شدت پسندی کا خاتمہ ضروری

ذوالقرنین زیدی  پير 22 دسمبر 2014

انسان کے وسائل محدود اور خواہشات لامحدود ہیں، کوئی بھی شخص اپنی تمام تر توانائیاں ان خواہشات کی تکمیل پر صرف کرتا رہتا ہے، اگرچہ وہ ایک خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے مگر خواہشات کا لامتناہی سلسلہ اس کے تعاقب میں لگا رہتا ہے، ایک کے بعد ایک خواہش اس کے دل میں پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ایک بچے کو کسی کھلونے کا شوق ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اگراسے وہ کھلونا مل جائے تواس کی تمام خواہشات پوری ہو جائیں گی اور وہ مزیدکسی شے کی خواہش نہیں کرے گا۔

کھلونا ملنے پر وہ اس سے کھیلتا، چمکاتا، پیار کرتا اور لوگوں کو دکھاتا ہے، لیکن جوں جوں دن گزرتے ہیں تو اس کھلونے کی کشش کم ہونے لگتی ہے، پھر یہی کھلونا اس کے لیے ایک عام سی شے بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کھلونے کے بعد اس کے اندر کسی اور کھلونے یا شے کے حصول کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، یہ خصلت بچوں ہی میں نہیں بلکہ بڑی عمر کے لوگوں میں بھی اسی طرح پائی جاتی ہے۔ انسانی رویوں کا مطالعہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان اپنی لامحدودخواہشات کے ساتھ اس محدود وسائل والی دنیا میں خوش نہیں ہے، شاید اسی لیے کہ لامحدود خواہشات کی تکمیل کے لیے ذرایع کا لامحدود ہونا بھی ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے لیکن کوئی نہ کوئی چیز ایسی موجود رہتی ہے جو اسے ملنا باقی ہوتی ہے۔

خواہشات اور ان کی تکمیل کے درمیان انسان کو اکثر وسائل کی دستیابی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے اور جب وہ وسائل کی دستیابی سے محروم ہوتا ہے تو نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے، وہ متبادل وسائل تلاش کرتا ہے، اگر پھر بھی اس کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ ناراضی کا اظہار کرتا ہے، اسے غصہ آتا ہے، وہ اداس ہوجاتا ہے، مایوسیوں کے بادل اس کے گرد منڈلانے لگتے ہیں، اس میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے، ان تمام نفسیاتی عوامل کے دوران اس میں عدم برداشت کا مادہ پرورش پاتا رہتا ہے جس سے انسان مستقل طور پر چڑچڑا اور غصیلا ہوجاتا ہے۔ انسانی مزاج میں پیدا ہونے والی یہ نفسیاتی تبدیلیاں اسے بہت سی جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا کردیتی ہیں، جن میں فشار خون، عارضہ قلب اور شوگر جیسے امراض سرفہرست ہیں۔

مایوسی دراصل ایک شیطانی عمل ہے، شیطان جس کا اصل نام عزازیل ہے، اس کو ابلیس اسی لیے کہا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کے بعد اس کی رحمت سے نا امید ہوگیا تھا، سو وہ انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے ناامید کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ شیطان پہلے وسوسوں کے ذریعے انسان کے اندر جائز و ناجائز خواہشات کے انبار لگاتا ہے، پھر ان کی عدم تکمیل پر اسے ناامید کرتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

غصے کا اظہار انسان کا فطری عمل ہے، جب کوئی بھی شخص یا شے اس کی خواہش کی تکمیل کے آڑے آئے تو غصے میں مبتلا ہوجاتا ہے، وہ اسے نقصان پہنچاکر یا ملامت کے ذریعے اسے زائل کرتا ہے۔ غصے کی حالت میں لڑائی جھگڑا، مار کٹائی اور گالم گلوچ ہمارے معاشرے میں عام طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں، ضروری نہیں کہ یہ کام غصے میں مبتلا شخص خود ہی کرے بلکہ کوئی تیسرا شخص بھی یہ کام کردے تو پہلے شخص کے غصے میں کمی آجاتی ہے۔ اگر ایک شخص کو دوسرے پر غصہ ہو، فرد دوم کو پولیس اٹھا کر لے جائے، یا عدالت سزا دے دے تو غصہ ختم یا کم ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی تیسرا شخص اس کو گالی دے یا ملامت کرے تو بھی فرد اول کا غصہ ختم یا کم ہوجاتا ہے۔

ایسی بہت سی مثالیں ہم اپنے گھر یا اردگرد اکثر دیکھ سکتے ہیں، ایک چھوٹے سے بچے کو کوئی دوسرا بچہ ستائے تو وہ غصے کا اظہار کرتا ہے، اگر کوئی بڑا شخص چھوٹے بچے کی حمایت کرتے ہوئے بڑے بچے کو جھوٹ موٹ ہی مارے تو چھوٹا بچہ اپنا غصہ ختم کرکے ہنسنے لگ جاتا ہے، اسی طرح اگر بچہ زمین پر گر کر رونے لگے اور آپ زمین کو جھوٹ موٹ معمولی پیٹ دیں تو اس بچے کا غصہ ختم ہوجاتا ہے۔

اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں انسان کا غصہ، مایوسی یا احساس محرومی نقصان پہنچانے والے یا اس کی خواہشات کی تکمیل میں حائل ہونے والے کو ہی ایذا دے کر زائل ہو بلکہ بسا اوقات وہ اپنا غصہ کسی دوسرے فرد کو نشانہ بنا کر بھی اتارلیتا ہے۔ جیسے گھر میں بیوی سے لڑکر دفتر آنے والا افسر اپنے ماتحتوں کو جھاڑ پلا کر غصہ اتار لیتا ہے، یا افسر کی جھاڑ کا غصہ گھر جاکر بچوں کی پٹائی کے ذریعے اتار لیتا ہے۔

ہمارے یہاں غصہ، مایوسی، احساس محرومی اور عدم برداشت کے رجحانات انتہائی تیزی سے فروغ پا رہے ہیں، ہم میانہ روی، رواداری، تحمل مزاجی، ایک دوسرے کو برداشت کرنے، معاف کر دینے اور انصاف جیسے اوصاف سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں، جن کا خمیازہ ہمیں معاشرے میں بے چینی، بدامنی، شدت پسندی، جارحیت، تشدد، لاقانونیت اور بگاڑ کی دیگر صورتوں میں بھگتنا پڑ رہا ہے، اور اسی رجحان کے فروغ سے ہمیں تشدد کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جن کا ذکر کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔گزشتہ دنوں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پیش آنے والا دلسوز واقعہ انھی رجحانات کی ایک کڑی ہے، اگرچہ ایسے سانحات میں اور بھی کئی عوامل کارفرما ہیں، مگر ان عوامل کو راستہ فراہم کرنے والے یہی رجحانات ہیں۔

ان رجحانات کے فروغ میں خود سیاسی رہنماؤں کا اپنا کردار بھی ہے، سیاستدانوں کے قول و فعل کا تضاد، جھوٹ ،کرپشن، اقربا پروری کے علاوہ ان کی نااہلی کے باعث مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر عوامل بھی عوام میں یہ رجحانات پیدا کرتے ہیں۔

حکومت چاہے کتنی ہی کمیٹیاں بنالے مگر ان رجحانات کو ختم کیے بغیر امن و آشتی کی منزل ہم نہیں پاسکتے۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ ملک سے دہشتگردی اوربدامنی کا مکمل خاتمہ ہوجائے تو پھر چور کو نہیں چور کی ماں کو مارنا ہوگا، دہشت گردوں کے معاونین اور حمایت کرنے والوں کے صفائے کے عزم کو پورا کرنا ہوگا، قوم کو آنکھیں کھلی رکھنے کا مشورہ دینے کے ساتھ ایسے عناصر کی نشاندہی بھی کرنا ہوگی تاکہ قوم کو پتہ چل سکے کہ ان کے ساتھ کیسا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل کے اصل کھلاڑی کون ہیں؟، ورنہ دہشت گردوں کی حمایت اور مدد کرنے والے حتیٰ کہ خود دہشت گردوں کی قیادت کرنے والے لوگ بھی ’’شدید الفاظ میں مذمتیں‘‘ کرتے ہوئے ’’چور بھی کہے چور چور‘‘ کے مصداق دہشتگردی کے خلاف ہونے والی جنگ اور دیگر اقدامات میں شامل ہوجائیں گے، جس کا بجائے فائدے کے ملک اور قوم کو نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔

اب وقت آگیا ہے، ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، حکومت کو آگے بڑھنا ہوگا، عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے، تعلیمی اداروں اور خصوصا دینی مدارس کو بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کا پابند بنانا ہوگا، طالبعلم کو کورس کی کتابوں کے علاوہ طرز زندگی کے بنیادی اصول سکھانے کا بھی اہتمام کرنا ہوگا۔ علما کرام کو بھی اپنی مذہبی اور ملی ذمے داری کو مکمل طریقے سے نبھانا ہوگا، سیاست اور منافرت سے ہٹ کر لوگوں میں حلال اور حرام کی تمیز اجاگر کرنا ہوگی۔ مساجد میں دوسرے مسالک اور مذاہب پر بے جا تنقید کے بجائے خطبات میں نمازیوں کی اخلاقی تربیت کرنا ہوگی۔ معاشرے میں تیزی سے پھیلتے مغربی رسم و رواج کو روکنا ہوگا۔ حال ہی میں سانحہ پشاور پر بڑے بڑے اداروں اور آرگنائزیشنز میں افسوس کے اظہار کے لیے ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی گئی، یقینا اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ان لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے آگہی ہی نہیں ملی تھی، ورنہ وہ اس اظہار کے لیے قرآن خوانی یا دعا کا اہتمام کرتے۔

ابھی وقت ہے، علما اپنی ذمے داریوں کی جانب آئیں، پرتشدد راستہ اپنا کر اکثریت میں اسلام کا منفی تاثر پیش کرنے کے بجائے، تعلیم و تربیت کے ذریعے ان کی کردار سازی پر توجہ دیں، اپنی قوم کو غیروں کے رسم و رواج اپنانے سے روک لیں، انھیں گمراہی سے بچالیں۔ علما کرام اسی معذور جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہوئے لوگوں کی درست راہنمائی کریں، اچھے برے امیدوار کی پہچان کرائیں، انھیں ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کریں، وہ خلاف شرع کام کرنے والی قوتوں کو ٹھوس دلائل کے ساتھ زیر کریں، اس طریقہ کار کے ذریعے بہت جلد منزل پالیں گے، جسے پرتشدد ذہنیت کے ذریعے وہ پینتیس سالوں میں بھی حاصل نہ کرسکے بلکہ اس طریقہ کار کو اپنا کر ملک اور قوم کو اسلامی تعلیمات سے اور بھی دور کردیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔