(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - شہر ذات کی راہ۔نما

اویس حفیظ  جمعـء 26 دسمبر 2014
 جب میری تشنگی کسی طور کم نہ ہوئی اورپیاس بڑھتی چلی گئی تب پروین نے میرے حال پر ترس کھا کر مجھے پاس بٹھایا اور بڑے پیار سے بولی کہ’’وجود کو جب محبت کا وجدان ملے تو شاعری ہی جنم لیا کرتی ہے اور جب تک دل کے سب زخم لو نہ دیں حروف میں روشنی نہیں آتی‘‘۔ فوٹو: فائل

جب میری تشنگی کسی طور کم نہ ہوئی اورپیاس بڑھتی چلی گئی تب پروین نے میرے حال پر ترس کھا کر مجھے پاس بٹھایا اور بڑے پیار سے بولی کہ’’وجود کو جب محبت کا وجدان ملے تو شاعری ہی جنم لیا کرتی ہے اور جب تک دل کے سب زخم لو نہ دیں حروف میں روشنی نہیں آتی‘‘۔ فوٹو: فائل

پروین سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں ذات آگہی کے سفر پر نکلا۔ پروین نے مجھے یہ کہہ کر ڈرانے کی کوشش کی کہ

’’آشوب آگہی سے بڑا عذاب زمین والوں پر آج تک نہیں اترا‘‘

مگر کچی عمر کے فیصلوں میں عقل وخر د کا زیادہ عمل دخل نہیں ہوتا۔میں اس بات کو خاطر میں نہ لایا مگر یہ بات جلد ہی مجھ پر عیاں ہو گئی لیکن میں پھر بھی اپنی دھن میں مگن کوہساروں،ریگزاروں کی خاک چھانتا رہا اور جب میری ہمت جواب دینی لگی تو قریب تھا کہ میں تھک ہار کربیٹھ جاتا ، عین اس گھڑی پروین نے ایک بار پھر مجھے یہ کہہ کر راہ سجھائی کہ

’’شہر ذات کے سب دروازے اندر کی طرف کھلتے ہیں مگروہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔‘‘

پروین کی یہ بات بادِ سموم کے موسم میں میرے لئے صبا ثابت ہوئی اور اس کے بعد خدا کو بھی مجھ پر ترس آ گیا اور مجھ پر شہر ذات کا ایک در وا ہونے لگا۔اگرچہ یہ اس وقت پوری طرح نہیں کھلا تھا مگر اتنی روشنی ضرور ہو گئی تھی کہ مجھے راستہ سجھائی دینے لگا۔

راہ گم راہاں کی ٹھوکروں کا ایک بہترین حاصل میرے لئے پروین کی ہمدمی کا اعزاز ہے۔پروین میں مجھے اپنا عکس نظر آتا تھا۔وہی پھولوں کی پنکھڑیاں چننے کی عمر میں ذات کی کرچیاں سمیٹنا، اپنے عکس کو جوڑنے کی کوششوں میں انگلیوں کو زخمی کر لینا،ہم دونوں میں مشترک تھااورحیران آنکھیں، شبنمی رخسار اور اداس مسکراہٹ ہماری پہچان۔اور صرف ہماری ہی نہیں بلکہ ہمارے پورے قبیلے کییہی کہانی تھی۔ پروین اکثر کہا کرتی تھی کہ

’’یہ کہانی نئی نہیں ہے اور یہی کیا ، دنیا کی کوئی کہانی نئی نہیں ہے۔یہ ہمارے اندر کا کہانی کار ہے جو اس کو ایسا سندر بنا دیتا ہے کہ سنسار کا من موہ لے۔پھر خود کو پانے کی جستجومیں اپنے آپ کو کھو دینا تو بڑی پرانی بات ہے۔پر ہے بہت سچی او رناگزیر‘‘۔

یادِ ماضی کا عذاب، ریزہ ریزہ بدن، بکھرا ہوا عکس ، ذات کی نوکیلی کرچیاں ، جنہیں سمیٹنا بھی واجب تھا، اور سب سے بڑھ کر ذاتِ آگہی کا سفر،جسے خون چکاں ہاتھوں سے رقم کرنا بھی ضروری تھا۔ ایسے میں جب ماضی کے دھندلکوں سے کوئی آوارہ ہوا کا جھونکامیرے وجود کو سلگاتا تو زخموں کے تار بجنے لگتے،پھر ایک وقت آیا جب میری بے خودی ان آہوں، سسکیوں اور خاموش چیخوں کو شعروں میں ڈھال کر قرطاس سخن سیاہ کرنے لگی۔ میں گھبرایا گھبرایا پروین کے پاس گیا جس نے اولاًیہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی کہ

’’جب آزار جانے کی خوش گمانی کا زہر تن بدن میں کھل جائے تو جسم کے شجر پر ایک موسم بڑی دیر تک ٹھہر جاتا ہے، زخموں کے پھول بننے کا موسم!اور ہوا جب پھولوں کو چومے تو پھر ’خوشبو‘ جنم لیتی ہے۔ خوشبو جو کھلتی ہوئی کلی کی مسکراہٹ بھی ہے اور مرجھاتے ہوئے شگوفے کا نوحہ بھی۔‘‘

مگر میری تشنگی کسی طور کم نہ ہوئی اورپیاس بڑھتی ہی چلی گئی اور جب درد سلگنے اور نبض ڈولنے لگی تب پروین نے میرے حال پر ترس کھا کر مجھے پاس بٹھایا اور بڑے پیار سے بولی کہ

’’وجود کو جب محبت کا وجدان ملے تو شاعری ہی جنم لیا کرتی ہے اور جب تک دل کے سب زخم لو نہ دیں حروف میں روشنی نہیں آتی‘‘

پروین کی باتیں میرے لئے صحرا سے گزرنے والے کسی ابر گریزاں کی مانند تھیں کہ جو کھل کر برس بھی جائے تو بھی صحرا کی تشنہ لبی کسی طور کم نہیں کر سکتا۔پروین سے بات چیت کے بعد میرے وجود کی آگ بڑھک جایا کرتی تھی اور اس پر پروین کی مبہم باتیں تیل کا کام کیا کرتی تھیں۔مگر شہر ذات کی کھوج میں نکلے مسافروں کو اس سے کیا غرض کہ

’’جن کا مقدر وحشت ہے
جن کی زندگی کوچہ نوردی ہے
آبلہ پائی ہے،پریشان بدنی ہے
اور جنہیں تھک کر کسی دیوار سے ٹیک لگانے اور کسی چھاؤں میں آنکھیں موندنے کی بھی اجازت نہیں کہ
سفر ان کا تعاقب کر رہا ہے‘‘

ایک مدت تک مجھ پر عیاں نہیں ہو پایا کہ مجھے آخر پروین سے نسبت کیاہے مگر جب میں خود اپنی ذات سے محبت کے جرم میں حد سے بڑھنے لگا تو مجھے بھی پروین کا یہ اعتراف جرم یاد آیا۔ وہ تو اس جرم پر بہت نازاں تھی مگر جب نیم خوابی کا فسوں ٹوٹا تو وجود کچھ ایسا بکھرا کہ چننا مشکل ہو گیا۔یہی نسبتیں مجھے پروین سے قریب کرتی تھیں ۔ یہ ’’ کتھارسس‘‘ ہی ہمارے درمیاں مشترک تھا کہ

میرے شانوں پر سر رکھ کے

آج

کسی کسی یاد میں وہ جی بھر کے رویا!

مگر ہمیں اس جسمانی قربت سے کیا لینادینا کہ اپنا تو عقیدہ تھا کہ

’’محبت جب تقاضائے جاں سے ماؤرا ہو جائے تو الہام بن جاتی ہے‘‘

اور یہ دنیائے اوہام و الہام ہی تو تھی جس میں میرا پروین سے تعلق استوار ہوا۔ابھی اگلے دن کی بات ہے کہ ایک سکہ بند دانشور صاحب کو دیکھا جو پروین کو تتلیوں، خوابوں اور خواتین کی شاعرہ کہہ رہے تھے۔ غصے سے میرا رنگ دہکنے لگا۔میں بھاگا بھاگا پروین کے پاس گیا اور ساری کتھا سنائی ، میرا خیال تھا کہ پروین یوں اپنی ذات کے یوں مسخ کیے جانے پر کھول اٹھے گی مگر اس نے مسکان سے اپنے چہرے کو سجایا پھر’’مشترکہ دشمن کی بیٹی‘‘کی سی ڈی لگائی اور میرے مقابل کرسی پر بیٹھتے ہوئے نہایت شگفتہ لہجے میں بولی کہ کہنے دو! کسی کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟جب ذات آگہی کے سفر پر نکلیں گے تو جان لیں گے کہ میرا اصل موضوع کیا تھا، آخر کو میرا ،تمھارا تعارف بھی تو اسی راہ کی ٹھوکروں کھاتے ہوئے ہی ہوا تھا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔