کرپشن سے پاک پاکستان، نیب کا نصب العین

نوازش علی  جمعـء 26 دسمبر 2014

بدعنوانی ایک ایسا ناسور اور لعنت ہے جو معاشی ترقی و سماجی بہبود کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، اس کی وجہ سے ترقی کا سفرجہاں متاثرہوتا ہے وہاں رشوت اور بدعنوانی سے کمائی ہوئی رقم چند لوگوں کے ہاتھوں  میںچلی جاتی ہے اور مجموعی طور پر پورے سسٹم کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قومیں جو کرپشن پر قابو پا لیتی ہیں، وہ تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔

قومی احتساب بیورو (NAB ) کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لیے نہ صرف اقدامات کیئے جائیں بلکہ بدعنوان افراد کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے جہاں ان کو قانون کے مطابق سزا دی جاسکے ۔ کرپشن کے خلاف شعور اجاگر کرنے  اور  معاشرے کو بدعنوانی سے پاک کرنے  کے لیے نیب  نے ایک جامع حکمت عملی اپنائی ہے جس کے تحت  نیب ایک طرف کردار سازی کے لیے  سیمینارز ، ورکشاپس کا انعقاد کرتا ہے، اس کے علاوہ  نیب کی نیشنل اینٹی کرپشن اسٹرٹیجی کو بد عنوانی کے خلاف موثر ترین حکمت عملی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے ۔ نیب کی بدعنوانی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کاوشوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ تمام افراد اور ادارے عوام کی کسی لالچ اور رشوت کے بغیر خدمت کریں۔

نیب نیشنل اکائونیٹبیلٹی آرڈینینس 1999 کے تحت کام کر رہا ہے جس کا دائرہ کار پورے پاکستان اور فاٹا تک ہے اور یہ ملک کے تمام افراد پر لاگو ہے ،اس قانون کے تحت کرپشن کے زمرے میں آنے والے افعال کو اجاگر کیا جائے ، عوام کو ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کی جائے  اور بدعنوانی کی روک تھام کے علاوہ بد عنوان عناصر کے خلا ف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ معاشرے میں اس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھایا جائے۔

نیب کی نوجوانوں سے کافی امیدیں وابستہ ہیں، والدین اپنے بچوں سے بہتر گریڈز اور پوزیشنز کی توقع کرنے کی علاوہ ان کی کردار سازی پر بھی توجہ دیں۔ اس بات کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نیب نے صوبائی حکومتوں اور سول سوسائٹی کے تعاون سے کردار سازی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر تقریباً چار ہزار سوسائٹیاں بنائی ہیں جس کے اثرات لازمی طور پر آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے۔  جب کردار سازی پر توجہ دی جائے گی تو بدعنوانی کے امکانات بھی کم ہوجاتے ہیں، اس  کے علاوہ  نیب نے ایک ایسا  پیلٹ فارم بھی بنایا ہے  جو یونین کونسلز لیول پر کا م کرتا ہے اور کہیں بھی ہونے والی بدعنوانی کی نشاندہی کرتا ہے۔

قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت قومی احتساب بیورو کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ  بدعنوانی کے خاتمے کے لیے تین نکاتی لائحہ عمل اپنائے ،آگہی، بچائو ، اور نفاذ جیسے نکات میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ابتدائی سطح پر بدعنوانی پر مشتمل اقدامات کی نہ صرف تشخیص کی جائے بلکہ روک تھام کی بھی تدبیر کی جائے۔ اس عمل کے خاطر خواہ نتائج سامنے آنے کے بعد دوسرے ممالک بھی اب  یہی طریقہ کار اختیار کرنا شروع ہوگئے ہیں۔

بدعنوانی کے تدارک کے لیے نیب کے عملی اقدامات:

نیب کسی ایسے عمل جو کرپشن کے زمرے میں آتا ہے کے حوالے سے اطلاع یا شکایت سامنے آنے کے بعد سب سے پہلے  معاملے کی مکمل چھان بین کرتا ہے اور دیکھتا ہے۔ کہ قانون اس ضمن میں کیا کہتا ہے، اس عمل کو شکایت  کی جانچ کا نا م دیا جاتا ہے، اگر ایک بار یہ ثابت ہو جائے کہ متذکرہ عمل احتساب آرڈیننس کے زمرے میں آتا ہے اور فراہم کردہ معلومات کو مزید آگے بڑھایا جاسکتا ہے تو پھرنیب  قانون کے مطابق اپناکام شروع کرتا ہے۔

دوسرے قدم میں این اے او (NAO) کے سیکشن اٹھارہ کے تحت تفتیش سے حاصل ہونے والے شواہد پر اس میں ملوث افراد کا پتہ لگایا جاتاہے اور اس پورے مرحلے میں گواہوں اور ملزموں کے بیانات ریکارڈ کیے جاتے ہیں ۔کسی بھی الزام کا سامنا کرنے والے فرد کے پاس یہ آپشن موجود ہوتا ہے کہ وہ ناجائز طور پر حاصل رقم واپس کرکے خود کو سزا یا پوزیشن کو خرابی سے بچا سکتاہے ۔ یہ تمام مراحل کمبائنڈ انوسٹی گیشن ٹیم کی جا نب سے مکمل تحقیقات اور قانون کے مطابق تکمیل تک پہنچتے ہیں۔

اگر ایک بار کسی ملزم کے خلاف کیس درج ہو جائے اور وہ ناجائز طور پر حاصل کرد ہ  رقم  لوٹانے کو تیار نہ ہو تو پھر نیب آرڈیننس کے سیکشنز اٹھارہ سی کے تحت تحقیقات تفتیش میں تبدیل ہوجاتی ہے، اس دوران اس کے خلاف جمع ہونے والے ثبوتوں کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔نیب کے قانونی ماہرین سے قانونی رائے لی جاتی ہے اور قانونی ماہرین کی رائے کے بعد متعلقہ فورم کی منظوری کے بعد متعلقہ ریفرنس احتساب کورٹ میں دائرکردیا جاتا ہے۔ تفتیش کے دوران ملزم کو موقع دیا جاتاہے کہ وہ شواہد دیکھے ۔

اس مرحلے میں ملزم کے پاس پلی بارگیننگ کی آپشن بھی ہوتی ہے کہ وہ ناجائز طور پر حاصل کردہ رقم و اپس کردے اور سزا سے خود کو بچا سکے ۔ اگر بات اس مرحلے سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے تو پھر اس کیس کو قانون کے مطابق عدالت میں دائر کیا جاتا ہے ۔ نیب کا ایکشن تحقیقات  کے مرحلے سے شروع ہو تا ہے جس میں بغیر کسی دبائو اور پریشرکے شواہد اکٹھے کیے جاتے ہیں اور ملزم کے خلاف جو شکایت آتی ہے اس کی مکمل چھان بین کی جاتی ہے، تمام الزامات جن کا شکایت میں ذکر ہوتا ہے تحقیقات کے دوران ان کا شواہد کی بنیاد پر جائزہ لیا جاتا ہے۔اگر اس دوران ملزم کے نقطہ نظر میں فرق ہوتا ہے تو اس کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ سچ بولے اور رضاکارانہ طور پر رقم واپس کر کے سزا سے بچ سکتا ہے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو پھر اس کے خلاف نیب آرڈیننس 999  کے مطابق قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔اور ٹھوس ثبوت سامنے آنے پر ملزم کو گرفتار کیا جاتا ہے۔

علاقائی بیورو ز نیب کے متحرک بازو ہیں جو فیلڈ میں کام کرتے ہیں مثلا ً  تحقیقات ، تفتیش ، سزا اور اپیل کے معاملات دیکھتے ہیں ، نیب ہیڈکوارٹر کا  آپریشنزڈویژن  اور پروسکیوشن ڈویژنز کسی بھی کیس کے ضمن میں تمام مراحل کے دوران مکمل قانونی تعاون فراہم کرتے ہیں۔

نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری انتہائی ایماندار، دیانتدار اور اچھی شہرت کے حامل اعلیٰ افسر ہیں جنہوں نے اپنی ایک سالہ کارکردگی کے دوران نیب کو ایک مئوثر اور غیر جانبدار ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ انھوں نے اختیارات کی مرکزیت کی بجائے اپنے اختیارات علاقائی سطح پر کام کرنے والے نیب کے بیوروز کو تفویض کر دیے ہیںتاکہ کام کی رفتار  رکنے کی بجائے موثر طور پر کرپشن کی روک تھام  کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔

نیب (NAB)  ایس او پیز یعنی سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز  دراصل ان رولز اور اصولوں پر مبنی ہیں  جن کی بدولت بدعنوانی کی لعنت پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے ۔ نیب کی موثر حکمت عملی اور مانیٹرنگ کے باعث نہ صرف پاکستان میں کرپشن کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے بلکہ نیب نے  261 بلین روپے کی وصولیاں کرکے قومی خزانے میں جمع کرواکے ملکی ترقی میں اپنا بھر پور کردار اداکیا ہے۔ نیب(NAB) کی کاوشوں کو  ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل , پلڈاٹ ,صد ر مملکت جناب ممنون حسین کے علاوہ معاشرے کے تمام طبقوں    نے سراہا ہے۔  نیب کے چیئرمین قمرزمان چوہدری نے نیب کے افسران اور اہلکاروں پر زور دیا ہے کہ وہ کرپشن سے پاک پاکستان کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائیں، یہی ہمارا مقصد اور نصب العین ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔