پھولوں کے شہر میں رقص ابلیس

محمد عارف شاہ  پير 22 دسمبر 2014

کاش کہ 16دسمبر کو جو کچھ ہوا، وہ نہ ہوا ہوتا، کاش سولہ دسمبر کا سورج طلوع نہ ہوتا، سحر نہ ہوتی۔ کاش کسی صورت پاکستان کے کیلنڈر سے 16 دسمبر کا دن مٹ سکتا۔ اے کاش، کاش، کاش، آج پھر کوئی اعتزاز حسن ان معصوموں اور موت کے فرشتوں کے بیچ آجاتا۔ ان بے گناہوں کا کیا قصور تھا، جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے دوستوں کا قتل عام ہوتے دیکھا؟ دہشت گردوں کے عذر خواہ دیکھ لیں، آج ان کے ناراض بھائیوں نے اسکول کے معصوم بچوں سے ان کے یونیفارم چھین کرکفن پہنادیا ہے۔

ایک سو بتیس ننھی معصوم جانیں اور یہ جانیں تھیں ہی کہاں، ابھی انھوں نے جینا شروع کب کیا تھا؟ ان ادھ کھلی کلیوں کو روندنے میں درندوں نے چند منٹ بھی تو نہ لگائے، ایک لمحے کو ان کے ہاتھ تک نہ تھرائے۔ ظالموں نے ماؤں کے جگر گوشوں کو، روشنی کے ان ننھے چراغوں کو بجھانے سے پہلے ایک لمحے کو بھی نہ سوچا۔ ایک کربناک چیخ ہے جو بار بار لبوں کے بند توڑ کو باہر نکلنے کو بے تاب ہے۔ میری ہی نہیں ہر پاکستانی کی یہی کیفیت ہے، ہم سب ان بچوں اور ان کے والدین کے آگے شرمندہ ہیں، اگر ہم اس ناسور کے خلاف متحد ہوتے اور اپنے اپنے طور پر لوگوں کی سوچ بدلنے کی کوشش کرتے تو شاید آج یہ ایک سو بتیس زندگیاں بچ جاتیں۔

خیبرپختونخواہ کا دارالحکومت پشاور جسے پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے، بہت بدقسمت ثابت ہوا ہے، اس شہر نے اپنے شہریوں کے ساتھ ہونیوالے المناک حادثات کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے غم برابر برداشت کیے ہیں۔ تارہ ترین سانحہ جو بلاشبہ قومی سانحہ ہے، پھولوں کے شہر میں معصوم پھول جیسے بچوں کے ساتھ پیش آیا ہے، جہاں سقوط ڈھاکا کے دن سولہ دسمبر کو رقص ابلیس ہوا۔ رات بھر میٹھی اور پرسکون نیند لینے والے پاکیزہ سوچوں کے حامل پاکیزہ روح بچے بیدار ہوئے تو ایک لہو رنگ سیاہ دن ان کا منتظر تھا۔ خوشی سے جھومتے اور شاداں و فرحاں اسکول جانیوالوں کو کب معلوم تھا کہ وہ درندوں کی سفاکی کا شکار ہوجائیں گے؟ جب معصوم روح طالب علم اسکول پہنچے تو وہ معمول سے زیادہ خوش تھے کہ اسکول میں ایک تقریب تھی، مگر ہائے افسوس کہ اس تقریب میں بھیڑیے بھی گھس آئے تھے، بھیس بدل کر۔ جنہوں نے ایف سی کی وردی پہنی ہوئی تھی، درندوں کی سفاکیت اور مکاری اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ دھوکے کی اوٹ میں تھے۔ جیسے ہی وہ کئی درندے اسکول کی عمارت میں گھسے تو اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ سفاکیت اپنی پہچان خود کرواتی ہے وہ اپنا وار اندھا دھند کرتی ہے، جیسے اسکول میں موجود بچوں پر سفاکیت نے درندہ صفت انسانوں کی شکل میں اپنا بدترین وار کیا۔

یہ تازہ سانحہ ایک بڑا سانحہ ہے، دھرتی کے سینے پر ہونے والا عظیم سانحہ، ایسے سانحات جب دھرتی کے سینے پر رونما ہوتے ہیں تو دھرتی کانپ اٹھتی ہے۔ جیسے ہی یہ سانحہ رونما ہوا، پوری پاکستانی قوم چیخ اٹھی، پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا، اسکول میں بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، اندھا دھند فائرنگ سے بچوں کی خاصی تعداد شہید ہوگئی، بعد میں جب سکیورٹی فورسز پہنچیں تو انھوں نے معصوم بچوں اور اساتذہ کو جو محصور ہوچکے تھے بحفاظت نکال لیا۔ جیسے ہی بچوں کی موت کی خبر ان کی چیخوں کی آواز بن کر اسکول کی عمارت سے باہر نکلی تو پورے ملک پر محیط ہوگئی۔

ہر طرف کہرام مچ گیا، پوری پاکستانی قوم جو اس جگہ سے دور تھی جہاں ظلم برپا ہوچکا تھا، ٹی وی کی اسکرینوں کے سامنے بیٹھ گئی، ہر آنکھ اشکبار ہوگئی، ہر دل پژمردگی کے احساس تلے دب گیا، جن ماؤں کے بچے اس بربریت کا نشانہ بنے، وہ مائیں کانپ اٹھیں، ان کی آہیں آسمان کی وسعتوں کو اپنی لپیٹ میں لینے لگیں، جن ماؤں کے کلیجے دہشتگردوں کی سفاکی کا نشانہ بنے وہ مائیں جب اپنے اپنے جگر کے ٹکڑوں کی تلاش میں پہنچیں تو کچھ کو جسمانی ٹکڑے ملے، اور کچھ کو اپنے بچے زخموں میں چور خون میں لت پت ملے۔ جس طرح دہشتگردوں نے حملہ کیا وہ قتل عام کے زمرے میں آتا ہے۔یاد رکھیں، دہشتگردوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی ان کا تعلق انسانیت سے کسی طور جڑتا ہے، وہ بس درندے ہوتے ہیں، سفاک درندے، ایسے خونخواروں کا تعلق انسانوں سے جوڑنا بھی گناہ عظیم ہوسکتا ہے۔

صوبائی دارالحکومت پشاور مسلسل عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہے، عسکریت پسندوں سے مذہبی، پبلک مقامات، اسکولز اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے بھی محفوظ نہیں، صوبہ خیبرپختونخواہ میں عسکریت پسندوں کی طرف سے پولیس تھانوں اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اب اسکولوں کو بھی نشانہ بنایاجا رہا ہے، ایک منظم سازش کے تحت پختونوں اور اس خطے کے بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لیے اسکول پر بزدلانہ حملہ کرکے بربریت کی بدترین مثال قائم کی گئی ہے۔

اس خطے اور یہاں کے عوام کے خلاف سازش اور اس خطے کو غیر مستحکم کرنے کے پیچھے کونسی قوتیں برسرپیکار ہیں؟ یہ وقت ہے کہ ہم کو ملکر سازش اور پس پردہ قوتوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ یہ وہی قوتیں ہیں جو پختون کے خطے اور پختونوں کی خوشحالی نہیں دیکھ سکتیں، یہ قوتیں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے اسکول پر دہشتگردانہ حملہ کرکے معصوم بچوں اور خواتین اساتذہ کی جانیں لے رہی ہیں، ان ننھے و معصوم بچوں نے ان لوگوں کا کیا بگاڑا ہے؟ ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ علم کے حصول کے لیے نکلے ہیں، صوبہ خیبرپختونخواہ بالخصوص پشاور اس کے ملحقہ اضلاع آج دہشتگردی کی جس بدترین صورتحال سے دوچار ہیں، اس نے عراق اور بیروت میں ہونیوالے خود کش حملوں، دھماکوں کی تمام مثالیں پیچھے چھوڑ دی ہیں، اہل پشاور آج جس کرب اور مصیبت میں اپنی زندگی کی باقی ماندہ سانسیں لے رہے ہیں اور جس حوصلہ مندی سے وہ ان حالات کا مقابلہ کررہے ہیں، یقینا ان کا یہ صبر اور قربانی کسی اعزاز سے کم نہیں۔

میں یہ نہیں کہوں گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے، یہ کہنا بھی بیکار ہے کہ ہمیں اب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے، کیا ابھی بھی سنجیدگی سے سوچنے کو کچھ باقی رہ گیا ہے؟ یہ وقت ٹھوس عزم کا ہے، اب فیصلہ پوری پاکستانی قوم کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ ان دہشتگردوں، ان کے حمایتیوں اور عذر خواہوں کے ساتھ، چاہے ان کا تعلق کسی بھی تنظیم یا ادارے سے ہو۔

یا پھر اپنے ہم وطنوں کے ساتھ کہ جن کی گودیں آج ان بھیڑیوں نے اجاڑ ڈالیں؟ خدا کے واسطے! مذمتی بیانات کی رٹا بازی اب بند کریں، ایسے رسمی پیغامات پڑوسی ممالک سے تو سننے میں اچھے لگتے ہیں لیکن اپنی حکومت اور اپنے ریاستی اداروں کے منہ سے نہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ دہشتگرد محض شمالی وزیرستان تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک کے چپے چپے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ خدارا، اب تو متحد ہوجائیں، ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھلونا بننا بند کردیں، ہم جانتے ہیں کہ یہ سب مذہب کے نام پر نہیں ہورہا، ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ ان بچوں کا انتہائی بے رحمی اور سفاکی سے قتل کیا گیا ہے اور ہم سب اصل قوتوں سے بھی واقف ہیں۔ یاد رکھئے! اگر آج پاکستانی قوم خاموش تماشائی بنی محض مذمت کرتی رہی تو یوم حساب ان معصوم بچوں کے ہاتھ اور ہم سب کے گریبان ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔