجاتا ہے شستہ زبان ہو تو واہ واہ! لیکن اگر زبان کا استعمال بے تکان اور بے ہودگی کا شکار ہو تو بھی واہ واہ ہوتی ہے لیکن یہ والی واہ واہ پہلی والی واہ واہ سے کہیں شدید ہوتی ہے اور اس کے اثرات اصل مفہوم کو ایسے نگل لیتے ہیں کہ کسی کی گردن میں پھندا لگتے لگتے پھولوں کے ہار پڑ جاتے ہیں۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو قائد اعظم کیوں کہا جاتا ہے اس لیے کہ آپ اپنی قوم کو اس طرح لے کر چلے کہ منزل پر پہنچ کر ہی دم لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس انتھک محنت کے باعث آپ خود اس منزل پر پہنچ کر سال بھر بھی نہ جی پائے۔ قائد اعظم ایک رہنما تھے ایک ایسی قوم کے رہنما جو ہندو اکثریت کے درمیان اپنا تشخص پیدا کرنا چاہتی تھی تو دوسری جانب انگریز بہادر کو بھی یہ باور کرانا تھا کہ آزادی کا حق برصغیر میں دو واضح مختلف اقوام کو ہے یعنی ہندو اور مسلمان۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان کے قیام کے چند برسوں بعد بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’مجھے صرف اس مقصد کے لیے ہندوستان بھیجا گیا تھا کہ میں اسے (ہندوستان کو) ہر صورت متحد رکھوں اور ایک متحدہ ہندوستان کو اقتدار منتقل کروں، میں نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے بڑی کوششیں کیں دن رات ایک کردیے۔ راتوں کی نیند حرام کی لیکن میری راہ میں ایک ایسا شخص حائل تھا جو پہاڑ کی طرح رکاوٹ بنا رہا اور وہ تھا ’’محمد علی جناح‘‘۔ ’’ماؤنٹ بیٹن کی تحریری یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’فریڈم ایٹ مڈ نائٹ‘‘ اس حقیقت کی عکاس داستان ہے، یہ کتاب اس کی موت سے ذرا پہلے لکھی گئی تھی، یقینا قائد اعظم کی شخصیت میں ایسا سحر تھا کہ جس نے مسلمانوں کو ان کا گرویدہ کرلیا تھا، ان کی تقاریر زیادہ تر انگریزی میں ہوتی تھیں وہ ایک مہذب اور شائستہ انسان تھے۔

وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے لیکن پھر بھی بہت زیادہ گفتگو کرنے کے قائل نہ تھے۔ نپا تلا بولتے اور جو بولتے خوب بولتے تھے۔ وہ پہلے کانگریس میں شامل ہوکر برصغیر کو آزاد کروانا چاہتے تھے لیکن نہرو رپورٹ مرتب کرنے کے بعد جب جواہر لال نہرو نے اعلان کیا کہ برصغیر میں صرف دو قومیں ہیں ایک انگریز اور دوسری ہندو تو جناح نے اس کے جواب میں فرمایا تھا۔ نہیں ایک تیسری قوت بھی ہے اور وہ ہے مسلمان۔ اگر اس دور کے منظرنامے کو آج 2014 کے منظر نامے پر چسپاں کریں تو ہمارے لیڈران کا انداز تخاطب، گفتگو، تقاریر اس دور کے اعتبار سے کہیں زیادہ معیار سے گری محسوس ہوگی۔

مجھے ذاتی طور پر پہلے قائد اعظم کی پرانی تصاویر اور فوٹیجز دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ قائد اعظم شاید اپنی قابلیت اور تعلیم کی بدولت اپنے آپ کو خود سے برتر سمجھتے تھے۔بیرسٹر شاہدہ (جن کے والد حسین شہید سہروردی تھے) سے انٹرویو کے دوران یہی سوال پوچھا جس پر انھوں نے مجھے جواب دیا کہ قائد اعظم کو بہت پہلے سے علم تھا کہ انھیں کیا بیماری ہے وہ جانتے تھے کہ یہ مرض (ٹی بی) اس زمانے میں لاعلاج تھا اور اس کے جراثیم دوسروں کو لگ کر صحت مند انسانوں کو بھی بیمار کرسکتے ہیں۔

اسی لیے قائد اعظم کا رویہ محتاط ہوتا تھا یہ سن کر میرے ذہن سے ان کا انداز کچھ اور بھی خوبصورت دکھائی دینے لگا۔ ظاہر ہے کہ ایک پڑھا لکھا باشعور انسان جسے علم تھا کہ وہ موت کی وادیوں کا مسافر ہے پھر بھی جتنی جانفشانی سے انھوں نے دن رات ایک کیے یہ ان کی نیک نیتی ہی تھی کہ رب العزت نے انھیں ان کی زندگی میں ہی ان کے مقصد کو پورا کر دکھایا۔ صد افسوس ہم اتنے عظیم لیڈر سے بھی کچھ نہ سیکھ سکے۔ بلکہ اپنی نوجوان نسل کو ہم درشتگی، بدتہذیبی، خودفریبی اور قوانین کا احترام نہ کرنے کی جانب راغب کر رہے ہیں، بنانے اور سنوارنے کی بجائے بگاڑنے اور توڑنے کے سبق پڑھا رہے ہیں۔

یہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ یہ کس ادوار کے اسباق ہیں کس کے تحریر کردہ ہیں؟ جانتے ہیں پاکستان نے جمہوری انداز میں سفر کرنا ابھی تک نہیں سیکھا لیکن یہ سکھانے کے کون سے اطوار ہیں؟ ایک ایک دن کرکے بہت محنت سے اپنا خون پانی کرکے پھر کوئی سانچہ بنتا ہے ہم تو خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ہمارے بڑوں نے محنتیں کرکے یہ سانچہ بناکر دے دیا۔ اب ہمیں اسے بنانا ہے سنوارنا ہے۔ خود اور اپنی نئی نسل کو قائد اعظم جیسے عظیم رہنما کی تاریخ پڑھانی ہے تاکہ یہ نسل بردباری، دیانت داری، دلیری سے آگے ترقی کرنے کے پہلو تلاش کرے۔ ماڈل تو ہمارے پاس موجود ہے اس پر کام کرکے دیکھئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔