اگر۔۔۔۔مگر۔۔۔چوں کہ۔۔۔چناں چہ

محمد عثمان جامعی  اتوار 25 جنوری 2015
ایک قصہ وقت میں سفر کا۔  فوٹو : فائل

ایک قصہ وقت میں سفر کا۔ فوٹو : فائل

 قسمت کو آپ سے جو کروانا ہو، کروا کے رہتی ہے۔ پھر تو افتادطبع، حالات، واقعات، شوق، مشاغل۔۔۔سب چرواہے بن جاتے ہیں، اور آپ اکلوتی بھیڑ، جسے یہ چرواہے مقصود چراگاہ تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ میں بھی ایک ایسی ہی بھیڑ ہوں جسے ان چرواہوں نے مل کر گھانس چروادی۔

بھئی کہیں تو کسر رہ گئی ہوتی، کچھ تو کمی ہوتی۔ محض طبیعیات کا پی ایچ ڈی اور استاد ہوتا، تختۂ سیاہ کو سفید مساواتوں اور نوخیز ذہنوں کو اصولوں، تعریفوں سے بھرتے بھرتے کلیہ طبیعیات کا صدر بنتا اور پھر ریٹائر ہوکر سکون کی زندگی گزارتا۔ ورنہ مجھے سائنس سے کچھ لینا دینا نہ ہوتا، تاریخ سے دل چسپی مجھے مورخ بنادیتی، حکم رانوں کی چال اور زمانے کا چلن دیکھتے ہوئے تحقیق کے دفتر کھولتا اور جس بادشاہ کو چاہتا سیکولر، مذہبی، ظالم یا انصاف پسند ثابت کر ڈالتا۔ یا مجھے طبیعیات سے غرض ہوتی نہ تاریخ سے واسطہ، اپنے ملک کے سیاسی، معاشی اور سماجی حالات پر جلتا کڑھتا اور اپنی جلن کڑھن کو لفظوں کی شکل دیتا کم از کم مراسلہ نگار اور زیادہ سے زیادہ صحافی یا سیاست داں بن جاتا۔

لیکن مصیبت یہ ہوئی کہ میں یہ سب کچھ بن کے رہا اور اس سب بننے نے مجھے اپنی نظروں میں تماشا بنادیا۔ چلیے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل پر دل جلانا تو نوجوانی کا فیشن ہے، کالجوں اور جامعات کا منہ دیکھنے والا ہر نوجوان ہی تھوڑا بہت دل جلا دانشور ہوتا ہے۔ لیکن میں نے تو غم دوراں کو ثریا کے غم کی طرح دل سے لگالیا۔ دراصل سارا قصور ہے ہی ثریا کا۔ تیرا کیا جاتا ثریا، اگر میری محبت قبول کرلیتی۔ عشق مجھے نکما کر رکھتا اور میں سوچنے، غور کرنے اور کچھ کر دکھانے کے خبط سے بچ جاتا۔

شاید ساری جہتیں مل کر بھی میرے لیے خرابی کا سامان پیدا نہ کرپاتیں اگر میں احساس کی شدت اور ذہانت کا مارا نہ ہوتا۔ بہ ہر حال، ان سب عناصر نے مل کر مجھ بدبخت جبران شیرازی کو تیار کیا۔ کتابوں اور اخبار کا مطالعہ تو لڑکپن سے مشغلہ تھا لیکن میری سوچ اور نظریات دیواروں کے لکھے پر استوار ہوئے۔ میری گلی سے اسکول تک، مذہبی، سیاسی اور لسانی رنگارنگی سے پُر راستے کی نعروں سے رنگین دیواریں، کہیں کسی پر کفر کا فتویٰ، کہیں کسی قوم کا نعرہ، کہیں کوئی الگ دیش بنانے کی آرزو۔ کتابوں نے بتایا کہ دور پرے بھی ایک پاکستان تھا، جو اب بنگلادیش ہے، اخبارات میں بھارت میں مسلم کش فسادات اور کشمیر کے حالات کی خبریں، ادارتی صفحوں پر ملک کے اسلامی یا سیکولر ہونے کی بحثیں، ایک بار تقسیم ہونے والے خطے پر جیسے تقسیم کی فصل اُگ آئی تھی۔ پڑھتا، سوچتا گیا۔ آخر نتیجہ یہ نکلا کہ سارے فساد کی جڑ اس خطے میں انگریزوں کی آمد ہے، کہ ان سے پہلے مذہب اور زبان کے نام پر کوئی بحث تھی نہ مارکاٹ، تو طے پایا کہ انگریز نہ آتے تو تعصبات سے پاک یہ برصغیر پرامن، خوش حال اور ترقی یافتہ ہوتا۔

’’مگر اب تو جو ہونا ہے ہوچکا۔۔۔۔‘‘ سوچ کر میں نچلا ہوبیٹھتا، لیکن یونی ورسٹی میں داخلہ لیتے ہوئے طبیعیات کا انتخاب اور پھر سائنس فکشن کا مطالعہ میرے دماغ میں ’’جو ہوچکا ہے اسے بدلا جاسکتا ہے‘‘ کا بیج بوگیا۔تو آپ کا یہ جبران شیرازی پی ایچ ڈی کرنے کے بعد تدریس سے وابستہ ہوا تو اس کی ساری سوچ بچار اور تگ و دو کا محور ٹائم مشین کی تیاری تھا۔صبح کے اوقات میں تدریس کی ذمے داری نبھانے کے بعد میں یونی ورسٹی کے رہائشی علاقے میں واقع اپنی قیام گاہ پہنچتے ہی جیسے تیسے کھانا کھاتا اور اپنے کام میں جُت جاتا۔

یہ کام وقت کے فلسفے اور قوانین کی پیچیدگیوں میں غرق رہنے سے شروع ہوا، پھر انجینئرنگ کے مسائل سے جوجھنے کا مرحلہ آیا، اور آخرکار ٹائم مشین کے لیے جملہ سامان تک رسائی اور حصول کی منزل آپہنچی۔ اپنی ہر تنخواہ کا نصف جوڑ جوڑ کر جمع کی جانے والی رقم سے بھی کام نہ بنا تو والد سے ورثے میں ملنے والا مکان بیچ کر اخراجات پورے کیے۔ یونی ورسٹی سے تین ماہ کی چھٹی لی اور ٹائم مشین بنانے میں مگن ہوگیا۔

میری منزل تھی سولھویں صدی کی پہلی دہائی کا ہندوستان، جہاں فرماں روا تھاجہانگیر، اور مقصد تھا جہانگیر کو انگریزوں کے کے عزائم سے آگاہ کرنا اور سمجھانا کہ انگریزوں کو تجارتی کوٹھیاں مت قائم کرنے دینا۔ میں نے پوری تیاری کر رکھی تھی، جس میں سب سے اہم تھی زبان۔ میں نے کئی سال لگاکر مغلیہ عہد کی فارسی سیکھی تھی، جو میں اٹک اٹک کر بول لیتا تھا۔
۔۔۔۔
بیسیوں گراریوں، سوئیوں اور ہندسوں کے ذریعے کھوئے ہوئے وقت کو پانے کی تیاری اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ میری برسوں کی محنت ٹائم مشین کی صورت میں میرے سامنے موجود تھی۔ شفاف عناصر اور درجنوں چھوٹی بڑی سوئیوں پر مشتمل ایک بڑا سا گھڑیال، جس کے نچلے حصے میں ایک چھوٹی سی کرسی اور کرسی کے سامنے کی بورڈ نصب تھا۔ میں نے آخری بار ٹائم مشین کا جائزہ لیا اور اپنے سفر کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوگیا۔ میرے لیے وقت میں سفر صرف ایک مہم جوئی نہیں تھی، میرے سامنے ایک بہت بلند مقصد تھا، مجھے تاریخ بدل ڈالنا تھی، جس کا مطلب تھا، برصغیر کی سیاست سے سماج اور معیشت سے ثقافت تک سب کچھ تبدیل۔ لمحات، ایام، دنوں اور صدیوں سے گزر کر مطلوبہ ماضی میں پہنچنا میرے نزدیک بیتے دنوں کو خواب میں دیکھنے جیسا نہیں تھا۔ برسوں کے مطالعے اور تحقیق سے جنم لینے والے میرے نظریے میں اگر واقعات کی ڈور کا سرا ہاتھ آجائے تو ہم کسی ایک بنیادی واقعے یا حادثے کو ہونے سے روک سکتے ہیں، اور پھر واقعات کا ایک نیا سلسلہ جنم لے سکتا ہے۔

میں گھڑیال کے نچلے حصے میں نصب کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنی انگلیاں کی بورڈ پر جمادیں۔ حروف اور اعداد میری پوروں سے چھوکر متحرک ہونے لگے۔ دھیمی آواز میں چلتی گراریاں تیز ہونے لگیں، تیز، اور تیز، اور تیز۔ اور پھر ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ ٹائم مشین اور میں بے وزنی کی حالت میں پوری رفتار میں گھومتے پنکھے کی طرح عقب کی طرف دوڑنے لگے۔ اندھیرے کی طویل سرنگی، روشنی کے ہالے، راہ داریاں، شور کے سمندر، سناٹے کے صحرا۔۔۔سب کچھ تیزی سے گزر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔
اچانک میرے ارد گرد کا شور رک گیا، سب کچھ ٹھیر گیا۔ ٹائم مشین ٹھیک ایسی جگہ اتری تھی جیسی میں چاہتا تھا، وقت کے ساتھ میں حدود بھی سیٹ کرچکا تھا، جو اس وقت کے شہر لاہور سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ویرانہ تھا، راوی کے کنارے۔ میں ٹائم مشین سے باہر آیا۔ اجلی دھوپ، تازہ ہوا، لہریں مارتا راوی۔۔۔۔اتنی فرحت کہ میں اپنی شان دار کام یابی کی مسرت بھی بھول گیا۔ میں نے اس تازگی کو ایک سگریٹ کے دھوئیں سے آلودہ کرکے اپنی کام یابی کا جشن منایا۔ پھر شہر کی طرف روانہ ہوگیا، جہاں شاہی محل تھا، جہانگیر کا دربار تھا، اور تاریخ میری منتظر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور کی اینٹوں کی بنی سڑکوں پر اونچے دروازوں والے مکانوں کے درمیان چلتے مجھے لگ رہا تھا جیسے میں تاریخ پر بنائی جانے والی کسی فلم کے سیٹ پر موجود ہوں۔ آتے جاتے لوگ آنکھوں میں حیرت اور اجنبیت لیے مجھے دیکھ رہے تھے، جس کی وجہ تھی میرا لباس۔ میری تیاری کا بس یہ پہلو تشنہ رہ گیا تھا۔ عین سفر سے کچھ پہلے خیال آیا تو بھاگم بھاگ ایک بوتیک پر پہنچا اور وہاں سے ایک کڑھا ہوا لمبا نسوانی کرتا خرید لیا۔ اب میں جینز پر یہ کرتا پہنے سولھویں صدی کے لاہوریوں کے درمیان چلا جارہا تھا۔ میرے ہاتھ میں قدیم لاہور کا نقشہ تھا، جسے دیکھتے ہوئے میں قلعے کی جانب گام زن تھا۔ میرے ذہن میں مسلسل یہ سوال گردش کر رہا تھا کہ دربار تک کیسے رسائی حاصل کی جائے؟

اچانک مجھے کچھ لوگ اپنی جانب تیزی سے بڑھتے دکھائی دیے۔ ان کا یکساں لباس انھیں سپاہی باور کرارہا تھا۔ وہ قریب آئے اور میرے گرد گھیرا ڈال لیا۔ ’’کون ہو تم، کہاں سے آئے ہو۔‘‘ پنجابی لہجے میں فارسی تحکمانہ انداز اپنا کر کچھ اور رعونت زدہ ہوگئی تھی۔ اب میری فارسی دانی کا امتحان تھا۔ ’’میں بہت دور سے آیا ہوں، مجھے شہنشاہ جہانگیر کے حضور کچھ عرض کرنا ہے۔‘‘ کچھ دیر بحث مباحثے کے بعد وہ مجھے داروغہ کے پاس لے گئے۔ جب اسے بتایا کہ میں شہنشاہ ِ معظم کو ان کے خلاف ہونے والی ایک سازش سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، تو وہ دوڑا دوڑا کسی اعلیٰ عہدے دار کے پاس گیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ زرق برق پوشاک میں ملبوس پختہ عمر کا ایک وجیہہ شخص بھی تھا۔ ’’چلو! شہنشاہِ معظم تمھیں طلب کر رہے ہیں۔‘‘ اس شخص کی راہ نمائی اور چار تلوار بہ دست سپاہیوں کے نرغے میں، میں قلعے کی راہ داریوں سے گزرتا ہوا ایک اونچے دروازے کے سامنے جا پہنچا۔ دروازے پر کھڑے چوب دار نے آہستہ سے دروازہ کھولا۔ چاروں سپاہی وہیں رک گئے اور پختہ عمر کا وجیہہ شخص مجھے لے کر اندر داخل ہوا۔

وسیع وعریض ہال، رعب، دبازت اور نفاست، رنگ، نقوش۔۔۔۔سارے منظر مختلف احساسات کا ساتھ ایک لمحے میں گڈمڈ ہوگئے۔ اپنے راہ نما کی پیش روی میں میرے اٹھتے قدم اس کے ساتھ ہی رک گئے۔ میری نظروں کے سامنے ہندوستان کا شہنشاہ تھا۔ نازک، سنہری چھوٹی چھوٹی دیواروں والی گہوارے نما مسہری پر مخملیں تکیوں سے ٹیک لگائے، دمکتی پوشاک پہنے، شہنشاہ نے نوک دار باریک بھوؤں کے نیچے سے اپنے ترچھی آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا۔ میں اپنے راہ نما کی طرح جھک کر آداب بجالایا۔

’’کون ہو تم، کیوں ملنا چاہتے تھے ہم سے؟‘‘

’’ظل الٰہی۔۔۔۔۔‘‘ میرے پیش نظر صرف اپنا مقصد تھا، میں جانتا تھا کہ جس زمانے میں ہوں اس کے اطوار اپنائے بغیر میں اپنی بات نہیں سمجھا سکتا، چناں چہ اپنے ہر نوع کے اعتقادات اور نظریات کو بھول کر میں شہنشاہ سے مخاطب تھا،’’میں آپ کو ایک خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے بہت دور سے آیا ہوں۔‘‘

’’کیسا خطرہ‘‘ اس نے ’’کون ہو‘‘ کا سوال پس پشت ڈال دیا۔

’’حضور! آپ کی شہنشاہی اور مغلیہ سلطنت کو سمندر پار سے آنے والے فرنگیوں کی صورت میں بہت بڑا خطرہ درپیش ہے۔ انھیں آپ نے تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے، مگر ان کا مقصد تجارت نہیں، وہ ہندوستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ انھیں نکال باہر کیجیے۔ اپنا طاقت ور عسکری بحری بیڑا بنائیے اور ہندوستان کو سمندر پار سے آنے والے دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیجیے۔‘‘

’’یہ تجارت پیشہ لوگ سلطنت مغلیہ کے لیے خطرہ ہیں!‘‘ اس کے لہجے میں طنز بھی تھا اور ہتک بھی۔

’’جی حضور! تاریخ یہی بتاتی ہے۔‘‘
’’ہندوستان کی تاریخ میں آج تک کسی نے اس ملک کو سمندر کے ذریعے فتح نہیں کیا، تم کس تاریخ کی بات کر رہے ہو۔‘‘
’’مستقبل کی شہنشاہِ معظم!‘‘
’’کیا مطلب؟ تم نجومی ہو؟‘‘
’’نہیں حضور۔‘‘
’’صاف صاف بتاؤ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو؟‘‘
’’جان کی امان پاؤں تو عرض کروں!‘‘
’’کھل کر کہو جو بھی کہنا ہے‘‘
’’ظل الٰہی! شاید میں آپ کو سمجھا نہ پاؤں‘‘
’’یعنی ہندوستان کا شہنشاہ کوئی ناسمجھ انسان ہے؟‘‘ مجھے درودیوار کانپتے محسوس ہوئے۔
’’نہیں حضور! بات ہے ہی اتنی پیچیدہ۔ دراصل میں مستقبل سے آیا ہوں، اس دور سے جو ابھی نہیں آیا۔‘‘
شہنشاہ اور میرے راہ نما نے، جو مجھے بعد میں پتا چلا کہ کوئی وزیر تھا، ایک دوسرے کو دیکھا اور مسکرا دیے۔
’’مجھے پتا ہے آپ میری بات پر یقین نہیں کریں گے۔۔۔۔‘‘
’’نہیں، ہمیں تمھاری بات پر یقین آگیا ہے۔‘‘ بادشاہ کا متبسم چہرہ سنجیدہ ہوچکا تھا۔
’’تو شہنشاہِ معظم آپ فرنگیوں کو ہندوستان سے نکال دیں گے۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔اور ہم بحری بیڑا بھی بنائیں گے، اپنی سلطنت کی حفاظت کے لیے جو ممکن ہوا کریں گے۔‘‘
پھر شہنشاہ نے اپنے وزیر کو میری خاطرمدارات کا حکم دے کر ہم دونوں کو رخصت کردیا۔
میں نے کچھ روز مغلیہ مہمان نوازی کے مزے لوٹے اور پھر واپسی کی تیاری کی۔ مجھے رخصت کرتے ہوئے وزیر نے شہنشاہ کی طرف سے شکریہ ادا کیا کہ میں نے سلطنت کو ایک بہت بڑے خطرے سے بچا لیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں اترے شکرگزاری کا رنگ مجھے پُرسکون اور مطمئن کرگیا۔
ٹائم مشین اسٹارٹ کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ میں ایک ایسے برصغیر میں پہنچوں گا جہاں انگریز کا سایہ بھی نہ پڑا ہوگا۔ ایک خوش حال، پُرامن، مستحکم اور ترقی یافتہ ملک۔ اس مسرت کے احساس کے ساتھ میں نے واپسی کے سفر کا آغاز کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
مایوسی۔۔۔۔۔شدید مایوسی۔۔۔میں ہار گیا تھا۔ ٹائم مشین مجھے لے کر جس کمرے میں پہنچی تھی وہ تقسیم شدہ برصغیر کی دہشت کے سائے تلے زندگی بسرکرتے شہر کے گھر کا کمرہ تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا میں چھوڑ کر گیا تھا۔میں نے ٹائم مشین کو توڑ ڈالا۔ اپنے مشن کے لیے جمع کی جانے والی ساری کتابوں اور تمام مسودوں کو آگ لگادی۔ میں نیم پاگل ہوچکا تھا۔ رفتہ رفتہ ذہنی حالت بہتر ہوتی گئی لیکن ناکامی میرے دل میں گڑی رہی، خون رستا رہا۔

خود کو سنبھالنے کے لیے میں نے اپنا پُرانا مشغلہ اپنا لیا۔ پرانی کتابوں کے ٹھیلوں پر زرد پنوں والی بوسیدہ کتابوں کی تلاش، جن کی مہک ہی مجھے سرشار کردیتی تھی۔ ٹھیلے پر کتابیں الٹتے پلٹتے میری نظر ایک کتاب کے سرورق پر جا ٹھیریں ’’عہدِ جہانگیر‘‘ مصنف ایک کم معروف لیکن مستند مورخ تھا۔ میں نے اپنے مقصد کی لگن میں عہد مغلیہ خاص طور پر جہانگیر کے دور سے متعلق لاتعداد کتابیں پڑھ ڈالی تھیں، لیکن اس تصنیف سے لاعلم رہا تھا۔گھر آتے ہی کتاب اپنے بیگ سے نکالی اور آرام کرسی پر بیٹھ کر مطالعہ شروع کردیا۔ سب کچھ لگ بھگ وہی تھا جو میں جہانگیر اور اس کے دور سے متعلق پڑھ چکا تھا۔ میں بیزار ہوکر کتاب رکھنے لگا تھا کہ پانچ سو صفحے کی کتاب کے دو سو چالیسویں صفحے پر تحریر سُرخی ’’ایک عجیب واقعہ‘‘ نے ایک بار پھر میری دل چسپی بڑھا دی۔ سرخی کے نیچے لکھا تھا:
’’سپاہیوں نے ایک عجیب وضع قطع کے اجنبی کو شہر میں گھومتے پکڑ لیا۔ تفتیش کرنے پر اس نے کہا کہ وہ بادشاہ سے مل کر اسے کسی سازش سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔ اسے بادشاہ کے پاس لے جایا گیا۔۔۔۔۔‘‘

آگے میری اور جہانگیر کا مکالمہ تقریباً جوں کو توں درج تھا، پھر تحریر تھا،’’کچھ دیر بعد بادشاہ نے وزیر کو بلوایا اور اس سے کہا، اس خبطی شخص کو کسی سے بات نہ کرنے دینا۔ پتا نہیں کون ہے یہ پاگل، خواہ مخواہ لوگوں کو خوف زدہ کرتا پھرے گا۔ اسے کسی سے ملنے مت دینا۔‘‘

مجھے یاد آیا کہ وہ وزیر دن بھر میرے ساتھ رہا تھا اور میری خاطر مدارات کرنے کے بعد مجھے کچھ سپاہیوں کے ساتھ روانہ کردیا تھا، جنھوں نے مجھے شہر کے باہر چھوڑا اور چلے گئے۔ ہاں یاد آیا، وزیر نے مجھ سے بڑی رازداری کے ساتھ کہا تھا،’’اس خطرے کے بارے میں کسی سے بات مت کرنا ورنہ فرنگی چوکنّا ہوجائیں گے۔ شہنشاہِ معظم چاہتے ہیں کہ ان کے علم میں لائے بغیرسلطنت کی حفاظت کا منصوبہ بنایا جائے۔ سمجھ گئے ناں!۔‘‘
اور یہ سن کر مجھے یقین ہوگیا تھا کہ تاریخ بدلنے کو ہے، میں وقت کو شکست دے چکا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔