آزادیِ اظہار یا آزادیِ انتشار

ہادی فاروقی  ہفتہ 17 جنوری 2015
اب ہم ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں لوگ پہلے بولتے ہیں پھر تولتے ہیں۔ فوٹو فائل

اب ہم ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں لوگ پہلے بولتے ہیں پھر تولتے ہیں۔ فوٹو فائل

ہمارے جسم میں کُل 206ہڈیاں موجود ہیں، ہر ہڈی اپنے اوپر موجود گوشت کو اپنے قبضے میں رکھتی ہےکہ کہیں وہ گوشت کا حصہ مرضی کے بغیر کام نہ کرے، لیکن ان ہڈیوں میں بھی اتنی سکت نہیں کہ وہ زبان جیسے چھوٹے سے حصے کو سنبھال سکیں، اسی لیے اِسے بغیر ہڈی کے رکھا گیا۔

ہمارے ارد گرد اِس چھوٹی سی زبان نے جو فتنے پھیلائے ہیں اُس کی مثال کہیں نظر نہیں آتی۔ کبھی یہ تلوار سے تیز وار کرتی ہے تو کبھی خوشامدی اس سے اپنا کام نکلوانے کیلئے گلاب کا چھڑکاؤ کرتے نظر آتے ہیں۔ الفاظ کا چُناؤ، ادائیگی اور ادائیگی سے پہلے سوچنا اب پرانے وقتوں کی بات ہوگئی ہے۔

اب ہم ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں، جہاں لوگ پہلے بولتے ہیں پھر تولتے ہیں۔ جو جتنا جذباتی ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو اُتنا بڑا تیس مار خان سمجھتا ہے۔ جس کے پاس زیادہ لفاظی ہے وہ زمانے میں اپنے آپ کو انتہائی عالم فاضل اور دوسرے کو احمق ثابت کرنے کی پوری تگ و دو کرتا ہے۔ بات دلائل سے کرنے کے بجائے احمقانہ طریقے اپنائے جا رہے ہیں جسے ہم نے آج کل’’آزادیِ اظہار‘‘ کا نام دے دیا ہے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں آزادیِ اظہار ہے اسی لئے جو زبان پر آئے گا کہے جائیں گے۔ اب ذرا یہ بتائیے کہ آپ یہ آزادیِ اظہار اپنے اوپر کیوں استعمال نہیں کرتے؟ اور کیوں اپنے آپ کو برا بھلا نہیں کہتے؟ جب ہم قانون کی پاسداری نہیں کرتے، جب ہم دھڑلے سے غلط کام کیلئے پیسے دیتے ہیں یعنی چالان بھرنے کے بجائے چائے پانی کے پیسے خود نکال کر دیتے ہیں تب کیوں خود اپنے آپ کو برا نہیں کہتے؟ کیا یہی آزادیِ اظہارہے جو ہم نے دوسرے انسانوں کیلئے مختص کردی ہے ؟

ہمیں ملک سے محبت تو بہت ہے پر ویزا لائن میں سب سے آگے بھی ہم ہوتے ہیں۔ ہمیں انڈیا کے خلاف آواز تو اُٹھانی ہے پر پہلے انڈین فلم تو پوری دیکھ لیں۔ سڑکوں پر نکل کر اپنے حق کیلئے آواز اُٹھانا ہے تو ساتھ ساتھ اپنے ہی ملک کی املاک کو نقصان بھی پہنچانا ہے۔ اور تو اور پان کی پچکاری مار کر کہنا ہے کہ ملک بہت گندا ہوگیا ہے۔ کیا یہ دوغلا معیار انتشار کا سبب تو نہیں بن رہا؟ کیا یہ ہماری آزادیِ اظہار کہیں ہمیں اِس ملک کا غدار تو نہیں بنا رہی؟ پر ہمیں تھوڑی یہ سوچنا ہے۔ ہمیں سوچنا ہے تو بس یہ ہے کہ آج کس نے کس سے شادی کی، کل کس نے ہمارے نقطہ نظر کو بُرا بھلا کہا اور ابھی کون سی ہندی فلم کا بول بالا ہے۔

انسان کو اپنے کہے ہوئے الفاظ کو سوچ کر ادا کرنا چاہیے اور اُن پر خود بھی عمل کرنا چاہیے۔ اگر اب بھی ہم اپنا دوغلا معیار ختم نہیں کریں گے تو خود ہمارے اندر سے کوئی چارلی ہبیڈو اُٹھے گا اور ہم شکل دیکھتے رہ جائیں گے ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔