’’لوگ جس نعش کے قریب نہیں جاتے اسے ہاتھوں پر اٹھاتا ہوں‘‘

رانا نسیم  اتوار 18 جنوری 2015
سال سے لاوارث نعشوں کی تدفین میں مصروف نعیم حسن بھٹی سے گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

سال سے لاوارث نعشوں کی تدفین میں مصروف نعیم حسن بھٹی سے گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

بلاشبہ موت برحق اور ہر نفس کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے، کیوں کہ جب یہ دنیا معرض وجود میں آئی تو یہاں صرف زندگی ہی نہیں بلکہ موت نے بھی جنم لیا، زندگی اتنی بے اعتبار ہے کہ کچھ خبر نہیں کب بے وفا ہو جائے۔ دنیا نشیب و فراز کا مجموعہ ہے، جہاں بعض اوقات حالات انسان کو اس نہج پر پہنچا دیتے ہیں کہ وہ مالک کائنات سے موت تک مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

حالات کا ستایا انسان زندگی کا خاتمہ چاہتا ہے، مگر لاوارث موت سے وہ بھی پناہ مانگتا ہے، دنیا وہ جگہ ہے، جہاں ہر بات یا خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ وطن عزیز میں روزانہ سینکڑوں لاوارث نعشیں ملتی ہیں، جنہیں کبھی ریاستی ادارے تو کبھی فلاحی تنظیمیں انسانیت کی خدمت کی غرض سے قبروں میں امانتاً دفنا دیتی ہیں۔ تو اس ضمن میں یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ اکثر لاوارث نعشوں (خصوصاً نشہ کی لت میں مبتلا افراد) کی حالت ناقابل بیان ہوتی ہے، یعنی ان سے اٹھنے والا تعفن عام لوگوں کو دور بھگا دیتا ہے، وہ اس کے قریب تک نہیں آتے لیکن سلام ہے ان لوگوں کو جو ان نعشوں کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر غسل سے لے کر تدفین تک کا اہتمام کرتے ہیں۔

’’ایکسپریس‘‘ نے اپنے قارئین کے لئے ایک ایسے ہی شخص سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو گزشتہ 25 سال سے لاوارث نعشوں کی تدفین کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ انٹرویو کے دوران جہاں لاوارث نعشوں کی تدفین کے عمل اور اس میں درپیش مشکلات کی بات ہوئی وہاں اس شخص نے اپنی زندگی کے پنوں کو بھی کھنگالا۔

سرگودھا کا رہائشی 48 سالہ نعیم حسن بھٹی 1990ء میں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن میں بطور نائب قاصد بھرتی ہوا۔ نعیم کی شادی 1986ء میں ہوئی، اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ والد محمد یعقوب بھٹی ایک انشورنس کمپنی میں کام کرتے تھے۔ گھر میں کھانے والے افراد 8 تھے، مگر یعقوب بھٹی کی آمدن محدود ہونے کے باعث گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی۔

نعیم حسن نے بتایا کہ ’’میں ابھی آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھا کہ ایک روز اچانک والد انتقال کرگئے، جس کی وجہ سے پڑھنے کی شدید خواہش کے باوجود میں مڈل سے آگے نہ بڑھ سکا۔ میں نے پڑھائی چھوڑ دی، کیوں کہ اگر میں مزید پڑھتا تو پھر گھر کا چولہا کیسے چلتا؟ والد کے انتقال پر مزدوری کرنا شروع کر دی اور بعدازاں تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن سرگودھا والوں نے مجھ پر ترس کھایا اور مجھے 1990ء میں بطور نائب قاصد بھرتی کر لیا گیا، یوں گھر کا بجھتا ہوا چولہا پھر سے جل اٹھا۔‘‘

گھر کے معاشی حالات کا ذکر کرتے ہوئے نائب قاصد کا کہنا تھا ’’ مجھے یہ کام کرتے ہوئے تقریباً 25 سال گزر چکے ہیں، ٹی ایم اے میں سکیل 2 کا نائب قاصد بھرتی ہوا تھا اور آج بھی وہیں کھڑا ہوں۔ ہاں! البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ہر سال تھوڑی تھوڑی تنخواہ ضرور بڑھتی رہی، لیکن یہ اضافہ اتنا کم ہوتا کہ آج یعنی 25 سال سروس کے بعد بھی میری تنخواہ 19 ہزار ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس قلیل تنخواہ کی ادائیگی کے معاملات بھی درست نہیں، فنڈز نہ ہونے کے باعث اکثر ہماری تنخواہیں تاخیر کا شکار ہو جاتی ہیں، جس وجہ سے پھر لوگوں سے مانگ تانگ کر گزارہ کرتا ہوں۔

آباؤ اجداد کی طرف سے کوئی زمین و جائیداد ملی نہ اتنی کم تنخواہ کی وجہ سے اپنے یا اپنے بچوں کے لئے کچھ بنا سکا۔ میرے پاس اپنا گھر تک نہیں، 5 ہزار روپے ماہانہ کرائے پر ایک گھر لے رکھا ہے، بچے سارے پڑھ رہے ہیں تو بتائیں کہ ان حالات اور مہنگائی میں ایک غریب کا چولہا کیسے جلتا ہو گا؟ بہرحال میں پھر بھی اپنے رب کا شکر گزار ہوں، جو دال روٹی دیئے جا رہا ہے۔ اپنے بچوں کے لئے جو میں کر سکتا ہوں، وہ میں کر رہا ہوں، باقی ان کے نصیب کہ مستقبل میں انہیں کیسی زندگی ملتی ہے؟‘‘

لاوارث نعش کی تدفین کے عمل کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے نعیم بھٹی نے کہا کہ ’’ لاوارث نعشوں کی تدفین کا جو معاملہ ہے، وہ کچھ یوں ہے کہ کسی جگہ پر اگر کوئی لاوارث نعش پڑی ہے، تو ہم اسے براہ راست نہیں اٹھا سکتے۔ نعش کو پولیس اپنی تحویل میں لے کے اس سے ملنے والی اشیاء، کپڑوں کا رنگ، عمر وغیرہ پر مشتمل ایک رپورٹ تیار کرتی ہے۔ بعدازاں اسے اہلکار ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچا دیتے ہیں، جہاں اس کا پوسٹمارٹم کیا جاتا ہے۔ پوسٹمارٹم کے بعد متعلقہ تھانہ لاوارث نعش کی تدفین کے لئے ہمارے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریٹر(ٹی ایم او) کو ایک درخواست لکھتا ہے۔

ٹی ایم او کی طرف سے منظوری کے بعد، میں نعش کو وصول کرتا ہوں، یہاں یہ بات بھی میں واضح کر دوں کہ اس وقت نعش برہنہ حالت میں ہوتی ہے، یعنی اس کے جسم پر کپڑے تک نہیں ہوتے۔ نعش کی وصولی کے بعد میں اسے اپنی چاند گاڑی (ہتھ ریڑھی) پر ڈال کر مرکزی قبرستان لے جاتا ہوں، جہاں نعش کو غسل دینے کے بعد اس کا جنازہ پڑھا کر تدفین کر دی جاتی ہے۔‘‘ کام میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے نعیم حسن نے بتایا ’’ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نعش کے کفن دفن کے لئے ٹی ایم اے کی طرف سے 3 ہزار روپے دیئے جاتے ہیں، جو کہ ناکافی ہیں۔ اس رقم کو ہم براہ راست قبرستان والوں کو پہنچاتے ہیں، جو ہر بار اسے 3 ہزار سے 4500روپے پر لے جانے کا مطالبہ کرتے ہیں، اب آپ بتائیں اس میں، میں کیا کر سکتا ہوں؟

پیسے ٹی ایم اے نے دینے اور قبرستان والوں نے لینے ہیں، میں تو صرف نعش کو سنبھالتا ہوں، لیکن پھر بھی وہ ہم سے بحث کرتے رہتے ہیں۔ دوسرا دور جدید میں بھی ہم جیسے غریبوں کو پہلے دور کے غلاموں کی طرح ہتھ ریڑھی سے اوپر نہیں آنے دیا جاتا، میں اب عمر کے جس حصے میں پہنچ چکا ہوں، وہاں ریڑھی کو گھسیٹنا تھوڑا مشکل کام ہے، دوسرا جب ہم ریڑھی پر نعش (جو اکثر گلی سڑی ہونے کی وجہ سے تعفن پھیلا رہی ہوتی ہے) رکھ کر بازار سے گزرتے ہیں، تو لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہماری تو خیر ہے، کیوں کہ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں۔

لاوارث نعشوں کو دفناتے دفناتے ہم اپنی شناخت بھی بھول چکے ہیں۔ لہٰذا میرا یہ مطالبہ برحق ہے کہ لاوارث نعشوں کی تدفین کے لئے ایک ایمبولینس فراہم کی جائے، جس سے نہ صرف ہمیں بلکہ لوگوں کو بھی آسانی ہوگی۔ قبرستان میں لگا واٹر پمپ چوری ہو چکا ہے، نیا پمپ تاحال نہیں لگایا جا سکا جس کے باعث نلکوں سے بالٹیوں میں پانی بھر کر لاتے ہیں، جس سے غسل بھی دیا جاتا ہے اور قبرکی کھدائی بھی کی جاتی ہے۔

اچھا تیسرا مسئلہ جسمانی نوعیت کا ہے، ویسے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس کام کی وجہ سے کسی بڑی بیماری سے تاحال محفوظ ہوں، لیکن میں آپ کو کیا بتاؤں کہ نعشوں کی حالت کیسی ہوتی ہے؟ چوں کہ یہ نعشیں زیادہ تر اسی وقت ملتی ہیں، جب تعفن اٹھنا شروع ہو جاتا ہے، پھر پولیس رپورٹ، ہسپتال اور ٹی ایم اے کے سرکاری عمل کے دوران بھی کافی وقت گزر جاتا ہے، اکثر نعشیں جو ہمیں ملتی ہیں، ان میں کیڑے پڑ چکے ہوتے ہیں۔

انتہائی خراب حالت کی ان لاوارث نعشوں کی وجہ سے بعض اوقات منہ، ہاتھوں اور جسم کے دیگر حصوں پر دانے نکل آتے ہیں، جس سے جلد بہت متاثر ہوتی ہے۔ اچھا پھر ایک اور بات کہ جب کبھی کسی لاوارث نعش کے لواحقین مل جائیں تو پھر اس کی قبر کشائی ہوتی ہے، یہ قبر کشائی ہم خود ساتھ مل کر کرتے ہیں، تو جب نعش کو باہر نکالا جاتا ہے، تو اس کی انتہائی خراب حالت کے باعث قے تک آنے لگتی ہے، باقی لوگ تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں، لیکن ہم موقع پر موجود رہ کر یہ سب کچھ کرتے رہتے ہیں۔ کیوں کہ اگر یہ نہیں کریں گے تو بچوں کا پیٹ کیسے پالیں گے؟‘‘

کام کی وجہ سے کبھی رشتہ داروں یا معاشرہ سے کسی قسم کی ہتک آمیزی کا سامنا کرنا پڑا؟ جیسے آپ نے خود بتایا کہ نعشیں بہت بری حالت میں ہوتی ہیں، یعنی تعفن اٹھ رہا ہوتا ہے یا ان میں کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں نعیم بھٹی گویا ہوئے کہ ’’ نہیں ایسی کوئی بات نہیں، کیوں کہ آج ہمارے معاشرے میں جتنا نفسا نفسی کا عالم ہے، اس میں اگر کوئی بندہ انسانیت کے لئے کام کر رہا ہے، تو اسے باقی لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ دکھی انسانیت کے کام آ کر میں بہت خوشی محسوس کرتا ہوں، میں خود ایک انسان ہوں، جس نے ایک دن اسی مٹی میں مل جانا ہے۔

آنے والے کل میں معلوم نہیں کیسے حالات ہوں، میرے ساتھ کیا ہو؟ تو بس میں اپنے رب سے اس کی جزا چاہتا ہوں۔ ٹھیک ہے لاوارث نعشوں کا کفن دفن میری ڈیوٹی ہے، لیکن پھر بھی آج کتنے لوگ ہیں، جو اپنی ڈیوٹی پوری کر رہے ہیں، لہٰذا لوگوں میں یہ ایک سوچ ہے کہ ہم نیکی کا کام کر رہے ہیں، اسی وجہ سے لوگ ہماری مدد بھی کرتے ہیں، یعنی مخیر حضرات کفن دفن میں مدد کرتے ہیں اور جب کسی لاوارث نعش کو قبرستان لے جاتے ہیں، تو کفن دفن کے بعد لوگ اس کے جنازے میں شرکت کر لیتے ہیں۔‘‘

قبروں کی کھدائی کے دوران کسی غیر معمولی واقعہ پیش آنے سے انکار کرتے ہوئے نائب قاصد نے کہا کہ ’’ 25 سال میں کوئی غیر معمولی واقعہ تونہیں ہوا، البتہ ایسا کئی بار ہو چکا ہے، کہ قبر کھودنے پر مردوں کی ہڈیاں باہر نکل آئیں۔ جس پر انسان ہونے کے ناطے کچھ دکھ اور خوف کا احساس ہوتا ہے کہ کل جب میں نے اس قبر میں جانا ہے، تو یونہی میری ہڈیاں باقی رہ جائیں گی اور بعدازاں انہیں بھی مٹی چٹ کر جائے گی۔‘‘

لاوارث نعشوں کے ریکارڈ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے نعیم نے بتایا’’ آج سے تین چار سال قبل تک یوں ہوتا تھا کہ پولیس آتی اور ٹی ایم او سے درخواست پر سائن کرواکر نعش ہمارے حوالے کر دیتی۔ اس درخواست پر نعش سے ملنے والی تمام اشیاء، کپڑوں اور عمر وغیرہ کے بارے میں درج ہوتا تھا۔ ہم نعش کو کفن دفن دے کر وہ درخواست اپنے ریکارڈ میں رکھ لیتے تھے۔ لیکن اب صورت حال میں کچھ یوں بہتری آئی ہے کہ درخواست کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کے ساتھ نعش کی باقاعدہ تصویر بھی لی جاتی ہے، لیکن قبر کی نشاندہی صرف میری یاداشت سے ہوتی ہے۔

ریکارڈ میں تصویر بھی رکھنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کبھی کوئی بھولا بھٹکا اپنے عزیز کو تلاش کرتا آجائے تو وہ اسے پہچان لیتا ہے لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دوں کہ لاوارث نعشوں کی تلاش میں آنے والے لواحقین کا تناسب صرف ایک یا دوفیصد ہے۔ اچھا ان لواحقین میں بھی صرف وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کا بندہ کسی حادثہ میں فوت ہوا ہو یا اسے قتل کیا گیا ہو۔ زیادہ تر نعشیں ہمارے پاس نشیؤں کی آتی ہیں۔ یہاں لاوارث نعشوں کی تعداد سال میں تقریباً ڈیڑھ سے دو سو کے درمیان بنتی ہے اور زیادہ تر نعشیں موسم گرما میں موصول ہوتی ہیں۔‘‘

زندگی کی کوئی ایک ایسی خواہش جو پوری نہیں ہوئی مگر دل بہت چاہتا ہو کے سوال پر نعیم حسن بھٹی نے کہا ’’ جہاں تک خواہشات کا تعلق ہے، ہم غریبوں کے پاس ان کے سوا اور ہے ہی کیا، مگر جو بات آپ نے کی کہ کوئی ایک خواہش تو اس میں عرض ہے جناب! غریب کے لئے زندگی کی خواہشات کیا، زندگی ہی خواہش بن چکی ہے کہ خدا! کرے کہ یہ کسی طرح گزر جائے۔‘‘ (حالات کی ستم ظریفی کا شکار نعیم حسن جب یہ باتیں کر رہا تھا تو اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے، آنکھیں تھیں کہ چھلکنے کے لئے بے تاب تھیں کہ اس دوران باہر سے ایک آدمی نے اسے کسی لاوارث نعش کے آنے کی اطلاع دی تو اس نے فوراً اپنا منہ دوسری طرف موڑ لیا۔) آنکھیں ملتے ہوئے نعیم بھٹی دوبارہ گویا ہوئے ’’میرے جیسے بندے کی کوئی ایک خواہش کیسے ہو سکتی ہے۔

اپنا گھر نہیں، بچوں کو اچھا پڑھا لکھا نہیں سکتا، انہیں کچھ کام نہیں کروا سکتا، کسی ماہ تنخواہ تاخیر کا شکار ہو جائے تو مانگ تانگ کر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اچھا اب میں سوچتا ہوں کہ میری تو جیسے گزرنی تھی گزر گئی، اللہ تعالیٰ میرے بچوں کے لئے آسانیاں پیدا کر دے۔ یہ اچھی تعلیم حاصل کریں اور اچھی ملازمت یا کاروبار کر سکیں۔ اب میں صرف اپنے رب سے اپنے بچوں کی زندگی آسان کر دینے کی دعائیں مانگتا ہوں۔‘‘ حکومت سے شکوہ کا اظہار کچھ یوں کیا ’’ہماری کسمپرسی کا ذمہ دار ہمارے حکمران بھی ہیں، جنہوں نے کبھی ہم جیسے غریبوں کا سوچا ہی نہیں۔ میں آپ کے اس اخبار کے ذریعے حکومت سے فریاد کرتا ہوں کہ خدارا! اس ملک کے غریبوں کے بارے میں بھی کچھ سوچیں، جن کے لئے مرنا آسان اور جینا مشکل ہو چکا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔