یہ آج کا بھارت اور ہم

عبدالقادر حسن  جمعـء 2 جنوری 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

بھارت کی ہندو حکومت کے ساتھ ہمارا حساب کتاب بہت پرانا ہے جس میں بھارتی مسلسل اضافہ کرتے رہتے ہیں اور اب ہم اس کے خاصے مقروض ہو چکے ہیں۔ اب تو وہ ہماری توہین اور بدتمیزی پر بھی اتر آئے ہیں اور اس حد تک گستاخ اور بے حیا ہو گئے ہیں کہ شائستگی کی تمام حدیں پار کر چکے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو باقاعدہ سرکاری اجلاس کے لیے بلاتے ہیں اور گھر بلا کر انھیں قتل کر دیتے ہیں اور الزام الٹا ہم پر لگا دیتے ہیں۔

ہماری کمزور اور لالچی حکومتوں نے بھارت کو ایسی جرأتیں عطا کی ہیں کہ وہ پاکستان کو اپنی منڈی بھی سمجھتے ہیں اور اسے دفاعی شعبوں میں بھی بھارت سے بہت کمتر سمجھتے ہیں۔ طویل غلامی نے بھارتی ہندو کے اندر ایک احساس کمتری پیدا کر دیا ہے اس کا علاج یہ سمجھا گیا ہے کہ پاکستان کو رسوا کرو جو ان کے صدیوں تک کے آقاؤں کے وارثوں کا ملک ہے لیکن طویل محکومیت نے ان کے اندر عام اخلاقیت بھی ختم کردی ہے۔ اپنے گھر بلا کر کسی کو قتل کر دینا پرلے درجے کی  بداخلاقی اور بزدلی ہے۔ بھارت کے اس جعلی برتری کے رویے کے ذمے دار ہمارے حکمران ہیں۔

ہمارے حکمران جو اشرافیہ کہلاتے ہیں یعنی پرانے زمانے کے انگریز ساختہ جاگیرداروں اور جدید زمانے کے کسی نہ کسی طرح دولت مند بن جانے والے اشرافیہ ان لوگوں میں قومی غیرت اور حمیت بہت کم رہی ہے وہ اس ملک پاکستان کے عوام ہیں جو بلا کے غیرت مند اور باعزت ہیں کہ جب بھی بھارت سے رابطہ، ہوا انھوں نے آگے بلکہ بہت آگے بڑھ کر بھارت کو اس کا ماضی یاد دلا دیا اور بہت اچھی طرح کہ اس کے پاس اس کے جواب میں کمینگی کے سوا کچھ نہ بچا جس کو وہ وقتاً فوقتاً ظاہر کرتا رہتا ہے جیسے ہمارے رینجر کے جوانوں کو قتل کر کے۔ اس کے جواب میں ہم نے جو مجاہدانہ رویہ اختیار کیا ہے اس کو ہمارے ایکسپریس کے شاعر انور مسعود نے اپنے قطعے کے ایک مصرعے میں یوں بیان کیا ہے کہ ع

ہم نے بھی احتجاج کیا ہے بہت شدید

شاعر ہمارے دفتر خارجہ کے اس جوابی اقدام کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اس نے بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو بلا کر سخت احتجاج کیا ہے۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ بھارت ہمارے ساتھ تجارت میں اربوں روپے کما رہا ہے سامان تجارت میں بھارتی غلاظت میں پیدا کی گئی گلی سڑی سبزیاں بھی ہیں جو ہمارے کاشتکاروں کی پیداوار کی قیمت گرا دیتی ہیں یعنی بھارت کے بنیا اپنے کام سے باز نہیں آ رہے اور ہماری حکومت نے ان کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ سچ کہا گیا ہے کہ کسی تاجر کو حکومت مت دو وہ تجارت میں کچھ بھی بیچ سکتا ہے۔

تجارت کے میدان میں ہندو کی برتری ہمیشہ رہی ہے ہم مسلمان تلوار چلاتے رہے اور تجارت سے دور ہی رہے۔ یہ خلاء ہندوؤں نے پر کر دیا۔ میرے گاؤں میں بھی تمام دکانیں ہندوؤں کی تھیں بلکہ پوری وادی سون میں تجارت ہندوؤں کے پاس رہی۔ یہاں لاہور کے سب سے بڑے بازار انار کلی میں صرف دو دکانیں مسلمانوں کی تھیں۔ ہندوؤں کو اب بھی پاکستان کے تجارتی مرکز یاد آتے ہیں اور اس یاد میں وہ پاکستان کے سرحدی علاقوں سے تجارت کرتے رہتے ہیں اور اس طرح ان پرانی یادوں کو بہلاتے رہتے ہیں۔

پاکستانیوں کو یہ بات معلوم نہیں کہ ان کے ملک کی پوری ٹرانسپورٹ بھارتی ٹائروں پر چلتی ہے۔ ہم نے ٹائروں کا ایک کارخانہ لگایا مگر اس کے ٹائر مجبوراً استعمال ہوتے ہیں کیونکہ وہ قابل اعتماد نہیں ہیں۔ ہمارے صنعتکار بھی بھارت سے مشینری منگواتے ہیں جو دبئی کے ذریعے پاکستان میں درآمد کی جاتی ہے۔ اس طرح اگر بھارت ہمارے ساتھ کاروباری رشتے قائم رکھتا ہے تو ہم بھی اس کے جواب میں پیچھے نہیں رہتے۔

ہماری تمام کمزوریاں بھارت پر واضح ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ہماری توہین اور سبکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا بلکہ موقع نہ ملے تو وہ اسے پیدا کر لیتا ہے جیسے ہمارے دو رینجر کا بھارت کے ہاتھوں قتل ہے۔ بھارت کی دراز دستیوں کا ہماری فوج کو بخوبی علم ہے چنانچہ ہماری فوج کے کمانڈروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے سپہ سالار نے بہت کچھ کہہ دیا ہے کہ سیاسی قیادت معمولی ایشوز پر وقت ضایع نہ کرے اب سپہ سالار کو کون بتائے کہ سیاستدان وقت ضایع نہیں کرتے ان کا ذہن اس سے اوپر جاتا ہی نہیں کہ وہ بڑے اور بنیادی ایشوز پر توجہ دیں۔ یہی چھوٹے ایشوز ان کے بڑے ایشوز ہیں چنانچہ ہم جب بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس پر فوراً اجلاس بلا لیتے ہیں اور کیا کریں۔ وزیراعظم نے تمام جماعتوں کا اجلاس پھر طلب کر لیا ہے اور پر تکلف دسترخوان کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔

بھارت جیسے کمینے دشمن کا جواب سیاسی لیڈروں کے اجلاس میں نہیں ہے۔ عوام نے موجودہ حکومت کو دل کھول کر ووٹ دیے ہیں یہ حکومت اب مضبوطی کے ساتھ کام کیوں نہیں کرتی اور ہر بار دوسری جماعتوں کا سہارا کیوں لیتی ہے جن کے ووٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیا پاکستانی عوام نے مسلم لیگ کو ووٹ دے کر اور اس کی حکومت بنوا کر کوئی غلطی کی ہے کہ اسے ایک کمزور حکومت ملی ہے جو ہر وقت اور ہر بڑے مسئلے پر بیساکھیاں تلاش کرتی ہے۔ ہماری ایمان سے معمور فوج سے بڑی بیساکھی اور کیا ہو سکتی ہے جو بار بار حکومت سے کہہ رہی ہے کہ ہمت کرو مرنے مارنے کے لیے ہم تیار بیٹھے ہیں اور سیاستدانوں کی طرح بھارت سے نہیں ڈرتے۔

بھارت کے عوام نے حالیہ الیکشن میں ایک انتہائی متعصب اور مسلمانوں کے قاتل لیڈر کو ووٹ دیے ہیں۔ یہ لیڈر نہ صرف یہ کہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا بلکہ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف موقع پیدا کرتا رہتا ہے۔ اس کا جواب اس کے اہل خانہ کو ساڑھیاں بھجوانا نہیں تلوار بھجوانا ہے اس نے بھارت میں آباد مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانے کا عمل شروع کر رکھا ہے ہمارے قائد کی بصیرت نے ہمیں بتا دیا کہ اگر پاکستان نہ بنا تو اس خطے میں آباد مسلمانوں کو ختم کر دیا جائے گا اور ہندوستان کی حد تک عمل شروع بھی ہو چکا ہے مگر ہم خاموش ہیں۔ شدید قسم کا کوئی احتجاج کرتے ہیں۔

بھارت کو امریکا کی حمایت حاصل ہے اور وہ خود اسلحہ کے ڈھیر لگا رہا ہے۔ ہم پاکستانیوں کو بھارت سے خبردار رہنا چاہیے۔ یہ ہمارا ملک توڑ بھی چکا ہے اور بھارتی پارلیمنٹ میں اندرا گاندھی نے اس کا فخریہ اعلان بھی کیا لیکن ہم یہ سب کیوں بھول جاتے ہیں ہم کس لالچ میں اندھے ہو چکے ہیں لیکن پاکستانی فوج اور عوام بھی دیکھ رہے ہیں اور محسوس بھی کر رہے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔