(پاکستان ایک نظر میں) - کیا تھر میں بھی دہشت گرد گُھس گئے ہیں؟

ندیم جاوید عثمانی  جمعـء 26 دسمبر 2014
بابا کیا تھر میں بھی دہشت گرد گُھس گئے ہیں؟ بچوں کے ایسےغیرمتوقع سوال ہر صاحبِ اولاد کو ذہنی اذیت میں ڈال دیتے ہیں.

بابا کیا تھر میں بھی دہشت گرد گُھس گئے ہیں؟ بچوں کے ایسےغیرمتوقع سوال ہر صاحبِ اولاد کو ذہنی اذیت میں ڈال دیتے ہیں.

میں نے ایک چیز نوٹ کی تھی کہ سانحہ پشاورکے بعد میرا 11 سالہ بیٹا ٹی وی پر آنے والی خبروں میں خاص دلچسپی لینے لگا ، اگر چہ ابھی اس واقعے کو 10دن ہوئے ہیں مگر اس واقعے میں موجود درد کو برداشت کرتے لگتا ہے 10 صدیاں گزرگئیں ہیں ۔ یہاں تک کہ اس واقعے کے اگلے دن میرے بیٹے نے اسکول جانے سے انکار کردیا تھا، اس واقعے سے جُڑی تصاویر اور خبروں نے اُس کے ننھے سے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کئے تھے حالانکہ ایک باپ ہونے کی حیثیت سے اس واقعے کے خوف کو دور کرنے کے لئے نجانے کون کون سے ہمت بندھانے والے قصے اُس سنادئیے تھے مگر اُس کی ایک رٹ تھی کہ اُس کے اسکول میں بھی دہشت گرد گھس کر اُسے اور اُس کے دوستوں و استادوں کو مار دیں گے، اُس کے اسی ذہنی خوف کے پیشِ نظر میں نے اُس کی دو دن کی چھٹی کرادی کہ جب وہ اسکول جائے تو کسی بھی قسم کے خوف سے اُس کا دماغ آزاد ہو ۔ اب جیسے جیسے اس واقعے کو دن گزر رہے تھے وہ جہاں نارمل ہوتا جارہا تھا میں خود کو ایبنارمل محسوس کررہا تھا ،اس کی وجہ سیکورٹی ہائی الرٹ ہونے سے جُڑی وہ خبریں ہیں جو ایک عام شخص کو گھر بیٹھے کے باوجود غیر محفوظ تصور کرنے پر مجبور کررہی تھیں!

ہم لوگ رات کے کھانے کے بعد خبریں دیکھ رہے تھے اور میرا بیٹا بھی وہیں پاس ہی بیٹھا تھا کہ تھر میں بھوک سے مرنے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے ایک خبر نشر ہوئی جسے سُنتے ہی اُس نے فوراَ پلٹ کر مجھ سے پوچھا بابا کیا تھر میں بھی دہشت گرد گُھس گئے ہیں؟ بچوں کے ایسے غیرمتوقع سوال ہراُس صاحبِ اولاد کو ذہنی اذیت میں ڈال دیتے ہیں جو اپنے بچوں کی ذہنی نشونما کے حوالے سے اُنہیں ہمیشہ صحتمند دیکھنا چاہتے ہیں ۔ میں اُس کے سوال کاجواب دینے نہ دینے کی الجھن میں تھا کہ اللہ کا شُکر ہے میرا موبائل بجنے لگا اور میں نے اس فرار کے موقعے کو غنیمت جان کر وہاں سے اُٹھنے میں ہی بھلائی محسوس کی۔

رات آہستہ آہستہ بیت رہی تھی لیکن میری آنکھوں میں نیند کا کوئی وجود نہ تھا، دراصل خبروں کے دوران میرے بیٹے کے پوچھے گئے سوال نے میری نیند کو میری آنکھوں سے کوسوں دور کردیا تھا، اور مجھے یہ الجھن ستارہی تھی کہ کل اُس کو یہ سوال پھر یاد آگیا تو؟ اُس کے پروان چڑھتے ذہن کو میں یہ جواب دے کر کیسے تباہ کروں گا کہ بیٹا ملک میں ہونے والی ہر بربادی کے ذمہ داریہ دہشت گرد ہی نہیں ہوتے ۔ ہمارے دئیے گئے ووٹوں سے بنے یہ حکمران بھی اخلاقی دہشت گردی کر جاتے ہیں ،جن کے یہاں ضمیر کی جیلیں ہی نہیں ہوتیں ، لہذا کسی عدالت لگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پشاور کے سانحے سے جُڑے دہشت گردوں کے ہاتھوں میں بچوں کو دینے کے لئے ماسوائے موت اور کچھ نہیں تھا، لیکن ان اخلاقی دہشت گردوں کے ہاتھوں میں زندگی ہے ، یہ چاہیں تو اس زندگی کو تھر میں مرتے ہوئے ہر بچے کے ہاتھ میں روٹی کی صورت رکھ سکتے ہیں مگر ان کی جانب سے دی جانی والی زندگی کی مثال آٹے میں نمک والی ہے ۔

میری آنکھ میں بیک وقت ہراُس بچے کی تصویر لہرا رہی تھی جو سانحہ پشاور میں اپنی جان سے گئے ،اور جو بھوک سے تھر میں مررہے تھے۔ انسانی حیات کا فلسفہ دو گودوں کے درمیان گھومتا ہے بس فرق اتنا ہے کہ جب ایک ماں کی گود اُجڑتی ہے تو دھرتی ماں کی گود بھر جاتی ہے! میں جب ترازو کے ایک پلڑے میں پشاور کی ماں کا غم رکھتا ہوں تو وہ بھی وزن میں اتنا ہی ہے جتنا دوسرے پلڑے میں رکھا ایک تھر کی ماں کا غم ہے ۔ پشاور کی بہت سی مائیں اپنے بچے کھو چکی ہیں اور تھر کی مائیں اب بھی اپنے بچے کھو رہی ہیں یا کھونے کی تیاریاں کررہی ہیں۔ خدانخواستہ میں یہاں پشاور اور تھر کے بچوں کے مابین کوئی تقابل نہیں کررہا اور تقابل ہو بھی کیسے ،جہاں جواب کی صورت دونوں جانب موت ہی ہو!

سفاک دہشت گردوں کی پھانسی کے حوالے سے خبروں کو سُن کر دل کو یہ اطمینان تو ہوتا ہے کہ کم از کم ان سفاکوں کے لئے سزا تو متعین ہے لیکن ان لوگوںکا کیا جن کے بچے بے سبب مر رہے ہیں ۔ یہ اخلاقی دہشت گرد آج بھی شان سے اپنی کرسیوں کو ایوان سجائے بیٹھے ہیں، ان میں اتنی شرم نہیں کہ اپنی ذات کے تحت ہوئے اس ظلم پر اپنے عہدوں سے ہی مستعفی ہوجائیں ۔ رات ڈھلنا شروع ہوگئی ہے ، میں سوچ رہا تھا کہ میں کیاں کروں؟ کیونکہ میں اپنے بیٹے کی نفسیات سے آگاہ ہوں، مجھے پتا ہے کہ وہ موقع ملتے ہی پھر وہی سوال پوچھے گا اور جس کا جواب میرے پاس نہیں ہے یا شاید میں اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ دے پاؤں۔ اگر آپ کے پاس کوئی جواب ہو تو براہِ کرم مجھے بتائیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔