وفاقیت میں خلل اندازی

کلدیپ نائر  جمعرات 1 جنوری 2015

تقریباً 19 سال قبل ڈنمارک کے شہری کم پٹیر ڈیوی نے بھارت کی مرکزی حکومت کے کہنے پر مغربی بنگال میں پورولیا کے مقام پر ہتھیار گرائے۔ نئی دہلی حکومت کے مطابق  اس کا مقصد نکسل باڑیوں (نیکسلائٹ) کو مسلح کرنا تھا جو بائیں بازو کے نظریات کی طرف رجحان رکھنے والے عسکریت پسند تھے تا کہ مغربی بنگال کی کمیونسٹ حکومت کا تختہ الٹا جا سکے جو وہاں دو عشروں سے بھی زاید عرصہ سے حکمرانی کر رہی تھی۔

ڈیوی نے بعدازاں ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ اسے بھارتی پارلیمنٹ کے ایک ممبر نے ایسا کرنے کو کہا تھا تاہم اس نے ابھی تک اس رکن پارلیمنٹ کا نام نہیں بتایا۔ سی بی آئی (سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن) کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر جنرل نے اس رپورٹ کی تصدیق کی ہے تاہم اس نے بھی رکن پارلیمنٹ کا نام افشاء کرنے سے انکار کر دیا جو غالباً کانگریس پارٹی کا رکن ہو گا کیونکہ اس وقت نرسمہا راؤ کی حکومت اقتدار میں تھی۔ یہ انکشاف انرب گوسوامی کے ٹی وی چینل ’’ٹائم شو‘‘ میں کیا گیا مگر اسے ٹائمز آف انڈیا سمیت کسی پرنٹ میڈیا (اخبارات) نے شایع نہیں کیا۔ ڈیوی نے چینل کو بتایا کہ بھارتی حکومت نے اس منصوبے کو اس لیے منظور کیا کیونکہ وہ معصوم لوگوں کے دفاع کے لیے مسلح جدوجہد چاہتی تھی۔ ڈیوی نے صوبہ بہار کے رکن پارلیمنٹ پپو یادیو کا نام ضرور لیا جس نے بھارت سے فرار ہونے میں ڈیوی کی مدد کی تھی۔

ڈیوی کہنا تھا کہ وہ اس رکن پارلیمنٹ کے بلاواسطہ رابطے میں تھا جس نے بتایا کہ اس کا ان لوگوں سے رابطہ ہے جن کی وزیراعظم کے دفتر تک رسائی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آخر اتنی بڑی انکشاف انگیز خبر کو نہ صرف یہ کہ چینل کے اپنے اخبار نے بلکہ پورے ملک کے پرنٹ میڈیا نے کیوں شایع نہیں کیا۔ گو کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پریس والے اپنے حریفوں کی طرف سے نشر ہونے والی خبروں کو بالعموم نظرانداز کر دیے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دہلی کے وفاقی سیاست میں شامل ایک صوبائی حکومت کو گرانے کے جرم کا کسی نے کوئی نوٹس ہی نہ لیا اور نہ ہی اس کی کوئی سزا دی گئی ہے۔

میڈیا پر بھی شریک جرم ہونے کا الزام عاید کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس نے ذمے دار رکن پارلیمنٹ کا نام تلاش کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ حتٰی کہ اب جب کہ اس واقعے کو تقریباً دو عشرے گزر چکے ہیں اس متعلقہ ایم پی کا نام تو لازماً ڈھونڈ نکالنا چاہیے اس سے نئی دہلی کے ان حربوں کا پتہ چل سکے گا جو اس نے ایک ریاستی حکومت کو گرانے کے لیے استعمال کیے اور وہ بھی محض اس بنا پر کہ اس کے نظریات مرکز میں حکمران جماعت کے نظریات سے مختلف تھے۔ اس وقت بھارت کی طرف سے غیر سرکاری طور پر جو وضاحت کی گئی تھی اس میں کہا گیا تھا کہ وہ ہتھیار بنگلہ دیش کے لیے تھے۔

اگر یہ درست ہے تو اس سے اسلام آباد کا یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کی تحریک بھارت نے چلوائی تھی جب وہ مشرقی پاکستان تھا۔ اگرچہ اصل مقصد اب بھی اسرار کے سائے میں ہے۔ برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) نے تحقیقات کے بعد الزام عاید کیا کہ اسلحہ اور ہتھیار ایک نام نہاد سماجی روحانی تنظیم ’’آنندہ مرگا‘‘ کے لیے تھے۔ لیکن اس سے کم ڈیوی کے دعوے کی نفی ہوتی ہے کہ مرکزی حکومت خود کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا۔مارکسٹ (سی پی آئی۔ایم) کی حکومت گرانے کے لیے بھیجے تھے۔ بھارت کی ایک عدالت نے 1977ء میں فیصلہ دیا تھا کہ آنندہ مرگا گروپ ہی درحقیقت ان بندوقوں اور گولہ بارود کو وصول پانے والا تھا۔

عدالت میں طیارے کے پائلٹ نے گواہی دی تھی یہ نتیجہ عدالت نے پائلٹ کی گواہی اور دیگر کوائف کی بنیاد پر قائم کیا۔ دستاویز میں آنندہ مرگا کے ہیڈ کوارٹر کی ایک تصویر بھی شامل تھی۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ موصولہ ریکارڈ کے مطابق مجھے یقین ہے کہ یہ وہی مقامات ہیں جہاں پر ہتھیار گرائے گئے تھے جن میں آنندہ مرگا کی تین منزلہ سفید عمارت بھی تھی جہاں پر طیارے نے دوران پرواز ہی ہتھیار گرائے تھے۔

ایک چیز جو ابھی تک ناقابل فہم ہے وہ یہ کہ نئی دہلی سچ بتانے سے ہچکچا کیوں رہی ہے حالانکہ کِم ڈیوی نے اپنا اقبالی بیان بھی ریکارڈ کروا دیا ہے۔ آخر اس معاملے کی کس سطح پر مرکزی حکومت بھی ملوث تھی؟ کیا یہ افسر شاہی کی سازش تھی یا کہ کانگریس پارٹی کی ممکنہ سوچ تھی؟ جو بھی معاملہ ہو اب بھی اتنی تاخیر نہیں ہوئی کہ سچ کی تہہ تک نہ پہنچا جا سکے۔ مرکزی حکومت کی تو ساکھ ہی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ نئی دہلی کو ایک اور مسئلے پر بھی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اس پر عائد الزام ختم ہو سکے۔

ایک بہت پڑھی لکھی مسلمان خاتون نے مجھ سے اپیل کی ہے کہ اسے وہ بھارت واپس کر دیا جائے جو ہمیں برطانیہ سے ورثے میں ملا تھا۔ یہ تقریباً 68 سال پہلے کی بات ہے لیکن اب منظرنامہ آزاد خیال جمہوریت سے تبدیل ہو کر مذہبی سیاست کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ حکومت ممکن ہے کہ عملی طور پر تبدیلی کے لیے خود ملوث نہ ہو لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔ اس کی طرف سے جو تعمیر و ترقی کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے وہ صرف اس کی پارٹی بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کا ایک دکھاوا ہے۔

حقیقت میں وہ ملک کے اجتماعیت کی سوچ پر مبنی معاشرت کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں آزادی کی جدوجہد کے دوران بلند کیے جانے والے دعوؤں کو پورا ہوتا اور ان وعدوں کی تعمیل ہوتے دیکھ سکوں جن میں کہا گیا تھا کہ ہمارا ملک سیکولر ازم کی بنیاد پر تشکیل پائے گا۔ لیکن بی جے پی کی عسکریت پسندی نتھو رام گوڈسے کی یاد دلاتی ہے جس نے مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ بعض لوگوں نے تو قاتل  کے مجسمے بنوا کر نصب کرانے کی تجویز بھی دی تھی۔ اس قسم کی سوچ نے ہماری اجتماعیت کے نظریے پر مبنی معاشرے میں دراڑیں پیدا کر کے سیکولر ازم پر ہمارے اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ایسی فلم جس میں مذہبی پیشواؤں کو بے نقاب کیا گیاہے‘ اس کے خلاف غنڈہ گردی کی وجوہات بیان کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مودی کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں جو کہ اس پورے واقعے میں ابھارا گیا ہے لیکن مودی کی مذمت نہیں کی گئی اور بہت کم وہ لوگ گرفتار کیے گئے ہیں جو اس غنڈہ گردی میں ملوث تھے۔ مودی کی جرات نہیں کہ وہ آر ایس ایس کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکے جو کہ اب عملی طور پر سیاست میں شامل ہو چکی ہے اور محض رہنمائی کا قرض انجام نہیں دے رہی۔ جس بات نے مجھے سخت دھچکا پہنچایا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت انتہا پسند عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اس سے ماحول گیروے رنگ کے چولوں میں ملبوس تو نہیں ہو جائیگا لیکن معاشرے میں اس حد تک تقسیم در تقسیم نمودار ہو چکی ہے جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ لہٰذا اس مسلم خاتون کی طرف سے اٹھائے گئے سوال کا صرف یہی جواب ہو سکتا ہے کہ مایوس ہونے والے عناصر کو متحد کیا جائے تا کہ ہم اس خواب کی تعبیر کر سکیں جو تحریک آزادی کے دوران دیکھا گیا تھا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔