اسرائیل: حقوق کی لڑائی کا دائرہ

زاہدہ حنا  منگل 27 جنوری 2015
zahedahina@gmail.com

[email protected]

پاکستان اور اسرائیل دنیا کے وہ دو ملک ہیں جو مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئے۔ دونوں کے بنیاد گزاروں کا کہنا تھا کہ وہ جمہوری خطوط پر استوار ہونے والے ایک لبرل اور معتدل مزاج سماج کی بنیاد رکھ رہے ہیں لیکن آہستہ آہستہ دونوں ہی ملکوں میں بنیاد پرست اور قدامت پسند حلقوں کا اثر و نفوذ بڑھتا چلا گیا۔

پاکستان کے قیام سے ہندوستان میں کئی حلقوں کو اختلافات تھے جس کی بنیاد پر دونوں ملکوں میں کشیدگی بڑھتی رہی، نتیجہ تین جنگوں اور کئی مرتبہ مسلح تصادم کی صورت میں نکلا اور آج بھی ان کے تعلقات افسوسناک حد تک کشیدہ ہیں۔

اسرائیل کا عربوں سے تعلق ایک مختلف تناظر رکھتا ہے۔ 1947میں جس طرح دنیا کے دوسرے ملکوں سے یہودی النسل افراد کو لاکر فلسطین میں بسایا گیا اور اسے جس طور امریکا، برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں کی سرپرستی حاصل رہی، اس سے ہم سب اچھی طرح واقف ہیں۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جس طرح بار بار جارحیت کی اور ان کی اپنی سرزمین پر آزادانہ رہنے کا حق ان سے چھینا وہ بیسویں صدی کے نصف آخر کی ایک اندوہ ناک کہانی ہے۔ فلسطین عالمی ضمیر کے پہلو میں چبھا ہوا ایک کانٹا ہے جس نے صرف فلسطینیوں یا مسلمانوں کو ہی مضطرب نہیں کر رکھا ہے۔ اسرائیلی جارحیت نے اب یورپ کے مختلف ملکوں میں بھی یہ احساس اجاگر کیا ہے کہ بہت ہوچکا، فلسطین کو اب اس کا حق مل جانا چاہیے۔

اسرائیل کے اندر بھی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو انتہاپسند اور جنگجو حکمرانوں سے تنگ آچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری کتنی نسلیں کب تک حالت جنگ میں رہ سکتی ہیں۔ یہ ایک غیر فطری صورت حال ہے جس کو ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ مارچ میں اسرائیل کے قومی انتخابات ہونے والے ہیں اور امکان اس کا ہے کہ قدامت پرستوں اور لبرل اسرائیلوں کے لیے یہ فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔

اس حوالے سے اسرائیلی ادیبوں، سیاسی تجزیہ کاروں اور عمرانی ماہرین میں سے اکثر کا خیال ہے کہ اسرائیلی کے مسائل کا اصل سبب موجودہ وزیراعظم مسٹر نیتن یاہو کی ذات ہے جنھیں اسرائیلیوں نے تیسری مرتبہ منتخب کیا لیکن ان کی حکمرانی کے دوران حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ اسرائیل کے مشہور ادیب آموس اوز نے ایک انٹرویو میں کہا کہ مجموعی طور سے یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اسرائیل کی تنہائی میں اضافہ ہورہا ہے۔

ہمارے پرکھ جو دنیا کے مختلف ملکوں کو چھوڑ کر اسرائیل آئے تھے اور جن کا خیال تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے پسماندہ بستیوں سے نجات حاصل کرچکے ہیں، اب ان کی نسلوں کو احساس ہورہا ہے کہ وہ ایک نئی پسماندہ بستی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آموس کے خیال میں جب تک ان کے ہمسایہ فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق نہیں مل جاتے اس وقت تک باضمیر اور روشن خیال ایک عذاب میں گرفتار رہیں گے۔

نیتن یاہو روزانہ اسرائیلی عوام کو حماس کی نفرت اور اس کے ہتھیاروں کا ہوا دکھاتے ہیں اور روزانہ ایک نئے خطرے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ لیکن عوام اس صورت حال سے تھک چکے ہیں۔ اب سے پہلے نیتن یاہو کا کوئی مضبوط حریف نظر نہیں آتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ پچھلے دنوں نیتن یاہو حکومت نے وزیر انصاف تپی لیونی کو برطرف کردیا تھا۔ اب ان کے اور لیبر پارٹی کے رہنما آئزک ہرزوگ کے درمیان اتحاد قائم ہوچکا ہے۔ سابق وزیر انصاف کو امن دوست اور انصاف پسند اسرائیلیوں میں احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان رابطہ کار کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

ان دونوں سیاستدانوں کے اتحاد سے اس کا امکان پیدا ہورہا ہے کہ سینٹر لیفٹ ایک ایسی طاقت بن کر ابھرے جو نیتن یاہو کی انتہا پسندانہ سیاست کے لیے چیلنج بن سکے۔ اسرائیل کے اندرونی اور بیرونی معاملات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند ہفتوں پہلے آئزک ہرزوگ نے کہا کہ موجودہ صورت حال ہمارے ملک اور اس کے مستقبل کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ مسٹر نیتن یاہو ہمیں ایک بند گلی میں لے گئے ہیں۔

اسرائیلی سیاستدان، دانشور اور ادیب کہتے ہیں کہ 1948میں اس ریاست کے بنیاد گزاروں کا کہنا تھا کہ ہم اسرائیلی پیغمبروں کی تعلیمات کے مطابق اس ریاست کو آزادی، انصاف اور امن کے اصولوں پر استوار کریں گے۔ ریاست میں آباد تمام شہری سماجی اور سیاسی مساوات کے حقدار ہوں گے۔ ان سے مذہب، نسل اور صنف کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ اس وقت لیبر اور لُکد پارٹی اپنے تمام اختلافات کے باوجود اپنے شہریوں کے جمہوری حقوق اور ان کی آزادی کے لیے متفق ہے خواہ وہ یہودی ہوں یا عرب۔ اس حقیقت سے سب ہی آگاہ ہیں کہ قوم پرست یہودی اس انتہا کو گئے ہیں کہ وہ اسرائیلی صدر کو ’غدار‘ کے خطاب سے نوازتے ہیں۔

یاد رہے کہ صدارت کے عہدے پر فائز ریون ریولن عرب حقوق کی بات کرتے ہیں جو اسرائیل کے قوم پرستوں کو ہرگز گوارا نہیں۔ اکثر یہودی یہ سوال کرتے ہیں کہ جن فلسطینیوں کے گھر بلڈوزروں سے گرا دیے گئے، جن پر روزگار کے دروازے بند کردیے گئے، ان کے بچوں کے ذہن کو نفرت سے آلودہ کرنے کے لیے کسی حماس کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے گرائے جانے والے گھروں کو دیکھتے ہیں۔ یہ درودیوار کا نہیں، ان کے خوابوں اور مستقبل کا ملبہ ہے۔ اسے دیکھنے کے بعد کون ہے جو انھیں اسرائیل سے نفرت کرنے سے روک سکے۔

ایک یہودی صحافی کا کہنا ہے کہ ہم نے بارہا یہ جملہ پڑھا ہے کہ امن کے لیے تلواروں سے ہلکے پھل بنانے چاہیں لیکن ایک فلسطینی نے اس جملے کو حقیقت کر دکھایا۔ اسرائیلی مارٹر گولوں نے اس کے گھر کو تباہ کردیا۔ وہ اپنے گھر کے ملبے پر بیٹھا رہا۔ لوہے کے سریوں کو دیکھتا رہا پھر اس نے ان سریوں کو چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا، اس نے ان ٹکڑوں سے لیمپ اور گل دان بنائے اور ایک بڑی سی گھنٹی بنائی جس کو اس نے زیتون کے ایک پیڑ میں لٹکا دیا۔ اس یہودی صحافی نے کہاکہ غزہ میں بس یہی ایک چیز تھی جس نے مجھے اندھیرے میں امید کی کرن دکھائی۔

ایک طرف وہ قوم پرست اسرائیلی ہیں جو ببانگ دہل اپنے صدر کو ’غدار‘ کا لقب دیتے ہیں، دوسری طرف وہ قدامت پرست ہیں جنھوں نے اسرائیلی عورتوں کی زندگی حرام کر رکھی ہے۔ جمہوری اور جدید اسرائیل میں وہ انتہاپسند قدامت پرست پائے جاتے ہیں جو اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ عورت برسر عام نظر بھی آسکتی ہے۔ اس کا سب سے بڑا مظاہرہ اس وقت ہوا جب ان قدامت پرستوں کی نمایندگی کرنے والے ایک اخبار ’حامے واسر‘ نے پیرس کی سڑک پر ہونے والے اس مظاہرے کی تصویر شایع کی جس میں یورپ اور کئی دوسرے ملکوں کے وزرائے اعظم نے شرکت کی تھی۔

اس مظاہرے میں جرمنی کی سر براہ مملکت اینجلا مرکل بھی شریک تھیں اور وہ پہلی صف کے عین درمیان میں چل رہی تھیں۔ ’حامے واسر‘ نے اس تصویر کو شایع کیا تو اینجلا مرکل اس تصویر سے کاٹ کر نکال دی گئیں اور جو دوسری عورتیں اس مظاہرے میں شریک تھیں، ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ اس اخبار کے مدیر سے جب اس بات کا سبب پوچھا گیا تو جواب ملا کہ ہمارا اخبار گھروں میں جاتا ہے، یہ بچوں کی نظر سے بھی گزرتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے بچے عورتوں کی تصویریں دیکھیں۔

یہ ایک ایسا جواب تھا جسے سننے والا پہلے تو حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور پھر ہنستا ہے۔ لیکن یہ کوئی ایک واقعہ نہیں۔ اسرائیل میں وہ لوگ موجود ہیں جو عورتوں کا مقام صرف گھر کو سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ ان دکانوں میں نہیں جاتے جہاں عورتیں موجود ہوں اور اگر مجبوراً عورتوں کا سامنا ہوجائے تو منہ موڑ لیتے ہیں اور نگاہیں نیچی کرلیتے ہیں۔ ایک خاتون جو اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ بس میں سفر کر رہی تھی، ایک مرد نے اس کے برابر بیٹھنے سے انکار کردیا۔ بات بڑھی اور یہاں تک بڑھی کہ خواتین کی چند انجمنوں نے اس رویے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ عورتوں کے حق میں تھا لیکن اس فیصلے پر عمل نہ کرایا جاسکا۔

ایک آزاد اور جدید جمہوریت کے دعویدار اسرائیل کا یہ ایک ایسا چہرہ ہے جس سے ہم قطعاً ناواقف ہیں۔ یہ کٹر قدامت پرست اپنا اتنا اثر و نفوذ رکھتے ہیں کہ مقننہ سے تعلق رکھنے والے، بڑے کاروباری اور صنعتی اداروں کے سربراہ، سیاستدان اور پولیس افسران نہ چاہتے ہوئے بھی ان مذہبی رہنماؤں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔عورتوں کے بارے میں اس انتہاپسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال میں ایک ایسا چشمہ بازار میں آیا ہے جسے لگا کر عورتوں کو دیکھنے سے نجات مل جاتی ہے۔

فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ان معاملات سے بھی تعلق ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ لوگ جو اتنے انتہاپسند ہوں کہ اپنی عورتوں کو دیکھنے سے بھی ان کے عقائد پر ضرب پڑتی ہو، ان کے لیے عربوں کو برداشت کرنا کتنا بڑا مسئلہ ہوگا۔ اسرائیل میں حقوق کی لڑائی کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ لبرل، بائیں بازو اور روادار اسرائیلیوں کے ساتھ اسرائیلی عورتیں بھی اپنے حقوق اور فلسطینیوں کے حق کے لیے ایک طویل عرصے سے احتجاج کررہی ہیں۔ وہ دنیا میں سیاہ پوش عورتوں کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ یہ وہ تمام عناصر ہیں جو اسرائیل میں سب کے حقوق کی لڑائی کا دائرہ کھینچتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔