مردم شماری سے فرار کیوں؟

شبیر احمد ارمان  پير 22 دسمبر 2014
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

یہ امر مایوس کن ہے کہ پاکستان میں مردم شماری کے دیرینہ قومی فریضے سے صرف نظر کیا جا رہا ہے ، واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے لیے پہلے مردم شماری کروانے کی استدعا کر رکھی ہے تاکہ نئی حلقہ بندیاں کی جاسکیں اور نئے ووٹرز کو شامل کرکے انتخابی فہرستوں کو از سر نو مرتب کیا جاسکے تاکہ جعلی یا غیر متعلقہ ووٹوں کا اخراج کرکے ووٹوں کو قابل اعتماد بنایا جاسکے۔ ملک کی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کے لیے بھی مردم شماری لازمی ہے کیوں کہ آبادی کی درست تعداد سے آگاہی شہریوں کے لیے منصوبہ بندی کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ملک میں آخری مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی۔ 2008 سے مردم شماری آئینی ذمے داری بن چکی ہے لیکن گزشتہ 6 سال کے باوجود وفاق اور صوبے قومی فریضے پر رضامند نہیں ہوسکے۔ بتایا گیا ہے کہ اس وقت ملک کو جس سیاسی انتشار کا سامنا ہے اس کے حل کے لیے بھی مردم شماری اہم پیش رفت ہوگی کیوں کہ انتخابی اصلاحات کے لیے آبادی اور علاقائی بنیادوں پر مصدقہ اعداد و شمار کی دستیابی بہت ضروری ہے لیکن وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کی انتخابی سفارشات کے جواب میں خیبر پختونخوا کے علاقوں میں جاری آپریشن، کراچی میں حالات کی خرابی اور دیگر وجوہات کی بناء پر ملک میں فوری مردم شماری کرانے کو آیندہ چار سال میں ناقابل عمل قرار دیا ہے۔

قبل ازیں وفاقی حکومت نے چین کے تعاون سے ملک میں الیکٹرونک مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے الیکٹرونک سافٹ ویئر اور الیکٹرونک مشینوں کے لیے معاہدہ طے پاگیا تھا معاہدے کی حتمی منظوری مشترکہ مفادات کونسل نے دینی تھی۔ مردم شماری کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ سافٹ ویئر کے ساتھ سوال نامے پر مشتمل فارم تیار کیا جانا تھا جس میں گھر میں رہنے والے افراد کی تعداد، ان میں مرد و خواتین، 18 سال سے کم عمر کے افراد، تعلیمی قابلیت، ملازمت کا شعبہ، نیشنل ٹیکس نمبر اور دیگر اہم معلومات سے متعلق تفصیلات حاصل کی جانے تھی، اس سافٹ ویئر میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کی تاریخی عمارتوں، شاہراہوں، معدنیات، دریاؤں، نہری نظام، پلوں کی تعداد کی معلومات اور چاروں صوبوں، گلگت بلتستان میں موجود وسائل کی تقسیم کو یقینی بنایا جانا تھا۔ مگر افسوس! مزید ایک عرصے کے لیے یہ سب کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

بلاشبہ وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح میں اضافہ پاکستان کا بھی سب سے بڑا حل طلب مسئلہ ہے۔ یہ صرف ایک اندازہ ہے کہ آبادی میں اضافے کی شرح 26 فی صد سے کم ہوکر 1.95 پر آگئی ہے کیوں کہ ملک میں 16 سال قبل مردم شماری ہوئی تھی۔ 16 سال گزر جانے کے بعد ملک کی کتنی آبادی ہوگئی ہے۔ وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، البتہ ملکی آبادی کے تحت قومی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں، اصلاحات کی جاتی ہیں ملک میں کتنے بے روزگار ہیں کتنے لوگ بے گھر ہیں، کتنے لوگوں کو صحت کی سہولت میسر نہیں، امیری کتنی ہے، غربت کتنی ہے، مرد کتنے ہیں، خواتین کتنی ہیں، بچے کتنے ہیں جوان کتنے ہیں، بوڑھے کتنے ہیں۔ کتنی اموات ہوتی ہیں، کتنی پیدائش ہوتی ہے، کتنے تعلیم یافتہ ہیں، کتنے تعلیم سے دور ہیں۔

اس طرح کے دیگر سوالات کے لیے ہمارے پاس کوئی درست جواب نہیں ہے بس مفروضے ہی مفروضے ہیں جس سے ملکی گاڑی چلائی جا رہی ہے، حق بات یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے ملکی و قومی مسائل میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، آبادی بڑھتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ کے سبب امن وامان بھی تہہ وبالا ہوچکا ہے۔ ان سب مسائل کے حل کے لیے قومی مردم شماری کا انعقاد ضروری ہے جس سے ہمارے حکمران ماضی کی طرح اس مرتبہ پھر مردم شماری کرانے سے کترا رہے ہیں کیوں؟

آخر میں چند باتیں خاندانی منصوبہ بندی کے متعلق ملاحظہ کریں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے سرکاری سطح پر اب تک اربوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں لیکن نتیجہ حاصل جمع حاصل کے سوا کچھ نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ضمن میں سنجیدہ کوششوں کے بجائے صرف فنڈز کا حصول رہا ہے۔ شعور و آگہی کے نام پر بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار منعقدکیے جاتے ہیں وہ بھی انگریزی زبان میں اس ضمن میں جو کتابچے شایع کیے جاتے ہیں وہ بھی انگریزی زبان میں، اخبارات بھی انگریزی زبان والے منتخب کیے جاتے ہیں تاکہ جہاں سے فنڈز ملتے ہیں انھیں بتایاجاسکے کہ دیکھو کیسا کام کیا جا رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ کم پڑھے لکھے لوگوں تک خاندانی منصوبہ بندی والوں کا پیغام نہیں پہنچ پاتا۔ ان اداروں پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے جو خاندانی منصوبہ بندی کے کاموں پر مامور ہیں لیکن ان کی کارکردگی ہوٹلوں تک محدود ہے، مضافات، دیہات، قصبوں سے دور رہ کر آبادی پر کنٹرول پایا نہیں جا سکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔