سانحہ پشاور میں افغان ایجنسی کے میں ملوث ہونے کے اشارے مل گئے

مانیٹرنگ ڈیسک  ہفتہ 24 جنوری 2015
دہشتگردوں کیخلاف افغانستان کی انٹیلی جنس نے تعاون نہیں کیا،آئی ایس آئی دشمنوں کوجواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے،رحمن ملک کی گفتگو۔ فوٹو: فائل

دہشتگردوں کیخلاف افغانستان کی انٹیلی جنس نے تعاون نہیں کیا،آئی ایس آئی دشمنوں کوجواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے،رحمن ملک کی گفتگو۔ فوٹو: فائل

لاہور: سانحہ پشاور میں افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں۔

سانحہ پشاور کے حوالے سے ایکسپریس نیوز کے پروگرام میں پہلی مرتبہ کچھ ایسے حقائق سامنے لائے گئے جن سے سانحہ پشاور میں افغان خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کے اشارے ملتے ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’کیو ود احمد قریشی‘‘ کے میزبان احمد قریشی نے انکشاف کیا کہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس (نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی) پاکستان میں کام کررہی ہے اور  پاکستان میں دہشتگرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہے، شاید سانحہ پشاور میں اسکا ہاتھ ہے۔

پاکستان کے پاس ثبوت تو کافی عرصے سے موجود تھے کہ افغانستان سے دہشت گردی کو کنٹرول کیا جا رہا ہے لیکن اس سانحے کے بعد فوری طور پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کا دورہ افغانستان یہ ظاہرکرتا ہے کہ اس دہشتگردی کے تانے بانے افغانستان میں جاملتے ہیں۔ این ڈی ایس کو  2002ء میں امریکا نے بنایا تھا، این ڈی ایس کے پہلے  سربراہ امراللہ صالح تھے جو پاکستان کا سخت ترین مخالف تھا اسکی تربیت بھارت سے کرائی گئی۔ پاکستان کی طرف سے شکایات کی وجہ سے امراللہ صالح کو 2010 میں حامد کرزئی نے ہٹا دیا تھا، اب پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اب ایشو یہ ہے کہ کیا این ڈی ایس پاک افغان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ابھی بھی کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ این ڈی ایس، ٹی ٹی پی کے ساتھ رابطے میں ہے۔ سابق وزیر داخلہ  رحمٰن ملک نے کہا کہ ہماری دوستی افغانستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ ریجن میں امن کیلیے بہت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے دہشتگردوں کیخلاف آپریشن میں افغانستان کی انٹیلی جنس نے ہم سے تعاون نہیں کیا وہ لوگ جو پاکستان میں  دہشت گردی میں ملوث رہے وہ وہاں پر بھاگ گئے ان کو افغان انٹیلی جنس سپورٹ کرتی رہی، 16 دسمبر کے واقعے کے بعد کیا ملا فضل اللہ کسی قسم کی ہمدردی کا حقدار ہے اور اگر افغانستان ایسے شخص کو پناہ دیتا ہے تو پھر کیا سمجھا جائے۔

ملافضل اللہ کے علاوہ مولوی فقیر محمد بھی وہاں ہیں، افغان  صدر سے اپیل ہے کہ وہ اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سمجھائیں اور جو بھی دہشت گرد ہیں ہمارے حوالے کریں۔ امریکی صدرافغان صدر کو کہیں کہ وہ ملا فضل اللہ سمیت متعدد دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کریں۔ انھوں نے بتایا کہ جان سلوکی اقوام متحدہ کے سینئر آفیسر   بلوچستان سے اغوا ہوئے تھے۔ ہماری انٹیلی جنس نے ایک کال ٹریس کی جس میں کہا گیا کہ لال بکرا بیمار ہے اور پاکستان حکومت جان چکی ہے کہ ہم کہاں ہیں، فون پر کہا گیا کہ ان کوشفٹ کر دیا جائے۔

ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ کال ٹریس کی تو پتہ چلا کہ جس گھر سے یہ کال کی گئی ہے وہ افغان صدارتی محل  سے تیسرا گھر ہے  اور  نمبربراہمداخ بگٹی کا تھا، میں نے صدر زرداری کو بتایا تو فیصلہ ہوا کہ امریکی سفیر کو بلا کر تفصیل بتائی جائے۔ این پیٹرسن کو بلایا گیا ان کو ٹریس کی ہوئی کال سنائی گئی، انھوں نے کہا کہ ہم افغانستان سے بات کرتے ہیں ۔4 گھنٹے کے بعد وہ ٹیلی فون خاموش ہوگیا، پھر ہم نے خیر بخش مری سے رابطہ کیا جنہھں نے اپنے کچھ دوستوں کے ذریعے براہمداخ بگٹی پر اثرورسوخ استعمال کیا اور ہمیں بتایا گیا کہ 2 روز بعد جان سلوکی فلاں اسپتال کے باہر مل جائیں گے۔

اس واقعے سے یہ بات واضع ہوگئی تھی کہ براہمداخ بگٹی کو رکھنے والے کوئی اور نہیں افغان صدر خود ہی تھے۔ میں آج بھی چاہوں گا کہ براہمداخ بگٹی پاکستان آئیں ، ہماری آئی ایس آئی اللہ کے کرم سے پاکستان کے دشمنوں کو جواب دینے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے۔ اب تک جتنے بھی ایکشن ہوئے ہیں ان میں این ڈی ایس اور بھارتی ایجنسیاں ملوث رہی ہیں ۔ خاص طورپر قندہار میں افغانستان کے لوگوں کو تربیت دینے کے ثبوت بھی ملے تھے این ڈی ایس اور بھارتی ایجنسیوں کی آپس میں انڈراسٹینڈنگ ہے۔ دہشت گردی کامسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک افغانستان اور پاکستان مل کر نہیں بیٹھتے جب تک ظالمان کیخلاف ہم متحد نہیں ہوتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔