حکومت کا پرویز مشرف غداری کیس بند کرنے پر غور

اعظم خان  ہفتہ 27 دسمبر 2014
حکومت کی پراسیکیوشن ٹیم نے شریک ملزمان کیخلاف کارروائی کو ’’ٹرائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ‘‘ قرار دیا ہے۔  فوٹو : فائل

حکومت کی پراسیکیوشن ٹیم نے شریک ملزمان کیخلاف کارروائی کو ’’ٹرائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ‘‘ قرار دیا ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام آباد: آئین کے آرٹیکل 6 کا نفاذ کتنا مشکل ہے، اس کا اندازہ اختتام پذیر سال 2014 میں اچھی طرح ہوگیا ہے۔ ایک سال کی مہنگی اور اعصاب شکن مشق کے بعد اب وفاقی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس بند کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔

باخبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت اس معاملے کو طول دینا چاہتی ہے، یوں مشرف غداری کیس کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت کی کارروائی غیرمتعلق ہوگئی ہے۔ حکومت کی پراسیکیوشن ٹیم پہلے ہی اس کیس کے شریک ملزمان کے خلاف کارروائی سے انکار کرچکی ہے اور انہوں نے اسے ’’ٹرائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ‘‘ قرار دیا ہے۔ وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت کی کارروائی چند ہفتوں کیلئے معطل کرنے کے فیصلے کی بھی حمایت کی ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار نے تبصرہ کیا کہ ’’ یہ سانحہ پشاور کے تناظر میں بدلتی صورتحال میں یہ نئی حکمت عملی کے علاوہ وفاقی حکومت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی مجموعی سکیم کا بھی حصہ ہے‘‘۔

21نومبر کو مسٹر جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں قائم 3رکنی بنچ کی طرف سے کیس کے دیگر فریقوں کا مشترکہ ٹرائل کرنے کے فیصلے کے بعد مشرف غداری کیس اسی جگہ پر کھڑا ہے جہاں 24دسمبر 2013 کو اس کا آغاز ہوا تھا۔ قانونی سمجھتے ہیں کہ مشترکہ ٹرائل کیلئے ازسرنو سماعت کا عمل شروع کرنا ہوگا جس کا مطلب ہے کہ مشرف کو بھی نئے سرے سے چارج شیٹ کیا جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت رضامندی سے مشرف کیس کی سماعت 3فروری تک ملتوی کرنے کا حکم دیا جس کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت اپنی ہی تشکیل کردہ عدالت کے خلاف کسی اقدام کا دفاع کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ مشرف کا دفاع کرنے والے وکلا کی ٹیم کے رکن ایڈووکیٹ فیصل چودھری نے تسلیم کیا کہ کیس اگر خالصتاً قانونی بنیادوں پر استوار ہوتا تو ایک سال بعد ایسی پیچیدگیوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ مشرف کیس کی سماعت روکنے والا مسٹر جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سنگل بنچ پہلے اس بات کا تعین کرے گا کہ اسے اس معاملے میں مداخلت کرنے کا اختیار ہے کہ نہیں۔ بجٹ کی دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ اب تک اس کیس کی سماعت پر وفاقی حکومت 5کروڑ 70روپے خرچ کرچکی ہے۔

اس میں سے 4کروڑ ساڑھے 95لاکھ فیسوں، دیگر اخراجات کی مد میں خرچ کئے گئے اور یہ رقم داخلہ ڈویژن نے جاری کی جبکہ خصوصی عدالت کے مقام سماعت نشنل لائبریری بلڈنگ کی تزئین و آرائش پر 70 لاکھ 50ہزار روپے خرچ ہوئے اور یہ رقم انسانی حقوق ڈویژن نے ضمنی گرانٹ کے طور پر منظور کی۔ عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ غداری کیس وزیراعظم کی سابق صدر سے ذاتی مخاصمت کا شاخسانہ ہے۔ جنہوں نے انہیں 1999میں اقتدار سے ہٹا کر قلعہ اٹک میں بند کیا پھر جلاوطن کردیا۔ کیس کی سماعت سے پہلے حکومت نے ایف آئی اے کی 3رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔ جس نے 3نومبر 2007کی ایمرجنسی لگانے کے فیصلے میں مبینہ طور پر شریک افراد سے تفتیش کی تاہم حکومت نے مقدمہ صرف مشرف کے خلاف چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس ٹیم کے ایک رکن نے ایکسپریس ٹربیون سے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ حکومت نے انہیں مبینہ ذمہ داروں سے شفاف تحقیقات نہیں کرنے دی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت نے کہا کہ اس کا اولین ہدف جنرل مشرف ہیں اور ہم کسی اور کے خلاف مقدمہ نہیں چلانا چاہتے۔ تاہم وزارت داخلہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ کیس کے سرفہرست پراسیکیوٹر شیخ اکرم نے مختلف ٹی وی انٹرویوز میں دعویٰ کیا کہ وہ سات یوم کے اندر اپنی حکمت عملی طے کرلیں گے لیکن بعد میں انہوں نے اس وقت کیس کی پیروی سے انکار کردیا جب خصوصی عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ مشرف کا ساتھ دینے والوں 3افراد کا اضافی چالان جمع کرائے۔ ان افراد میں وفاقی وزیر زاہد حامد بھی شامل تھے جنہوں نے بعدازاں استعفیٰ دے دیا۔ ابھی تک وفاقی حکومت نے کسی شریک ملزم کے خلاف انکوائری شروع نہیں کی اور پہلی بار اس نے عدالت سے حتمی حکمت عملی کی تیاری کیلئے وقت مانگا لیکن عملاً کچھ نہ کیا چنانچہ ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کی کارروائی معطل کردی۔ پراسکیوشن ٹیم کے ایک رکن خصوصی عدالت کے 21نومبر کے فیصلے کو ٹرائل کے اختتام پر ’’گگلی‘‘ قرار دیا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بات طے ہے کہ حکومت اس کیس میں کسی اور کو شامل نہیں کرنا چاہتی، خصوصی عدالت کو شواہد اور تفتیش کے بغیرکسی کو اس معاملے میں ملوث کرنے کا مینڈیٹ نہیں۔ دفاعی ٹیم کے ایک رکن نے بتایا اس بات کے واضح شواہد موجود ہیں کہ 3نومبر 2007کو مشرف نے ججوں کو برطرف کرنے کی ایک سمری پر دستخط کیے جس کی منظوری اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد اور وزیراعظم شوکت عزیز نے دی۔ سابق جسٹس عبدالحمید ڈوگر بھی مستفید ہونے والوں میں شامل تھے۔ اس بارے میں رابطہ کرنے پر سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل ڈاکٹر عبدالباسط نے تبصرہ کیا کہ ’’ اگر آپ وزیراعظم نواز شریف کی حماقت کی کوئی مثال دینا چاہتے ہیں تو مشرف غداری کیس اس کی بہترین مثال ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔