مہم جوئی یا پاگل پن؟

عبدالریحان  منگل 6 جنوری 2015
امریکی شہری دنیا بھر میں اپنے ہم ناموں سے ملنے نکل کھڑا ہوا۔ فوٹو: فائل

امریکی شہری دنیا بھر میں اپنے ہم ناموں سے ملنے نکل کھڑا ہوا۔ فوٹو: فائل

دنیا میں سرپھروں کی کمی نہیں جو کچھ نہ کچھ انوکھا کرنے پر تُلے رہتے ہیں۔ نیویارک کا رہائشی سیتھ کوہن بھی ایک ایسا ہی شخص ہے جو اپنے ہم ناموں سے ملنے کے لیے نکل کھڑا ہوا ہے چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی موجود ہوں۔

سیتھ کے مطابق اس ’مہم‘ کا مقصد محض اپنے ہم ناموں سے ملاقات کرنا ہی نہیں ہے بلکہ دنیا کے مختلف خطوں کا سفر کرنا، انجانے لوگوں سے ملنا اور نت نئے تجربات سے گزرنا ہے۔ امریکی شہری کا کہنا ہے کہ وہ زندگی کو بھرپور طریقے اور سنسنی خیزی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ اس  مشن پر نکل کھڑا ہوا ہے۔

سیتھ کوہن کو اس بات کا احساس تین ماہ پہلے ہوا تھا کہ اس کے ہم نام بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ستمبر میں سیتھ کی سال گرہ تھی۔ سال گرہ کی تاریخ کو سیتھ کی فیس بُک وال مبارک بادی پیغامات سے سج گئی۔ انھی میں ایک پیغام یہ تھا،’’ سیتھ، دنیا میں میرے سب سے پسندیدہ شخص، سال گرہ مبارک ہو۔‘‘ یہ پیغام پڑھ کر سیتھ حیران رہ گیا کیوں کہ وہ یہ پیغام پوسٹ کرنے والی عورت سے برائے نام واقف تھا، اور اس کا خیال تھا کہ وہ کسی بھی صورت اس کا پسندیدہ فرد نہیں ہوسکتا۔ چناں چہ سیتھ نے حقیقت جاننے کا ارادہ کیا۔

تھوڑی سی تلاش کے بعد ہی اسے معلوم ہوگیا کہ یہ پیغام دراصل ایک دوسرے سیتھ کوہن کے لیے تھا۔ اسی لمحے سیتھ کے ذہن میں خیال کوندا کہ کیوں نہ دیکھا جائے کہ دنیا میں اس کے کتنے ہم نام ہیں۔ اس نے اپنے ہم ناموں کی تلاش میں کئی ہفتے صرف کرڈالے۔ اس دوران سیتھ نے گوگل، سوشل میڈیا ویب سائٹس اور آن لائن ویب پیجز کو چھان ڈالا۔ یہ جان کر وہ حیران رہ گیا کہ صرف امریکا میں اس کے 300 ہم نام تھے۔

ہم ناموں کے بارے میں جان لینے کے بعد اس کے سَر میں ہر ایک سے ملنے کا سودا سما گیا۔ سیتھ نے اپنی اس مہم کو ’’سیتھ کوہن پروجیکٹ‘‘ کا نام دیا۔ اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ہم ناموں سے رابطہ کرنا شروع کیا اور نومبر میں بریڈ فورڈ، میساچوسیٹس میں اس کی ملاقات اپنے پہلے ہم نام سے ہوئی۔ اب تک وہ دس ہم ناموں سے مل چکا  ہے جن سے ملاقات کی تفصیل اس نے اپنے بلاگ پر بھی دے رکھی ہے۔

سیتھ کا کہنا ہے کہ اس کا یہ اقدام بہت سے لوگوں کے نزدیک پاگل پن ہی ہوگا مگر ا س کی وجہ سے اسے لوگوں کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع مل رہا ہے۔ سیتھ اپنے ہم نام سے ملاقات کرنے سے پہلے اس کے فیس بُک پروفائل یا لنکڈ اِن پر اس کی پیشہ ورانہ مصروفیات کے بارے میں جان کر اس کے بارے میں رائے قائم کرلیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک وہ جتنے بھی سیتھ کوہن سے ملا ہے ان سب کی شخصیت اور مزاج اس کی رائے کے برعکس نکلی۔ مگر ان سب نے سیتھ  کی اس مہم جوئی کو سراہا اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔

سیتھ کو نہیں معلوم کہ یہ مہم جوئی اسے کہاں کہاں لے جائے گی۔ اسے فوری طور پر کسی مالی پریشانی کا سامنا نہیں ہے مگر مہم کو جاری رکھنے کے لیے بالآخر فنڈز جمع کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ بالخصوص اس وقت جب اسے اپنے ہم ناموں سے ملنے کے لیے امریکا سے باہر جانا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔