ملیئے ایسے انسانوں سے جو حیرت انگیز عادتوں کے مالک ہیں

سید بابر علی  اتوار 25 جنوری 2015
دنیا میں کچھ لوگوں نے ایسی عادتیں اپنا لی ہیں جن کے بارے میں کوئی بھی ذی فہم یقین نہیں کرسکتا۔

دنیا میں کچھ لوگوں نے ایسی عادتیں اپنا لی ہیں جن کے بارے میں کوئی بھی ذی فہم یقین نہیں کرسکتا۔

ایک قول ہے کہ انسان اپنی عادت و اطوار سے پہچانا جاتا ہے۔ اربوں کی آبادی میں لاکھوں افراد کی عادتیں بلاامتیاز اور بنا رنگ و نسل و مذہب کی تفریق کے بنا ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں۔ کسی کو ناخن چبانے کی عادت ہوتی ہے تو کسی کو کاغذ یا مٹی کھانے کی، کسی کو دیواروں سے رنگ کھرچ کر کھانے کی عادت ہوتی ہے، تو کوئی بلا وجہ کاغذ سیاہ کرنے کی عادت میں مبتلا نظر آتا ہے۔ لیکن دنیا میں کچھ لوگوں نے ایسی عادتیں اپنا لی ہیں جن کے بارے میں کوئی بھی ذی فہم یقین نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ متعدد مسائل اور لاکھوں ڈالر کا نقصان کرنے کے باوجود اپنی نرالی عادتوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ عجیب و غریب عادتیں رکھنے والے افراد کی تفصیل دلچسپی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

ایئر فریشنر نگلنے کی شوقین

امریکی ریاست میسوری کی 27 ایویلین ائیر فریشنر کو منہ میں اسپرے کرنے کی اس قدر شوقین ہیں کہ ان کے پرس میں ایئر فریشنر کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ دفتر ہو یا کھانے کی میز ایویلین کو اُس وقت تک سکون نہیں ملتا جب تک وہ ایئر فریشنر کو منہ میں اسپرے کرکے نگل نہ لیں۔ ایویلین ایک ہفتے میں ایئر فریشنر کے 20کین استعمال کرتی ہیں۔ اس انوکھی عادت کے بارے میں ایویلین کا کہنا ہے کہ ’مجھے اس کا (ایئر فریشنر) ذائقہ بہت زیادہ پسند ہے، خصوصاً ’فریش لینن‘ بہت ہی مزے دار ہوتا ہے جب کہ ’ایپل کرسپ‘ کا ذائقہ مٹی جیسا ہے۔ میرا منگیتر رکی بھی میری اس عجیب عادت سے بہت نالاں ہے اور اسے ترک کرنے میں میری بہت مدد کررہا ہے۔ اس بارے میں ایویلین کا کہنا ہے کہ ’میں اس رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی عادت کو ترک کرنے کی بہت کوشش کر رہی ہوں لیکن یہ عادت میرے رگ و پے میں سماں چکی ہے، تاہم مجھے امید ہے کہ جلد یا بدیر میں ایئر فریشنر نگلنے کی لت سے چھٹکارا حاصل کرلوں گی۔‘

روحانی مشاورت کے لیے طویل دورانیے کی مہنگی فون کالز

امریکی ریاست ٹینیسی کے شہرناکس ولے کی 43سالہ خاتون میلیسااپنی نرالی عادت کی بدولت گزشتہ 5سالوں میں 5لاکھ ڈالر خرچ کرچکی ہیں۔ میلیسا کوٹیلے فون پر روحانی مشورے حاصل کرنے کی عادت ہے۔ وہ 5ڈالر فی منٹ کے حساب سے چارج کیے جانے والے ہاٹ لائن نمبرز پر دن میں متعدد مرتبہ کالز کرتی ہیں۔ طویل دورانیے کی ان فون کالز میں وہ اپنے گھر کے مسائل سے لے کر اپنے پالتو کتے کو درپیش مسائل کے حل تک کے لیے روحانی مشورے حاصل کرتی ہیں۔ میلیسا اس عادت میں پانچ سال قبل اس وقت مبتلا ہوئی جب انہیں دماغی بیماری Multiple Sclerosis کی وجہ سے سرجری کے عمل سے گزرنا پڑا۔ اس بیماری کے بعد انہوں نے روحانی مشاورت لینا شروع کی اور اب اُن کی یہ عادت اس قدر پختہ ہوچکی ہے کہ جب تک وہ دن میں کم از کم تین مرتبہ ہاٹ لائن پر کال کرکے روحانی مشورے حاصل نہ کریں اُس وقت تک وہ بے چین رہتی ہیں۔ اس بارے میں میلیسا کا کہنا ہے کہ ’ بلا وجہ لاکھوں ڈالر گنوانے کے بعد میں اپنی اس عادت کو ترک کرنا چاہتی ہوں لیکن شاید یہ میرے بس سے باہر ہے، تاہم میں نے فون کالز کا دورانیہ تھوڑا مختصر کردیا ہے، کبھی کبھی میں ایک دو دن کا وقفہ بھی کردیتی ہوں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میں اپنی اس عجیب عادت سے کبھی چھٹکارا حاصل کرسکوں گی۔‘

گردن میں پیتل کے بھاری چھلے پہننے کا شوق

لاس اینجلس کی رہائشی سڈنی اپنی گردن کو صراحی دار بنانے کے جنون میں اس حد تک آگے نکل گئیں ہیں کہ اب اُن کے واپسی کا سفر ممکن نہیں رہا۔ 29سالہ سڈنی کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ وہ برما کی قوم ’کیان‘ ( جنہیں پڈونگ بھی کہا جاتا ہے) کی خواتین کی طرح لمبی گردن کی مالک بن جائیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پیتل سے بنے 16 چھلوں کو اپنی گردن میں ڈال رکھا ہے۔ ان چھلوں کی بدولت سڈنی کی گردن 5انچ لمبی ہوچکی ہے، لیکن وہ اپنی گردن کو ایک فٹ (بارہ انچ) لمبی کرنے کی خواہش مند ہیں۔ اس نرالی عادت سے ہونے والی مشکلات کے باوجود سڈنی ان چھلوں کو اپنی زندگی کا اہم جُز قرار دیتی ہیں۔ اس حوالے سے سڈنی کا کہنا ہے کہ مجھے ان چھلوں کی وجہ سے گاڑی چلانے، پارکنگ کرنے یہاں تک کہ کھانے میں بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اب یہ چھلے پہننا میری پختہ عادت بن گئے ہیں اور ان کے بغیر میں خود کو ادھورا محسوس کرتی ہوں۔

مصنوعی پلاسٹر اور بیساکھیاں پہننے کا شیدائی

امریکی شہر شکاگو کے 27سالہ کیون ایک عجیب و غریب عادت میں مبتلا ہیں۔ اس عادت سے مجبور کیون کو ہمہ وقت ٹانگوں پر پلاسٹر لپیٹے بیساکھیوں کے سہارے چلتا دیکھا جاسکتا ہے۔ اس انوکھی عادت کے لیے کیون اب تک 50 ہزار ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔ کیون اپنی عادت سے اس قدر مجبور ہے کہ وہ دو بیساکھیوں اور ٹانگوں پر پلاسٹر چڑھائے بنا گھر سے باہر نہیں جا سکتا۔ اس حوالے سے کیون کا کہنا ہے کہ 12 سال کی عمر میں رولر اسکیٹنگ کرتے وقت میرا پاؤں پھسل گیا تھا، اس حادثے میں میرے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ ہاتھ پر ہونے والے پلاسٹر نے میری زندگی کا رُخ بدل دیا۔ 15 سال کے عرصے میں میری یہ عادت اتنی پختہ ہوچکی ہے کہ بیساکھیوں اور ہاتھ پیروں پر پلاسٹر کے بنا مجھے اپنی زندگی ادھوری لگتی ہے، مجھے یہ سب کرنا بہت پُر لطف اور دلچسپ لگتا ہے۔

کیون کے مطابق اس عادت کی وجہ سے میری منگیتر مجھے چھوڑ کر جاچکی ہے، اُس نے مجھے چھوڑنے سے پہلے یہی پوچھا تھا کہ ’’کیون، تہماری بیساکھیاں یا میں‘ اور میں نے محبت کو اپنی نرالی عادت پر قربان کردیا۔ اُس کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ عادت اب مجھ میں اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ شادی کے لیے میری آئیڈیل لڑکی بھی وہ ہی ہے جو میری طرح پلاسٹر اور بیساکھیوں کے ساتھ رہنے کی شوقین ہو۔‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔