(پاکستان ایک نظر میں) - محترم جناب ذوالفقارعلی بھٹو صاحب

فرمان نواز  پير 5 جنوری 2015
جناب ذوالفقار علی بھٹو آج آپ کی سالگرہ کے موقع پر میں ایک بار پھر سے یہ امید لگائے بیٹھا ہوں کہ آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ فوٹو فائل

جناب ذوالفقار علی بھٹو آج آپ کی سالگرہ کے موقع پر میں ایک بار پھر سے یہ امید لگائے بیٹھا ہوں کہ آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ فوٹو فائل

محترم جناب ذولفقار علی بھٹو صاحب

السلام علیکم

جناب میں آپ کا ایک جیالا کچھ عرض کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ مرنے والے شخص کے منہ ذائقہ کڑوا ہوتا ہے کیونکہ موت کی گولی جو کڑوی ہوتی ہے۔ لیکن جس طرح آپ کو اس دارِ فانی سے زبردستی کوچ کرنے پر مجبور کیا گیا اُس صورت میں آپ کی جو حالت ہوگی اُس پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔آپ کو تو پھانسی دے کر ابدی نیند سلا دیا گیا لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بھٹو آج بھی زندہ ہے۔

ہاں بھٹو آج بھی زندہ ہے لیکن بھٹو کے وارث زندہ ہو کر بھی لاوارث لاش سے بھی بد تر حالت میں ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس پیپلز پارٹی کی بنیاد آپ نے رکھی تھی وہ پیپلز پارٹی اب نہیں رہی۔ مانا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی پارٹی بھی آپ کی پارٹی نہیں تھی لیکن اب تو اس کی حالت ہی کچھ اور ہے۔آپ کی سیکولر پارٹی اب موقع پرست پارٹی بن گئی ہے۔جیالوں کے منہ کو ایسے تالے پڑ گئے ہیں جیسے ان کو بولنا تک نہیں آتا۔محترمہ بے نظیر نے سیاسی مفاہمت کی بات کی تھی لیکن یہاں تو اُصولوں پر مفاہمت شروع ہو گئی ہے۔

آپ کا روٹی کپڑا اور مکان کا دعویٰ صرف جلسوں میں نعروں تک محدود ہو گیا ہے ۔ پیپلز پارٹی کے پچھلے پانچ سالہ دور میں آپ کے داماد جناب زرداری صاحب خود کو بچانے میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ مکان تو دورکی بات مزدور کو روٹی اور کپڑے کے بھی لالے پڑ گئے۔ چو ہدری اعتزازویسے تو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ریاست ہماری ماں جیسی ہےلیکن یہاں ریاست کی حالت ریاست ماں کی بجائے سوتیلی ماں کے جیسے ہوگئی ہے جو بچوں کے سر سے مکان، تن سے کپڑا اور منہ روٹی کا نوالہ چھین رہی ہے۔

آپ کی پیپلز پارٹی آپ کی سوچ اور فکر سے بہت دور چلی گئی ہے۔ زرداری سب پر بھاری تو ہیں لیکن اب پیپلز پارٹی پر بھی بھاری پڑ رہے ہیں۔مفاہمت سے حکومت تو بچ گئی لیکن پیپلز پارٹی کی یہ حالت تھی کہ الیکشن مہم تک صحیح طور سے نہ چلا سکی۔ عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کی طرح سلوک کیا گیا ،تھر کی حالت سب کے سامنے ہے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود عوام بوند بوند زندگی کو ترس رہے ہیں ۔ یعنی جو حالت مرکز میں پچھلے پانچ سالہ حکومت میں پیپلز پارٹی کی رہی وہی آج سندھ میں ہو رہا ہے۔

جنابِ والا آپ کی سالگرہ کے موقع پر جیالے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں کیونکہ روٹی کا نعرہ تو لگتا ہے لیکن روٹی ملتی نہیں۔ اپنے مکان بننے کا خواب تو ہمارا ادھورا رہ گیا ہے لہذا اب ایک ہی حل ہے کہ جلد آپ کے مزار کے باہر جھونپڑیوں کی بستی آباد ہو جائے، پھر پھٹے پرانے کپڑے تو ہمارے تن پہ ہونگے ہی جبکہ کھانا آپ کے لنگر سے ملے گا اور مکان کی ضرورت جھونپڑیاں پوری کریں گی۔آپ کا روٹی کپڑا اور مکان کاوعدہ آخر کار پورا ہو ہی جائے گا ۔ بس فرق یہ ہوگا کہ ریاست تو ماں کہ جیسی نہیں بن پائے گی لیکن آپ کے مزار کو لاکھوں مجاورمیسر ہو جائیں گے۔

ان سب کے باوجود میں سوچتا ہوں کہ مایوسی کے ان اندھیروں میں اب بھی اُمید کی کرن باقی ہے۔آپ کی محنت قدرت ضائع نہیں ہونے دے گی ۔ آج بھی پیپلز پارٹی کے جیالوں کو بلاول بھٹو زرداری سے اُمیدیں وابستہ ہیں۔ان میں ماں اور نانا دونوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔آپ کے جیسے اصلاحی ایجنڈا نہ سہی لیکن اُمید ہے کہ آپ کے نقشِ قدم پر چل کر وہ ظلم کے ایوانوں میں کھلبلی ضرور مچا دیں گے۔آپ کے جیسی فارن پالیسی نہ سہی لیکن کم از کم پاکستان پرمسلط کردہ قدامت پرستی کی آفریت سے نجات دلانے کا بیڑاتو اُٹھائیں گے۔ آپ کے جیسا شعلہ بیان نہ سہی لیکن جیالوں کے دلوں میں آپ سے والہانہ محبت کا شعلہ ایک بار پھر روشن کر دے گا۔

جناب ذوالفقار علی بھٹو آج آپ کی سالگرہ کے موقع پر میں ایک بار پھر سے یہ امید لگائے بیٹھا ہوں کہ آج بھی بھٹو زندہ ہے اور آنے والے وقتوں میں بلاول کی قیادت میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔

فقط

آپ کا جیالہ


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔