کشور کمار کے تعریفی کلمات زندگی کا سرمایہ ہیں، اے نیئر

محمد جاوید یوسف  پير 5 جنوری 2015
پاکستانی فلموں کے معروف پلے بیک سنگر اے نیئر کی ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

پاکستانی فلموں کے معروف پلے بیک سنگر اے نیئر کی ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

پاکستان فلم انڈسٹری ہمیشہ سے خوش قسمت رہی کہ اسے ہر دور میں اچھے فنکار، گلوکار، موسیقار، نغمہ نگار، رائٹر، ڈائریکٹر اور تکنیک کار میسر آئے، خاص طور پر اگر ہم موسیقی کی بات کریں تو کلاسیکل، غزل، گیت، فوک اور پلے بیک سنگنگ کے میدان میں ایسے ’’نگینے‘‘ ہیں کہ جنہوں نے اپنی گائیکی اور کمپوزیشنز کے ذریعے بھارت سمیت پوری دنیا میں دھوم مچا دی۔

پلے بیک سنگنگ میں 70ء کی دہائی میں جب فلم انڈسٹری عروج پر تھی تو یہاں ہمیں صف اول کے گلوکاروں مہدی حسن ، مسعود رانا، احمد رشدی، غلام عباس ،مجیب عالم ، نورجہاں، ناہید اختر، اخلاق احمد ، منیر حسین ، مہناز، رونالیلیٰ کے ساتھ ایک نام اے نیئر کا بھی نظر آئے گا۔ اس گلوکار کے کریڈٹ پر ’’بینا تیرا نام‘‘، ’’یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا‘‘، ’’اک بات کہوں دلدارا‘‘، ’’میں تو جلا ایسا جیون بھر‘‘ سمیت ان گنت یادگار گانے ہیں۔

فلم ’’زندگی‘‘ میں سالگرہ کے حوالے سے گایا ہوا ان کا دوگانا ’’جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے، سب نے یہ شور مچایا ہے، سالگرہ کا دن آیا ہے‘‘ آج بھی مقبول عام ہے۔ پلے بیک گلوکاری میں اپنا منفرد مقام رکھنے والے اے نیئر نے اپنی زندگی کے نشیب وفراز کے بارے میں ’’ایکسپریس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ مجھے شروع سے ہی پلے بیک سنگر بننے کا شوق تھا اور میں چاہتا تھا کہ لوگ میری آواز سنیں۔ بہرحال گھر والے سخت خلاف تھے، مگر اس کے باوجود گھر والوں سے رات کو چھپ کر ریڈیو پر استاد سلامت علی خان ، استاد امانت علی خان سمیت دیگر سنگرز کو سنا کرتا۔

ریاض شاہد میرے محسن ہیں ان کی فیملی سے میرے گھریلو تعلقات تھے۔انہوں نے ہی اپنی فلم ’’بہشت‘‘ میں گانے کا موقع دیا ، جس کے میوزک ڈائریکٹر اے حمید تھے۔ ریاض شاہد کو سنسر بورڈ نے مارا جنہوں نے ان کی فلم ’’یہ امن ‘‘ کو سنسر نہیں بلکہ انہیں کینسر کردیا۔وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی کاوش کو سراہتے ہوئے ٹیکس بھی معاف بھی ہوجائے گا مگر شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ زندگی کا روگ بن جائے گی ۔وہ اپنی زندگی میں میرے لئے سب کچھ کرگئے تھے مگر ان کے بعد سینئرکیمرہ مین بابر بلال نے بھی بھرپور سپورٹ کی۔

میرا پہلا سپرہٹ گیت ہدایتکار جمشید نقوی کی فلم ’’خریدار‘‘ کا ’’پیار تو اک دن ہونا تھا ۔۔ ہونا تھا ہوگیا‘‘ تھا۔ میں اداکار کی شخصیت کے حوالے سے اپنی آواز میں گیت ریکارڈ کرواتا تھا۔ چاہے وہ وحید مراد ہو یا ندیم، شاہد، جاوید شیخ، غلام محی الدین یا محمد علی سمیت سبھی کے لئے اپنی آواز تبدیل کرتا، اسی لئے ان پر فلمائے جانے والے گانے ایسے ہی لگتے کہ جیسے انہوں نے ہی گائے ہوئے ہیں۔

اے نیئر نے کہا کہ پہلے میوزک ڈائریکٹر اور فلم ڈائریکٹر مل بیٹھ کر سوچتے تھے کہ فلم کا میوزک اور گانے کیسے ہوں گے اور کس اداکار پر کس گلوکار کا گانا فٹ بیٹھے گا۔ اسی طرح دوسرے گلوکاروں کے حوالے سے بھی میوزک ڈائریکٹر جان مارتے تھے۔ لیکن آج کل سب کچھ بدل گیا ہے ۔ اے نیئر نے بتایا کہ فلموں میں گلوکارہ ناہید اختر کے ساتھ میرا ایک پیئر ہوا کرتا تھا اور میرے سب سے زیادہ ہٹ گانے بھی ناہید اختر کے ساتھ ہیں۔ ہم دونوں سینے کے زور سے گانا گاتے تھے جو بہت کم لوگ گا پاتے ہیں۔ گلوکارہ مہناز جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں کے ساتھ بھی میرے ہٹ گانے ہیں۔

اے نیئر نے بتایا کہ ملکہ ترنم نور جہاں سے لے کر شبنم مجید تک سب کے ساتھ میں نے گانے گائے ہیں اور 80 کی دہائی کے تمام اداکاروں پر میری آواز میں گانے ہیں۔’’دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ‘‘ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ گانا میرا تھا جو مجھ سے چھینا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اداکار وہدایتکار جاوید شیخ اور میوزک ڈائریکٹر امجد بوبی نے اس گانے کے لئے مجھے بلوایا، جب ریکارڈنگ کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ یہ گانا تو تحسین جاوید کی آواز میں ریکارڈ ہو چکا ہے۔ جن دنوں ’’مشکل‘‘ کا میوزک ریکارڈ ہورہا تھا تو ایک روز ریکارڈنگ سٹوڈیو امجد بوبی سے ملنے گیا تو وہاں تحسین جاوید بھی موجود تھے۔

اس وقت تومجھے پتہ نہ چل سکا کہ تحسین جاوید کس سلسلے میںیہاں آیا ہوا ہے ،حالانکہ ریکارڈسٹ ادریس بھٹی مجھے آگاہ کرچکے تھے کہ معاملہ گڑبڑ لگ رہا ہے مگر میں نے کوئی نوٹس نہ لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ موسیقار امجد بوبی نے یہ گانا گاڑی کی ڈینٹنگ پینٹنگ اور ٹائر بدلی کروانے پر تحسین جاوید کو گفٹ کیا ہے۔

دکھ اس بات کا نہیں کہ یہ گانا تحسین جاوید نے کیوں گایا؟ میرا گلہ امجد بوبی سے تھا کہ جن کے ساتھ میرا ایک طویل ساتھ رہا، انہوں نے چند پیسوں کے لالچ میں یہ کیوں کیا۔ گلوکار تحسین جاوید کے لئے پہلے بھی ایک گانا چھوڑا تھا، اگر وہ اجازت لے لیتا تو خوشی ہوتی ۔ ویسے مجھے یہ گانا ذاتی طور پر بھی پسند تھا۔

گلوکار نے کہا کہ ہماری فلم انڈسٹری کی بربادی کی وجہ ڈائریکٹر، میوزک ڈائریکٹر سمیت دیگر لوگوں کا لالچ تھا کہ جنہوں نے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے ٹیلنٹ اور معیاری کام کا قتل عام کیا۔ پنجابی گانوں کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ فلم ’’دلاں دے سودے‘‘ کے لئے ’’بھل جان اے سب غم دنیا دے‘‘ گایا تھا اس کے بعد چند ایک گیت گائے مگر ہٹ نہیں ہوئے۔

کشور کمار سے ہونے والی یادگار ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 1987ء میں امریکا کی ریاست لاس اینجلس میں میوزک کنسرٹ تھا جس کے پہلے روز ہم نے اور دوسرے روز کشور کمار سمیت دیگر بھارتی سنگرز نے پرفارم کرنا تھا۔ اس پروگرام کے پروموٹر کے ذریعے کشور کمار سے ملنے ان کے کمرے میں گیا تو وہاں ان کا بیٹا امیت کمار بھی موجود تھا۔

وہ واش روم سے نکل رہے تھے، مجھے دیکھتے ہی کوئی سلام ودعا کرنے کی بجائے سیدھا ہی ’’ارے تم۔۔۔ تم نے تو ٹریجڈی گیت میں یوڈلنگ کر دی۔‘‘ (خوشی کا تاثر دینے کے لیے آواز کو اچانک انتہائی تیکھا نکالنا) اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے ’’دیکھو یہ پاکستان میں میرا نام روشن کر رہا ہے اور تم میری گود میں بیٹھ کر بدنام کر رہے ہو۔ ‘‘ان کے کہے یہ تعریفی کلمات زندگی کا سرمایہ ہیں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فنکار اور گلوکار کی کوئی قدر نہیں حالانکہ ہمسائیہ ملک میں آرٹسٹ کو مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد بہت عزت دی جاتی ہے۔وہاں پر آرٹسٹ کو مرنے نہیں دیا جاتا اور اس کو کسی نہ کسی بہانے کام میں مصروف رکھا جاتا ہے اس کے برعکس پاکستان میں ایسا بالکل نہیں ہے یہاں پر آرٹسٹ کو گھر میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ہمارے بہت سے فنکار شوبز سے دوری اختیار کرنے کے بعد کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور حکومت کی طرف سے ان کو جو وظیفہ ملتا ہے وہ بھی بروقت نہیں ملتا۔

اے نیئر نے کہا کہ میں نے اپنا آخری فلمی گیت فلم ’’ شعلے‘‘ میں گایا تھا۔یہ فلم ریلیز نہیں ہوسکی تھی۔ ایک سوال کے جواب میں اے نیئر نے بتایا کہ موسیقار روبن گھوش چند سال قبل جب پاکستان آئے تھے تو انہوں نے انہیں بنگلہ دیش آنے کیلئے کہا تھا اور کہا تھا کہ تم بنگلہ فلموں میں گاؤ کیونکہ میں نے ان کے ساتھ بنگالی فلم کے گانے گائے تھے اور انہیں وہ یاد تھا اور وہ چاہتے تھے کہ میں دوبارہ سے بنگلہ فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگاؤں لیکن میں نے اپنے محسن روبن گھوش کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کر لی تھی۔

گفتگو کے دوران بیٹے کے ذکر پر آبدیدہ ہوگئے، انہوں نے کہا کہ بس خدا کی مرضی تھی وہ چلا گیا۔ اپنے دوست دلدار پرویز بھٹی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ بہت عزیز دوست تھے اور انہیں دلدار پرویز بھٹی کی اچانک موت پر بہت دکھ ہوا اور جب میں اپنا یہ گیت ’’ اک بات کہوں دلدارا تیرے عشق نے ہم کو مارا‘‘ گاتا تھا تو دلدار پرویز بھٹی اس پر جھوم کر ناچتا تھا۔ اپنے 33 سالہ فلمی سفر میں اپنے بچوں کو صرف بڑے ہوتے دیکھا ہے ان کے ساتھ وقت بہت کم گزارا کیونکہ میں 1971 ء سے 2004ء تک دن رات مصروف ہی رہا ۔

اے نیئر نے کہا کہ کشور کمار اور محمد رفیع ان کے آئیڈیل گلوکاروں میں سے ہیں اور بہت سے لوگ مجھے پاکستان کا کشور کمار کہتے ہیں۔ یہ اس لئے نہیں ہے کہ میں کشور کمار بننا چاہتا ہوں یہ اس وجہ سے ہے کہ کشور کمار آواز کی جس پچ سے گاتے تھے میں بھی اسی پچ کے قریب قریب ہوں اور گانے کے دوران میری آواز کشور کمار کی پچ سے کہیں جا کر مل جاتی ہے۔ آخر میں میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر کسی کو گانے کی فیلڈ میں آنا ہے تو اس کو باقاعدہ طور پر گانا سیکھنا ہو گا لیکن اگر وہ آ گیا ہے تو پھر یہ گانے اور گانا سننے والوں کیلئے روح کی غذا نہیں … کچھ اور ہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔