ڈاکخانوں میں کمپیوٹرائزیشن کے نام پر کروڑوں کے میگا اسکینڈل کا انکشاف

ارشاد انصاری  پير 26 جنوری 2015
ڈاک خانوں کی کمپیوٹرائزیشن کا ٹھیکہ جس کمپنی کو دیا گیا ہے اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے ساتھ بھارتی رابطے بھی ہیں۔ فوٹو: فائل

ڈاک خانوں کی کمپیوٹرائزیشن کا ٹھیکہ جس کمپنی کو دیا گیا ہے اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے ساتھ بھارتی رابطے بھی ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزارت پوسٹل سروسزکے ذیلی ادارے محکمہ ڈاک کے2ہزار 574ڈاک خانوںکی  کمپیوٹرائزیشن اور کال سینٹر کے نام پر کروڑوں روپے کے میگا اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے۔

قومی احتساب بیورو(نیب) نے آٹومیشن اسکینڈل کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان پوسٹ سے منصوبے کے بارے میں ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ پاکستان پوسٹ کے ذرائع نے بتایا کہ محکمے کی کمپیوٹرائزیشن کے لیے کروڑوں روپے مالیت کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ منصوبے میں پیپرا رولز کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ پاکستان پوسٹ کی آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بھی منصوبے کی مخالفت کی گئی تھی اور تجویز دی گئی کہ ڈاک خانوں کی کمپیوٹرائزیشن کا کام پاکستان کمپیوٹر بیورو سے کرایا جائے لیکن پاکستان پوسٹ کے کرتا دھرتاؤں نے محکمانہ مخالفت کے باوجود ایک کمپنی ’ٹیلکونیٹ‘ سے معاہدہ کرلیا۔

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ کے افسروں نے اس کمپنی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی شق نمبر 5.8 سمیت دیگر شقوں پر بھی اعتراضات اٹھائے مگر انھیں خاطر میں نہیں لایا گیا جس کے باعث پاکستان پوسٹ میں قائم ہیڈ آفس کنٹرولنگ یونٹ بے سود رہا۔ جس کمپنی کو کمپیوٹرائزیشن کا ٹھیکہ دیا گیا ہے اس نے وہ سافٹ ویئرفراہم نہیں کیا جس کا ٹینڈر دیا گیا تھا اور جس کے لیے معاہدہ ہوا تھا۔

اس بارے میں جب پاکستان پوسٹ کے ایک سینئر افسر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پہلے یہی طے ہوا تھا کہ ڈاک خانوں کی کمپیوٹرائزیشن اور انکو ہیڈ آفس سے آن لائن منسلک کرنے کا کام ڈیپارٹمنٹ خود مکمل کرے گا اور اگر ضرورت ہوئی تو پاکستانی کمپنی کی خدمات حاصل کی جائیں گی کیونکہ پاکستان پوسٹ میں آئی ٹی کا ڈیپارٹمنٹ موجود ہے۔ اگرچہ اس ڈیپارٹمنٹ میں اسٹاف کم ہے لیکن مزید اسٹاف بھی رکھا جا سکتا تھا مگر پاکستان پوسٹ نے یہ کام آؤٹ سورس کردیا اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت بڑا نیٹ ورک تھا۔ اس لیے ٹیلکونیٹ کو یہ ٹھیکہ دیدیا گیا۔

اسی افسر نے بتایا کہ ٹیلکونیٹ کی جانب سے جو سافٹ ویئر دیا گیا ہے وہ ایشر (Escher) ہے تاہم ذرائع نے بتایا کہ ٹینڈر کے مطابق ٹیلکونیٹ کے ساتھ جو سافٹ ویئر تیار کرکے انسٹال کرنے کا معاہدہ کیا گیا بعد میں اس کو بھی تبدیل کردیا اور طے شدہ سافٹ ویئر کی بجائے تبدیل شدہ سافٹ ویئر انسٹال کرایا جو پیپرا رولز کی صریحاً خلاف ورزی ہے لیکن پاکستان پوسٹ کے حکام نے تبدیل شدہ سافٹ ویئر خریدنے کی وجہ یہ بتائی کہ جو سافٹ ویئر لیا جارہا ہے وہ ٹینڈر میں طے پانے والے سافٹ ویئر کے مقابلہ میں سستا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان پوسٹ میں ڈیٹا بیس قائم کرنے کے باوجود تاحال کوئی بہتری نہیں آئی اور فیلڈ میں اب بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اس کے علاوہ پاکستان پوسٹ نے وفاقی دارالحکومت کے علاقے بلیو ایریا میں قائم 360 نامی کمپنی کو پاکستان پوسٹل اسٹاف کالج میں کال سینٹر کی ایڈمنسٹریشن اوراس کی نگرانی اور آپریشنزکا ٹھیکہ دیا ہے اور اس مد میں بھی بدعنوانیاں کی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پوسٹل اسٹاف کالج میں قائم کیا جانے والا کال سینٹر بھی مؤثر نہیں جبکہ اس کال سینٹر کا بنیادی مقصد ڈاک کی ٹریکنگ اور اس سے متعلقہ معلومات کی فراہمی ہے مگر یہ ابھی تک نتیجہ خیز نہیں ہوسکا۔

ڈاک خانوں کی کمپیوٹرائزیشن کا ٹھیکہ جس کمپنی کو دیا گیا ہے اس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کے ساتھ بھارتی رابطے بھی ہیں۔ اس کمپنی کاہیڈ آفس بھی مبینہ طور پر بنگلور میں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ میگااسکینڈل پر قومی احتساب بیورو بھی متحرک ہوا ہے مگر پاکستان پوسٹ کے حکام اس معاملے کو دبانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس اسکینڈل کے بارے میں ڈپٹی ڈی جی محمد وسیم کے علاوہ رفیع الدین اور ادارے کے پی آر او مظہر چٹھہ سمیت دیگر افسروں سے انکے موبائل فون نمبروں پررات گئے رابطے کیے گئے مگر فون بند تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔