دہشت گردی، حضورﷺ کی سیرت اور قرآن سے دوری کا نتیجہ ہے

احسن کامرے  جمعـء 26 دسمبر 2014
’’اسوئہ حسنہؐ کی روشنی میں انتہا پسندی کا حل‘‘ کے موضوع پر علماء کرام کا ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: محمد ریاض/ایکسپریس

’’اسوئہ حسنہؐ کی روشنی میں انتہا پسندی کا حل‘‘ کے موضوع پر علماء کرام کا ایکسپریس فورم میں اظہارِ خیال۔ فوٹو: محمد ریاض/ایکسپریس

ربیع الاول کا مہینہ ہر سال بہت سی رحمتیں اور برکتیں لے کر آتا ہے اور اس مہینے میں سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفیؐ اس دنیا میں تشریف لائے۔

آپؐ کی آمد ایسے وقت میں ہوئی جب ہر طرف ظلم و جبر تھا، طاقتور کمزور کو جکڑے ہوئے تھا اور رشتوں کا کوئی احترام نہیں تھا۔ حضرت محمدؐ امید کی کرن بن کر آئے اور آپؐ نے لوگوں کو امن و محبت کا پیغام دیا اور انہیں جینے کا ڈھنگ سکھایا۔ نبی پاکؐ کی حدیث مبارکہ ہے کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جب تک تم ان کو تھامے رہو گے گمراہ نہیں ہوگے، یہ دو چیزیں اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ہم آج ان دونوں چیزوں سے دور ہوگئے ہیں۔

آپؐ نے تو دوران جنگ دشمن کے بچوں، خواتین، بوڑھوں، ان کی عبادت گاہوں اور املاک کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا لیکن آج ہم بغیر کسی جنگ کے اپنے ہی لوگوں ، بچوں، عبادت گاہوں اور املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہم نبیؐ کی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں۔ ربیع الاول کا مہینہ یہ سوال پوچھتا ہے کہ کیا ہم نے آپؐ کی محبت کا حق ادا کیا؟ یقینا ہمیں آج اپنا طرز عمل بدلنے کی ضرورت ہے اور ہمیں آپؐ کی اسوئہ حسنہ کو سچے دل سے اپنانا ہوگا۔ماہ ربیع الاول کی آمد پر ’’اسوئہ حسنہؐ کی روشنی میںانتہا پسندی کا حل‘‘ کے موضوع پر’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میںمختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔

قاری زوار بہادر (رہنما جے یو پی)

بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ رسول ؐ مقصود کائنات ہیں اور جس مہینے میں آپؐ جلوہ گر ہوئے ہیں ان کی نسبت سے وہ مہینہ بھی بابرکت ہے اور آپؐ کے طفیل سے باقی دنیا بھی وجود میں آئی ۔ رسول پاکؐ کی تشریف آوری ساری انسانیت کے لیے اللہ کی رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ہم نے انہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کربھیجا ہے۔ سرکار دوعالمؐ اس دنیا میں آئے ہی اس لیے تھے کے دنیا کے مختلف لوگوں کے دلوں کو آپس میں جوڑ دیں ،ان کی دشمنیاں ختم کردیں اور جو خون خرابہ ہورہا تھا اس کو ملیا میٹ کردیں۔

اللہ فرماتا ہے کہ اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم سب آپس میں دشمن تھے، اللہ نے تمہیں بھائی بھائی بنا دیا ،تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑ دیا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مدینہ طیبہ میں ریاست عطا ء فرمائی تو آپؐ نے اس ریاست کو اللہ کے نظام میں ڈھال دیا اورلوگوں کی دشمنیاں ختم کرکے انہیں بھائی بھائی بنا دیا اور ان کے دلوں کو ایساجوڑ دیا کہ وہ ایک دوسرے پر جان قربان کرنے لگ گئے۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اپنے بھائی کی فکر کرتے تھے کہ میرے بھائی کی جان کسی طرح بچ جائے۔

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوگیا ہے، اب جب ہم رسول ؐ کا میلاد منائیں گے،سیرت النبیؐ کے حوالے سے پروگرام کریں گے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جن کے آنے کی خوشی ہم منارہے ہیں ،اگر ہم ان کے پیغام پر بھی عمل کررہے ہیں تو ہم ان سے مخلص ہیں اور اگر صرف نعرے لگا رہے ہیں تو اس سے سرکاؐر کبھی خوش نہیں ہوں گے، یہ دھوکا ہے۔ اور اس کے بارے میں قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے کہ یہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں یا ایمان والوں کو، فرمایا کہ نہیں یہ اپنے آپ کو ہی دھوکا دیتے ہیں،خدا کو کون دھوکا دے سکتا ہے۔

حضورؐ نے فرمایا کہ میرا تمہارے درمیان موجود رہنا بھی تمہارے لیے خیر ہے اور دنیا سے پردہ فرما جانا بھی خیر ہے۔ عرض کی گئی کہ یارسول اللہؐ !آپؐ کا یہاں تشریف فرما ہونا تو خیر ہی خیر ہے، وحی نازل ہورہی ہے، آپؐ کی زیارت کرتے ہیں،آپؐ کی صحبت ہمیں میسر ہے، آپؐ ہمارے مسائل سنتے ہیں اور بہت ساری برکتیں ہیں،جب آپؐ اس دنیا سے تشریف لے جائیں گے تو وہ ہمارے لیے خیر کیسے، فرمایا امت کے اعمال میری بارگاہ میں پیش کیے جائیں گے، جو اچھے عمل کریں گے میں دیکھ کے خوش ہوں گا ، اللہ کا شکر ادا کروں گا اور جو گنہگار ہوں گے ان کے لیے استغفار کروں گا۔ ہم جب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمارے اعمال پیش ہوتے ہیں تو ہمیں ایسے اعمال کرنے چاہیں جنہیں دیکھ کر سرکارؐ خوش ہوں ۔ قرآن پاک ہماری رہنماکتاب ہے اور یہ کتاب آپؐ پر نازل ہوئی۔ حالیؔ نے کہا کہ

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

وہ نسخہ کیمیا جس قوم کے پاس موجود ہو اور وہ آپس میں دست وگریبان ہو، ایک دوسرے کا خون بہا رہی ہو، کہیں چھوٹے چھوٹے بچوں کا قتل کررہی ہو تو اسے حضورؐ کی امت کہلانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ حضور رحمت عالمؐ کی تشریف آوری ہی دنیا کہ لیے اتنا بڑا پیغام رحمت تھا کہ دشمن بھی آپؐ کو صادق و امین کہتے تھے اور اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھواتے تھے۔ کفار یہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی امین ہے ، دیانتدار ہے یا جس کے پاس انہیں پناہ مل سکتی ہے تو وہ مسلمان ہے، کیونکہ مسلمان کسی کو ناحق تکلیف نہیںدیتا ہے ، نہ کسی کا ناحق خون کرتا ہے، نہ کسی کے مال میں خیانت کرتا ہے اور نہ بددیانتی کرتا ہے۔

سرکارؐ نے دشمنوں کو بھی پناہ دی اور فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ ان کی آنے والی نسلیں ہدایت پکڑ جائیں گی۔ آج ہم جو کچھ کررہے ہیں اس کا حضورؐ کی سیرت سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ، کسی مسلمان کو کیا کسی غیر مسلمان کو بھی ناحق قتل کرنا جائز نہیں ہے اور غیر مسلموں کے ساتھ جہاد کے لیے بھی شرائط ہیں۔ یہاں ہم بجائے اس کے کہ اس قتل و غارت کو روکیں ہم آہستہ آہستہ مساجد، امام بارگاہوں سے اب بچوں پر آگئے ہیں، اور ایک اندوہ ناک واقعہ پشاور میں ہوا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

میرے نزدیک پاکستان کو ان شہید بچوں کے خون نے یکجا کردیا ہے، ساری سیاسی، دینی قیادت اور پوری قوم متحد ہوگئی ہے اور سب پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ ربیع الاول شریف کا پیغام یہ ہے کہ ہم توبہ کرلیں کیونکہ ہمارے اعمال کی سزا ہمیں مل رہی ہے اورہمارا خون بہہ رہا ہے۔ اللہ نے ہمیں اپنے اور حضورؐ کے نظام کے لیے یہ ملک عطا فرمایا تھا اور ہم اس امانت کی حفاظت کرنے کی بجائے اس میں خیانت کررہے ہیں، پوری قوم کو چاہیے کہ 12ربیع الاول کو عہد کریں کہ ہم اس ملک میں اللہ کا نظام نافذ کریں گے۔

دوسرا یہ کہ ہم اپنے بنائے ہوئے راستوں کو چھوڑ کر حضوؐر کی سیرت پر عمل کریں اور آپؐ کی سیرت ہی امن کا پیغام ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ کے بدلے میں ستر ہزار کا خون بہا اور اللہ کریم کی تلوار بے نیام ہوگئی۔ حضرت سیدنا امام حسینؓ کے قتل کے بعد بھی یہی کچھ ہوا۔ آج بھی چھوٹے چھوٹے بچوں کا ناحق خون ہوا ہے اورخطرہ ہے کہ خون خرابہ بڑھے گا۔ یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے لہٰذا ہم نے دہشت گردی کی ہر صورت کو ختم کرنا ہے۔

دہشت گرد افغانستان سے، بھارت سے یا امریکی اسلحہ کے بل بوتے پر حملہ آور ہو یا یہاں کہیں اورچھپا ہوا ہے، کسی مدرسہ یا مسجد میں ہو تو اسے بھی نکا لیں اور اگر کوئی میری جماعت میں ہے تو نشاندہی کریں میں خودپکڑ کے اسے پیش کردوں۔ اگر ہم نے اب بھی لیت و لعل سے کام لیا اور دہشت گردوں کی سرپرستی کی تو ہمارا آخری وقت آن پہنچا ہے، جہاں اس طرح بچوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے ان کے گلے کانٹ دیے جائیں تو وہاں وہ اللہ سے رحمت کی امید نہیں رکھی جاسکتی اور یہ اللہ کی سنت کے خلاف ہے۔ یہاں بھی اب بچوں پر بات آگئی ہے ،مجھے امید ہے کہ یہ خون رنگ لائے گا اوراس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا۔

ربیع الاول رحمت اور اتحاد کا پیغام دینے آیا ہے،ہمیں چاہیے کہ ہم عام لوگوں کے لیے رحمت اورسلامتی کا پیغام بن جائیں ۔اسلام میں جو سزائیں ہیں، ان کا منسوخ کرنے کا کسی کے پاس اختیار نہیںہے، اگر ہم وہ سزائیں نافذ کردیتے تو آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ اللہ فرماتا ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان ، جان کے بدلے جان، اللہ ہمیںسزا دینے کا حکم فرما رہاہے اور ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم رحم دل ہیں ہم سزائیں نہیں دیں گے۔

میرے نزدیک ان سزاؤں کو روکنا ہی ہمارے لیے بربادی کا باعث بنا ہے۔اگر یہ سزائیں مجرموں کو دے دی جاتیں اورانہیں سرعام لٹکا دیا جاتا تو لوگوں ان سے عبرت حاصل کرتے۔ سزائیں تواللہ نے مقرر فرما دی ہیں اورانہیں نافذ کرنا ہمارا فرض ہے، اور صرف مقتول کے ورثاء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے مجرم کو معاف کردیںلہٰذا ہمیں دہشت گردی ودیگر جرائم کے خاتمے کیلئے اسلامی سزاؤں کو نافذ کرنا ہوگا۔اس مرتبہ 12ربیع الاول کو قوم کو یہ انعام دیا جائے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قوانین کونافذ کردیا جائے۔

حافظ زبیر احمد ظہیر (رہنما جمعیت اہلحدیث)

حضورؐ کی بعثت اور نزول قرآن کا مقصد یہ تھا کہ انسانیت پر جس طرح کے بھی ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں اور جہاں جہاں بھی بد امنی اور بے انصافی ہورہی ہے، اس کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اے میرے محبوبؐ ہم نے آپؐ کو بھیجا ہی اس لیے ہے کہ انسانیت کے ناتواںکندھوں پر جو ناروا بوجھ معاشرے نے اور حکمرانوں نے اور ظالموں ، جابروں نے ڈالا ہواہے وہ سب اتار کر انسانیت کو بالکل ہلکا پھلکا کردیا جائے۔

اگر ہم حضورؐ کی دعوت و تبلیغ کا خلاصہ بیان کریں تو وہ یہ ہے کہ انسانیت کے لیے حضورؐ ہر قسم کی دشواریاں ختم کرنے اور ہرطرح کی سہولتیں اور آسانیاں پیدا کرنے کیلئے آئے تھے۔ دین اسلام کی صورت میں اللہ نے ہمیں بہت بڑی نعمت عطا فرمائی اور قرآن اورحضورؐ کے ذریعے سے ہمیں ہدایت بخشی۔ اس کے بارے میں اللہ نے قرآن پاک میںارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے دین میں کوئی دشواری نہیں رکھی ہے، اسی طرح ایک جگہ پرذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی استطاعت اور طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا ہی نہیں چاہتا۔

ایک جگہ بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانیاں پیدا کرنا چاہتا ہے، مشکلات پیدا ہی نہیں کرنا چاہتا۔ حضورؐ نے اپنے پیارے صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ کو الوداع کرتے ہوئے سارے احکامات ،ساری ہدایات دینے کے بعد آخر میں ارشاد فرمایا کہ اب جو کچھ میں تمہیں کہنے لگا ہوں یہ دین اسلام کے تمام احکامات پر فوقیت رکھتا ہے اور یہ ارشاد فرمایا کہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا، مشکلات پیدا نہ کرنا، لوگوں کو خوشخبریاں دینااور نفرتیں نہ پھیلانا۔ ہم لوگ حضوؐر کی یاد مناتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ حضوؐر کی تعلیمات اور آپؐ کی سیرت کو اپنایا جائے۔ لہٰذا میرے نزدیک میں اصل چیز منانا نہیں بلکہ اپنانا ہے۔

چند روز قبل پشاور میں ایک بہت ہی افسوسناک اور المناک واقعہ پیش آیا اور اس سے زیادہ دلوں کو ہلا دینے والا واقعہ ماضی قریب میں کبھی نہیں ہوا۔ اس کے سلسلے میں ہمارے مسیحی حضرات نے اپنی تقریبات سادگی سے منانے کا اعلان کیا ہے ۔ ہمارا12ربیع الاول بھی قریب آرہا ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج روئے زمین کے انسانوں کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہوسکتی ہے کہ ہم سب کے لیے مبارک بن جائیں۔ میرے نزدیک جو لوگ اسلام کے نام پر دہشت گردی کررہے ہیں، وہ اسلام کو بدنام کررہے ہیں، مسلمانوں کو مصیبت میں ڈال رہے ہیں، لوگوں کو اللہ اور رسولؐ کے خلاف کر رہے ہیں اور وہ دوست نما دشمن بن چکے ہیں۔

سرکارِدوعالمؐ، صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ سے کبھی کفار کی دشمنی میں بھی کوئی غیر اخلاقی کام سرزرد نہیں ہوا۔ سرکار کائناتؐ انسانی تاریخ کے وہ پہلے جرنیل اعظم ہیں جنہوں نے جنگی اصول دیے کہ حالت جنگ میں بھی کسی بوڑھے کو قتل نہیں کیا جائے گا، کسی بچے کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، خواتین پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا ، جو جنگ میں شریک نہیں ہیں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا ، دشمن کی فصلوں کو بھی تباہ نہیں کیا جائے گا، لوگوں کی عبادت گاہوں اور ان کے مذہبی رہنماؤں کونقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔

یہ ہمارے نبیؐ کی تعلیم ہے اور آج ہم نہ کسی بوڑھے کو چھوڑتے ہیں نہ کسی بچے کو چھوڑتے ہیں ، میرے نزدیک یہ لوگ اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کررہے ہیں، اور ان کے لیے سزائے موت کا جو فیصلہ کیا ہے میں اس پر چیف آف آرمی سٹاف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ مگر میرے نزدیک ابھی بھی یہ فیصلہ ادھورا ہے۔ لہٰذااللہ اور اس کے رسولؐ کے قانون کو نافذ کیا جائے اور یہ صرف دہشت گردوں یا چند لوگوں کے لیے نہیں بلکہ اسے مستقل طور پر لاگو کیا جائے اور جو کوئی بھی جرم کرے اسے سزا دی جائے۔

اللہ نے فرمایا اے ایمان والو! اللہ نے تمہارے لیے قانون قصاص میں زندگی رکھی ہے۔میرے نزدیک جونتائج اللہ کے قانون کو نافذ کرنے سے حاصل ہوسکتے ہیں وہ اور کسی طریقے سے نہیں ہو سکتے۔ پاکستان مسلم لیگ پاکستان کی بانی جماعت ہے اور بار بار اقتدار میں آتی ہے لیکن آج تک انہوں نے پاکستان میں اسلامی قانون نافذ نہیں کیا۔ اس ربیع الاول میں عوام کے لیے اس سے بڑا تحفہ نہیں ہوسکتا کہ عوام کو نظام محمدؐ دے دیا جائے۔

ہمیں اسلامی نظام نافذ نہ کرنے کی سزا مل رہی ہے۔ ہم عشق مصطفیؐ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یہاںسود کا نظام بھی جاری ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ (سود)اللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ لہٰذاہم اللہ اور رسولؐ کے خلاف اعلان جنگ بھی کررہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہاں امن آجائے گا،اللہ اور رسول کے خلاف جنگ کرنے سے امن نہیں آسکتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی و قانونی ادارہ ہے اور اس کونسل نے حکومت کو ہر طرح کے قوانین بنا کر دیے ہوئے ہیں لیکن چالیس سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ان پر عملدرآمد نہیںہوا۔

علامہ مشتاق حسین جعفری (چیئرمین عالمی امن اتحاد کونسل)

حضوؐر کی ذات اقدس عالمین کے لیے رحمت ہے، اور آج جتنی بھی بہاریں ہیں یہ حضوؐر کی ذات اقدس کی وجہ سے ہیں۔ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے کہ اے میرے حبیبؐ! اگر میں تجھے خلق نہ کرتا تو کائنات کی کوئی چیز خلق نہ کرتا۔ اللہ نے اس مقدس دین کیلئے انبیاء بھیجے، کتابیں نازل کیں، صحیفے نازل کیے اور حضوؐر کی ذات کو خاتم النّبیین بنا کر بھیجا اور آپؐ پر اللہ نے دین کو مکمل کر دیا۔ حضوؐر کی ذات اقدس کی وجہ سے سب کو فضیلتیں حاصل ہیں، صحابہ کرامؓ کا بہت مقام اور احترام ہے کیونکہ وہ حضورؐ کے صحابہ ہیں۔ ان کے پاؤں کی خاک ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے اور وہ بہت لائق احترام ہیں۔

اہل بیت کو مقام اس لیے حاصل ہے کہ وہ حضورؐ کے اہل بیت ہیں ۔ آج جس ماحول سے ہم گزر رہے ہیں اور جن پریشانیوں کا ہم شکار ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے حضورؐ کی سیرت اقدس کو نہیں اپنایا ، آپؐ کی ذات اقدس نے ہر معاملے میں ہماری رہنمائی فرمائی، آپؐ کی سیرت صرف23سالہ سیرت نہیں بلکہ آپؐ کی 40  سالہ سیرت کو دیکھیں تو وہ بھی عین قرآن کے مطابق ہے، اللہ نے قرآن میں کبھی یہ ذکر نہیں کیا کہ میرے حبیب کی 23سالہ سیرت اور ہے اور 40سالہ سیرت اور ہے۔

اس بات کو ان الفاظ میں بہتر بیان کیا جاسکتا ہے کہ اللہ نے کہا کہ میراحبیب 40سالہ سیرت میں قرآن بن کے دکھا دے 23سالہ سیرت میں قرآن پڑھ کے سنا دے۔ حضورؐ کی سیرت ہر جگہ ہماری رہنمائی کرتی ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ حضورؐ کی سیرت کو اپناتے ہوئے اور قرآن مجید کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کی اصلاح کریں ۔ بالخصوص علماء کرام پر یہ واجب ہے کہ لوگوں کی اصلاح کریں، اور لوگوں کے اندر حضوؐر کی سیرت کے شعور کو اجاگر کریں ۔ آج ہم جس دہشت گردی کا شکار ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اور حضوؐر کی سیرت سے دوری کا نتیجہ ہے۔

اگر قرآن مجید میں موجود احکامات پر عمل کیا جائے، حضوؐر کی سیرت کو اپنایا جائے تواس دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہم مصلحتوں کا شکار کیوں ہیں؟ ایسامجرم جس نے اقبال جرم بھی کیا ہے ، اس کے ساتھ نرمی کیوںبرتی جارہی ہے، ہم نے اپنے ہزاروں لوگوں کو قتل کروانے کے بعد سزائے موت کو بحال کیا۔ میری صدر پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ سزائے موت کے تمام قیدیوں کو پھانسی پر لٹکایا جائے، اگر لوگوں کو سرعام پھانسی دی جائے گی تو لوگ اس سے عبرت حاصل کریں گے اس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا اور اس کے لیے عدلیہ کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

میرے نزدیک اگر چار، پانچ ہزار لوگوں کو پھانسی پر لٹکانے سے ، بے شک وہ کسی بھی مذہب یا فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں ،20کروڑ عوام کو دہشت گردی سے نجات حاصل ہوتی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ اگر مسیحی برادری انسانیت کے احترام کے لیے اپنے کرسمس کے پروگراموں کو محدود کرسکتی ہے تو ہمیں بھی ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیے اورپوری قوم کو چاہیے کہ فاصلے ختم کرکے متحد ہوجائے اور ربیع الاول کے اس مہینے میں دہشت گردی کو شکست دے۔

تمام سیاسی و دینی قیادت کو چاہیے کہ متحد ہوکر خدا اور رسول ؐ اور قرآن مجید کے احکامات کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے کوشش کریں اور حکومت کو چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے نفاذ اسلام کے فیصلوں پر عملدرآمد کرے۔ یہ ہر اہل علم کے دل کی آواز ہے، علماء انبیاء کے وارث ہیں، انبیاء اور قرآن مجید نے ہمیں اتحاد و یکجہتی کا حکم دیا ہے، قرآم مجید میںحکم ہے کہ میرے حبیبؐ! ان سے کہہ دو کہ یہ پیار کی بات کریں، محبت کی بات کریں، نفرت کی بات نہ کریں، اس وقت علماء پر یہ لازم ہے کہ امت کے اندر وحدت پیدا کریں اورپیارومحبت کی فضا کو پیدا کریں،یہ ربیع الاول کا بہت بہترین تحفہ ہوگا۔

مولانا عبدالرؤف فاروقی (رہنما جے یو آئی (س))

ماہ ربیع الاول سال کا مقدس ترین مہینہ ہے اور اس مہینے میں حضوؐر کی زندگی کے اہم ترین واقعات کی نسبت ہے۔ حضوؐر کی ولادت اسی مہینے میں ہوئی اور آپؐ کو نبوت بھی اسی ماہ مبارک میں ملی۔ آپؐ نے ہجرت بھی اسی مہینے میں کی اور اس کے علاوہ آپؐ کی وفات بھی اسی ماہ میں ہوئی۔ حضوؐر کی ولادت اور بعثت بھی تاریخ کائنات میں زیر بحث رہی ہے۔ بائبل میں تورات کے نام سے جو کتاب شامل ہے اس میں موسیٰؑ کی طرف سے حضوؐر کی ولادت کی بشارت موجود ہے۔

اسی طرح بائبل میں جو انجیلیں شامل ہیں ان میں حضرت مسیحؑ کی طرف سے بشارت موجود ہے کہ میں تو خدا کی طرف جارہا ہوں، میں خدا سے یہ درخواست کروں گا جو تمہیں ایک اور نبی دے دے گا جو تمہاری رہنمائی کرے گا۔ لہٰذا انبیاء کی اس بشارت کی وجہ سے تاریخ میں حضوؐر کی ولادت کا انتظار رہا ہے ۔ حضوؐر کی 23سالہ تبلیغی زندگی اور40سالہ دوسری زندگی، دونوں ہی اسوئہ حسنہ ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ حضوؐر کی اسوئہ حسنہ بہترین نمونہ ہے ۔ آپؐ کی زندگی ہمارے لیے بہترین مثال ہے۔

دوستوں کے ساتھ تو ہر شخص کا رویہ نرم ہوتا ہے لیکن آپؐ نے اپنے دشمنوں کے لیے بھی شفقت، نرمی، درگزر اور خیرخواہی کا رویہ رکھا اور پوری امت کے لیے یہی تعلیم ہے۔ 14 صدیوں میں امت مسلمہ نے ، کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ نفرت نہیں کی اور نہ ان پر جبر مسلط کیا اورنہ ہی اسلام کے نام پر کسی کا ناجائز خون بہایا ہے۔ لیکن کفار نے امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کیلئے ان کی گردنیں بھی کاٹیں اور ان کا ناجائزخون بھی بہایا۔ حضورؐ نے جو دین ہمیں دیا ہے اس میں اللہ رب العالمین ہے اور حضوؐرسب کے لیے رحمت ہیں۔ اور یہ رحمت بلاتفریق مذہب، رنگ، نسل و قوم ہے۔

اب غور طلب بات یہ ہے کہ یہ انتہا پسندی مسلمانوں میں کیسے آئی، انتہا پسندی اورنفرت تواسلامی تعلیمات ہی نہیں ہیں ۔ یہ اسلام کو بدنام کرنے کی سازشیں ہیں اور اس کے پیچھے وہ عالمی طاقتیں ہیں جو استحصالی نظام کی علمبردار ہیں اور جو لوگوں کو غلام بنانا چاہتی ہیں۔ لہٰذا یہ انتہا پسندی ان طاقتوں کے رویے کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے ۔ کسی مسلمان میں اتنا حوصلہ نہیں ہے اور نہ وہ یہ جسارت کرسکتا ہے کہ کسی بے گناہ کا خون بہائے کیونکہ حضوؐر کی اسوئہ حسنہ اس کی اجازت ہی نہیں دیتی۔

جن لوگوں نے پشاور میں بچوں کوقتل کیا یا جو اس سے پہلے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہے یا خود کش حملے کرتے رہے ،وہ مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ تو انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں کیونکہ ایسے عمل کی تو انسانیت بھی اجازت نہیں دیتی ۔ یہ اسلام اور شریعت کو بدنام کرنے کی سازش ہے اور ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا نام استعمال کرکے تحفظ حاصل کیا ہو۔ اسوئہ حسنہؐ کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام مسلمان اپنے اصل کی طرف پلٹ جائیں۔

کسی بھی مسلمان بھائی کیلئے دل میں کوئی میل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم اسوئہ حسنہؐ پر عمل پیرا ہوجائیں تو مسائل کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت جو جرائم ہیں ، دہشت گردی ہے، قتل و غارت ہے یہ سب اس لیے ہے کہ ہمارے ملک میں اسلامی قوانین نافذ نہیں ہیں۔ جرائم کا خاتمہ شریعت اسلامیہ نافذ کرنے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ یورپی یونین کے ناراض ہونے کے خوف سے مغرب کے کہنے پرہم نے پھانسی کی سزامعطل کردی۔

اگر جرم کرنے والوں کو سرعام پھانسی دی جائے تو مجرموں کے حوصلے پست ہوں گے۔ آج اگر اس ملک میں شرعی سزاؤں کا نفاذ ہوجائے تو دہشت گردی سمیت تمام جرائم خود ہی ختم ہوجائیں گے۔ سانحہ پشاور میں ملوث دہشت گرد، یا اس سے پہلے دہشت گردی کرنے والے لوگ مسلمان نہیں تھے، وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور آئی ایس پی آر کو یہ بتانا چاہیے کہ یہ لوگ کون ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں جو شکوک شبہات ہیں، ان کا خاتمہ ہو اور اسلام کے دشمنوں کو بے نقاب کیا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔