میرٹ کا مذاق آخر کب تک؟

سیما ناز  بدھ 28 جنوری 2015
جب پوزیشن ہولڈر کو نوکری نہیں دی گئی،تو آخر وہ کون خوش نصیب لوگ ہیں جو بنا کسی پوزیشن ہی جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے؟ ۔ فوٹو جمال خورشید ٹریبیون

جب پوزیشن ہولڈر کو نوکری نہیں دی گئی،تو آخر وہ کون خوش نصیب لوگ ہیں جو بنا کسی پوزیشن ہی جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے؟ ۔ فوٹو جمال خورشید ٹریبیون

گورنمنٹ جاب کے حوالے سے جتنی ناانصافی اہلیت (میرٹ) کے ساتھ ہوتی ہے اتنی شاید کہیں اور نہیں ہوتی۔ این ٹی ایس کے تحت ہونے والے شفاف ٹیسٹ کو پورے ملک میں پڑھے لکھے طبقے کی جانب سے سراہا گیا، اہلیت کے اعتبار سے لسٹیں تیار ہوئیں اور نیٹ پر جاری کردی گئیں۔ پڑھے لکھے طبقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، نئی امیدیں بندھنے لگیں اور یہ خواب پھر سے دیکھا جانے لگا کہ اب قوم کے معماروں کی تربیت اہل افراد کے ہاتھوں سے ہوگی، مگر ہوا وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے میرٹ کے نام پر چند بھرتیاں کرلی گئیں اور ہزاروں اہل امیدواروں سے معذرت کرلی گئی کہ ان کی یوسی میں سیٹیں نہیں ہیں یا صرف اقلیت کی سیٹیں موجود ہیں۔

جن لوگوں کے نام گورنمنٹ جاب حاصل کرنے والوں میں شامل کئے گئے ان کے ناموں کے آگے نمبروں کا اندراج تک نہیں کیا گیا۔ راقم خود اس بات کی گواہ ہے کہ لیاقت آباد سے 79 نمبر حاصل کرنے والی ایک خاتون کو لانڈھی میں جاب عنایت کی گئی اور جب راقم نے حیرت کا اظہار کیا تو وہاں موجود شخص نے نہایت معصومیت سے لاعلمی کا اظہار فرمادیا کہ وہ خود بھی ایسے کئی کیسز پر حیران ہیں۔ خیر ایسے لوگوں کو کیا کہا جائے قصور تو خود ہمارے تعلیمی نظام کا ہے۔

آپ لوگ حیرت کررہے ہوں گے کہ میں اچانک سرکاری نوکریوں کے حوالے سے شکایات کا انبار لے کر کیوں بیٹھ گئیں ہوں، تو بات دراصل یہ ہے کہ میں نے عائشہ منزل یوسی تھری گلبرگ ٹاون سے میں نے جے ایس ٹی میرٹ لسٹ میں 81 نمبر لے کر پہلی پوزیشن حاصل کی تھی، مگر گورنمنٹ جاب سے محروم رہی۔ اسی طرح گلشن ٹاؤن (یوسی 2) سے میری دوست حمیدہ پی ایس ٹی اور جے ایس ٹی میں بالترتیب 82 اور 80 نمبر اور تیسری و چوتھی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد بھی جاب کی اہل امیدوار نہیں تسلیم کی گئیں۔ گلبرگ ٹاون یوسی 6 کی ایک اور دوست نے بھی 75 نمبر لے کر تیسری پوزیشن حاصل کرنے کے باوجود بھی میرٹ پر جاب حاصل کرنے میں ناکام رہیں، جب کہ ان کے یوسی میں سیٹیں بھی چار تھیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ جب پوزیشن ہولڈرز کو نوکری نہیں دی گئی تو آخر وہ کون خوش نصیب لوگ ہیں جو بنا کسی پوزیشن ہی جاب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے؟ کیا پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ میرٹ کو رد کیاجاتا رہے گا؟ اور کہا جاتا رہے گا کہ سب اچھا ہے؟

تعلیم کے لیے سب سے ضروری چیز ہے اہلیت، آج پاکستان کا نظام تعلیم کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ گورنمنٹ اسکول اور پرائیویٹ اسکولز میں تعلیم کا دوہرا معیارصاف دکھائی دیتا ہے۔ گورنمنٹ اسکولز کا تو یہ حال ہے کہ پاکستان کے ایک دور دراز علاقے میں واقع گورنمنٹ اسکول کے پانچویں جماعت کے بچوں کو قائد اعظم کی تصویر دکھا کر ان کے متعلق پوچھا گیا تو بچوں نے جواب دیا؛

’’یہ وہ بابا ہے جو نوٹ پر چھپا ہوتا ہے‘‘

فوٹو؛ فائل

جس ملک کے بچوں کو بابائے قوم کے متعلق تک نہ پتہ ہو ہم ان سے کس بات کی امید رکھ سکتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جن لوگوں نے اپنی تعلیم پر توجہ دی اور تعلیمی سسٹم کی خرابیوں کو دورکیا درحقیقت وہی ترقی کی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔

امریکا کے جاپان پر حملے سے کون ناواقف ہوگا؟ جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی کے بعد جب امریکا نے جاپان پر قبضہ کیا تو جاپان نے امریکا سے درخواست کی کہ اس کے تعلیمی نظام میں دخل اندازی نہ کی جائے اور اس طرح جاپان نے اپنی سب سے قیمتی چیز بچالی۔ آج وہی جاپان نہ صرف 100 فیصد تعلیم یافتہ ہے بلکہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس نے پوری دنیا پر سبقت حاصل کرلی ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے مستقبل کے وہ معمار کہ جن کی تعلیم و تربیت پوری قوم کی ذمے داری ہے ان سے انصاف نہیں کیا جارہا۔ آج پاکستان کو اگر کسی چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو وہ تعلیم ہے مگر صاحب اقتدار لوگوں کو اس بات کی فکر ہی نہیں۔ امیروں کے بچے تو مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں لیکن پریشانی ہوتی ہے تو غریب کے بچے کو کہ آخر وہ کہاں جائیں؟

گورنمنٹ اسکولز میں تعلیم کا کیا حال ہے یہ ہم سبھی جانتے ہیں ماسوائے چند اسکولز، اکثریت کی حالت انتہائی خراب ہے، نہ تعلیم معیار کے مطابق ہے اور نہ سہولیات، ان حالات میں ہر صاحب عقل و دانش پریشان ہے مگر کاش اس پریشانی کا سد باب کیا جاسکے، کیوں کہ اب بھی اگر شعبہ تعلیم کو اہل افراد کے حوالے نہیں کیا گیا تو پھر مستقبل میں سنہرے خوابوں سے دستبرداری اختیار کرنی پڑ جائے گی اور جہاں خواب نہ ہوں وہاں تعبیریں بھی نہیں ملا کرتیں آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گی؛

معصومیت پہ جن کی فدا ہیں ملائکہ
ان ننھے فرشتوں کو اب انصاف چاہیے
کردے انہیں شعور کی دولت سے مالا مال
اب ایسی ہی تعلیم کا انقلاب چاہیے

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔