سوچیں

سید نور اظہر جعفری  پير 22 دسمبر 2014

’’متقی اور تقویٰ‘‘ یہ دو لفظ ہم عام طور پر پڑھتے اور سنتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک اور لفظ کثرت کے ساتھ ’’مون‘‘ جس کی جمع پونجی حکمرانی کا اختیار ’’امیرالمومنین‘‘ ہے۔ یہ لفظ قرآن سے نکلے ہیں اور ان کی وضاحت اور صراحت نبی اکرم ؐ نے فرمائی ہے۔ وہ بھی زیر نظر ہوگی آپ کے ضرور۔

ہم نہ ’’مولوی‘‘ نہ ’’عالم‘‘ لہٰذا دینی نقطہ نظر سے اس پر گفتگو کا حق نہیں رکھتے۔ اور رکھنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ ’’متفق علیہ‘‘ ہونا بہت مشکل ہے۔ دینی معاملات میں بھی افہام و تفہیم کے بہت سے ایسے فرق ہیں کہ جن پر صرف تعجب ہی کا اظہار کیا جاسکتا ہے ’’لب کشائی‘‘ نہیں کی جاسکتی۔

ہم سماجی اعتبار سے کچھ چیزوں کو سمجھنا، پرکھنا، جاننا چاہتے ہیں کہ اس کی بے حد ضرورت ہے۔ کیونکہ جیساکہ ہم نے پہلے ہی عرض کیا تھا کہ عدم اتفاق کی صورت دینی معاملات میں اس قدر ہے کہ ’’شہید‘‘ کی تعریف بھی ضرورتاً ہوگئی ہے۔ خودکش کو شہادت حاصل کرنے بھیجا جاتا ہے اور شکار ہونے والے تو شہید کہلائیں گے ہی کہ ان کا تو کوئی جرم نہیں کہ موت کے حوالے کردیا گیا۔ میری اس بات سے بھی اختلاف ہوسکتا ہے اور مجھے اس پر چنداں حیرت نہیں ہوگی اگر ایسا ہو۔

ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ موجودہ حالات اور ملک کے عمومی حالات گزشتہ 40 برس کے تو یہ بتاتے ہیں کہ جمہوریہ میں ’’جمہور‘‘ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اب رہ گیا اسلامی تو دہشت گرد اسے بھی ختم کرنے کے درپے ہیں کہ ایسا اسلام دنیا میں کوئی تسلیم نہیں کرے گا جو ظلم اور بربریت اور یزیدیت کا عکاس ہو۔ اب اگر آپ اسلام کے ابتدائی دور کو دیکھ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ شخصیات جن سے تاریخ اسلام جگمگا رہی ہے وہ سماجی تقدس رکھتے تھے صرف تقویٰ نہیں رکھتے تھے کہ جس کی وجہ سے ان کو ’’متقی‘‘ سمجھا اور کہا جاتا تھا۔

یعنی وہ اگر ترویج اسلام کرتے تھے تو روزگار بھی کرتے تھے اور کوئی نہ کوئی کام کرکے گھر کا خرچہ پورا کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ کی تابعداری کا فرض بھی پورا کرتے تھے جس میں صرف پنج وقتہ نمازیں یا تہجد اور اشراق نمازیں نہیں تھیں بلکہ معاملات زندگی میں تقویٰ نظر آتا تھا۔

سب سے پہلے تو وہ رزق حلال کے لیے کوشش کرتے تھے، کاروبار، محنت مزدوری، ملازمت یا جو بھی اس زمانے میں حلال روزگار کا ذریعہ تھا وہ اختیار کرتے تھے کیونکہ ان کا ایمان اور تصور ایمان یہ تھا کہ ’’لقمہ حرام‘‘ سے عبادت بھی بے کار اور زندگی بھی کیونکہ جسم کی پرورش اگر لقمہ حرام سے ہوگی تو جسم فربہ تو ضرور ہوجائے گا کہ یہ لقمہ حرام کی خصوصیت ہے مگر یہ اللہ کا تابعدار جسم نہیں ہوگا کسی اور کا تابعدار ہوگا جس کی ہدایت پر ’’لقمہ حرام‘‘ اختیار کیا لہٰذا عبادت بس محض ایک نمائش ہی ہے شاید خوشنودی پروردگار کا سبب نہیں کیونکہ اللہ اور ابلیس کے احکام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

دوسری بات جو لوگ اس وقت یاد اور جس کا خیال رکھتے تھے وہ تھا لوگوں سے رویہ اور سلوک اور پھر احسان۔ یہ وہ احسان نہیں رہے جو آج لوگ ایک دوسرے پر کرتے ہیں۔ ایک اچھی بات کو دوسرے کو بتانا بھی احسان تھا۔ ’’متقی‘‘ کی تیسری بات عدالت اور انصاف تھی۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے بارہا آپ نے سنی ہوگی اور پڑھی ہوگی کہ ’’دوسرے کے لیے وہ پسند کرو جو آپ اپنے لیے پسند کرتے ہو۔‘‘ یہ ایک بہت بلیغ فقرہ ہے۔ اس کے معنی کو بیان کرنے کو بھی وسعت ذہنی چاہیے کیونکہ اپنے لیے پسند کرنے میں صرف جزا نہیں ہے ’’سزا‘‘ بھی ہے اور ’’عطا‘‘ بھی ہے۔

اگر آپ کسی کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو سوچیں کہ اگر یہ مجھے ملتا تو مجھے کیسا لگتا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہاں اگر مجھے ملتا تو میں خوش ہوتا تو ضرور دوسرے کو دے دیں۔ اور اگر آپ سوچتے ہیں کہ یہ تو میرے لیے کم ہے یا اس کا معیار کم ہے میرے لیے ، تو پھر یہی دوسرے کے لیے بھی سوچنا اور فیصلہ کرنا یہ بھی ایک پہلو ہے تقویٰ کا۔

اس زمانے میں جہاں ہم سانس لے رہے ہیں کیا ’’متقی‘‘ کا یہ تصور عمل پیرا ہے۔ کیا اس کی کوئی حقیقت ہے، کہنا پڑے گا نہیں ہے۔ اس کی جگہ ایک ٹرم نے لی۔ VIP، پھر VVIPاور پھر VVVIP۔ یہ انسانوں پر انسانوں کی بدترین برتری اور احساس تفاخر جوکہ جھوٹا ہے کو بڑھانے دوسروں پر مسلط کرنے اور خدا کے قانون سے کھلم کھلا نفی کرنے کا اعلان ہے۔

پاکستان کا آئین جسے ہم 73 کا آئین کہتے ہیں انسانوں کا بنایا ہوا ہے اسے مقدس دستاویز قرار دے دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کر رہے ہیں جو قرآن فہمی کے سلسلے میں مختلف مکاتب فکر کرتے ہیں۔ خیر وہاں تو پھر بھی قرآن کے اصل الفاظ تو مشترک مانے گئے ہیں یہاں تو اس دستاویز کے ہر نکتے پر ہر ایک کا الگ فلسفہ اور تاویلات ہیں۔

آئین اور قانون بنانا اگر ایک ادارے کا کام ہے تو اتنا مبہم کیوں کہ اس کی وضاحت اور تشریح کوئی دوسرا ادارہ کرے فی الحال تو یہی ہو رہا ہے کہ لوگ دوسرے ادارے کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ تشریح کرے کہ ’’ایماندار‘‘ کی تشریح کیا ہے۔ کمال ہے کہ اب اس ملک میں ہمارے سماج میں ’’ایماندار‘‘ کی تشریح پر ’’بے ایمان‘‘ برا مان جاتے ہیں۔

’’ظالم‘‘ کی تشریح پر ظلم کرنے والے خفا ہوجاتے ہیں۔ کاروں کے شیشے توڑنے والے کو سوا گیارہ سال کی سخت سزا دی جاتی ہے اگر سخت ہے جیل میں تو۔ اور قتل کرنے والے جو وہیں موجود تھے ان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو سزا کا تصور بھی محال ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو ،ایک منتخب وزیر اعظم کو قتل کی سازش کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔یہ بھی تاریخ ہے اور اب قتل کرنے والے اعلی عہدوں پر ہیں ان کو کوئی نہیں پوچھ رہا کہ تم کون ہو۔ بار بار تفتیش کرائی جارہی ہے۔ خاک کو چھان چھان کر سونا بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جب یہ کالم لکھا گیا تھا تو ایک تحقیقاتی ٹیم اور بنا دی گئی تھی جس کو علامہ صاحب نے قبول نہیں کیا تھا۔ بات کبھی مومن، متقی اور تقویٰ کی بیچ میں ان مثالوں کے آجانے کی معذرت۔

پاکستان کے آئین میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ 19 یا بیس کروڑ افراد کے لیے ہے اور ان میں کوئی تفریق، رنگ، نسل مذہب، جنس کے اعتبار سے نہیں ہے، مگر اس آئین کو چاروں صوبوں اور مرکز کے ادارے نے ’’یرغمال‘‘ بنا رکھا ہے اپنا اپنا فلسفہ اور ترجمہ۔ ووٹ لے کر ووٹ دینے والوں پر حکمرانی یہ سمجھا ہے لوگوں نے 73 کے آئین کا مقصد۔ جب کہ اس کا مقصد تھا ووٹ لے کر ووٹ دینے والوں کی خدمت۔ خدمت کی مثال یہ ہے کہ قائم علی شاہ نے تو کہہ دیا ’’تھر میں لوگ پہلے بھی مرتے تھے یعنی بچے، یہ تو اب میڈیا کی ترقی سے لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا ’’تھر کے لوگوں کے پاس تعداد بتائی کہ لاکھوں مویشی ہیں۔

لہٰذا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ تھر میں غربت ہے۔ یعنی حکمرانوں کی نظروں میں تھر کے بچوں کا مرجانا کوئی خاص بات نہیں، پانی نہیں ہے وہاں۔ چارہ نہیں ہے مویشی ہوا کھا کر زندہ رہیں گے شاید۔ کیا کہیں جب حکومتیں ایسا رویہ رکھیں عوام کے لیے تو کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ اس سارے سسٹم کا اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ بھوک اور افلاس ہی وہ بیماریاں ہیں جس کے بیماروں نے فرانس اور روس جیسی مملکتوں کو ان کے سربراہوں کو تاریخ میں وہ سبق دیے ہیں کہ آج تک دنیا یاد کرتی ہے۔

ان سربراہوں کو ان لوگوں کو جنھیں خدا نے حاکم بنایا ہے انسان رہنا چاہیے، اپنے آپ کو دیوتا اور خدا بننے اور کہلانے سے بچنا چاہیے۔اگر حکمراں یہ رویہ عوام کے ساتھ رکھیں گے تو پھر ان کے ساتھ ہے جو کہتا ہے کہ اگر تم ان کے ساتھ درست نہیں تو پھر میری سزا کے مستحق ہو کتاب مقدس میں انسان کی عزت اور اس کے نفس کی حفاظت کا ذکر بار بار ہے۔

جب دنیا کے حکمراں آنکھیں بند کرکے اپنے لیے چین کی بانسری بجانا شروع کردیں تو پھر وہ جو اصل حاکم ہے ساری کائناتوں کا قہر نازل کرتا ہے اور کوئی نہیں بچتا، صرف دیر ہے اس کے ہاں کہ تم آخر تک توبہ کرلو، انسان بن جاؤ، اندھیر نہیں ہے اس کے ہاں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔