ڈیوس کا ایجنڈا

اکرام سہگل  جمعرات 29 جنوری 2015

ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کے ایک سرکاری ہینڈ آؤٹ سے تصدیق ہوئی ہے کہ دو ہزار لیڈر جن میں کہ ایک ہزار سربراہان، دنیا کے  سب سے بڑے اور سب سے کامیاب کاروباری اداروں کے سربراہان‘ مختلف حکومتوں کے سربراہان کے علاوہ سول سوسائٹی‘ لیبر یونینز‘ دنیا کے بڑے مذاہب‘ میڈیا کے نامور ارکان شامل ہیں، نے (ڈبلیو ای ایف) کے 2015ء کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی جو کہ ڈیوس میں 21 سے 24 جنوری تک منعقد ہوا۔

اس اجلاس کی تھیم “The new Global Context” تھی یعنی بالفاظ دیگر نیو ورلڈ آرڈر جیسی ایک اور اصطلاح۔ اس اجلاس میں سیاسی‘ اقتصادی‘ سماجی اور ٹیکنالوجیکل تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا واضح رہے کہ اس تنظیم کی بنیاد 25 سال قبل 1989ء میں رکھی گئی تھی۔OXFAM کی حالیہ اسٹڈی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے ایک فیصد امیر ترین لوگوں کے اثاثے دنیا کی باقی کی 99 فیصد آبادی کے مجموعی اثاثوں سے بھی کہیں زیادہ ہیں اور یہ اضافی دولت زیادہ تر شمالی امریکا اور یورپ میں اکٹھی ہوئی ہے۔ جس پر ایک مخصوص گروپ کے افراد کا کنٹرول ہے جو کہ ان 1 فیصد کا 77 فیصد حصہ ہیں۔

دنیا میں فروغ پاتی ہوئی معیشتیں نہایت تیز رفتاری کے ساتھ امیر اور طاقتور لوگوں کو پیدا کر رہی ہیں۔ عالمی معیشت تمام بنی نوع انسانوں میں برابر کی تقسیم کی جانے کے بجائے مخصوص معاشرے اور طبقات کے لیے اس کو مختص کیا جا رہا ہے۔ ڈیوس کانفرنس کے شرکاء پر یہ دباؤ تھا کہ وہ دولت کی مساویانہ تقسیم کے بارے میں غور و فکر کریں۔ امریکا میں 37 ملین بالغ لوگ ہیں جو اوپر والے 1 فیصد لوگوں میں شامل ہیں جن کی اوسط دولت 2.7 ملین ڈالر ہے۔

متوسط طبقے کو ٹیکسوں کے فوائد دینا ان کے بچوں کے  حفظان صحت کے لیے، کالج کی تعلیم کے لیے ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد اخراجات کے لیے تو اس سلسلے میں صدر اوباما نے اپنے سالانہ اسٹیٹ آف دی یونین پیغام میں کانگریس کو تجویز کیا ہے کہ وال اسٹریٹ اور امیر ترین لوگوں کے لیے ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے۔ واضح رہے کہ کانگریس پر ریپبلکن پارٹی کی بالادستی ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر اوباما کی تجویز پر عمل کیا جائے تو امریکا کی بینکنگ کی صنعت کو خسارہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔ اوباما پر تنقید کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اوباما کی تجویز سے اقتصادی نمو کی رفتار سست ہو جائے گی جب کہ امیروں کے پاس اب بھی اتنا سرمایہ ہو گا کہ وہ باقی کے 99 فیصد افراد کے فوائد کو خود ہڑپ کر لیں۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور سابق امریکی سیکریٹری لارنس سمرز کا کہنا ہے کہ صنعتی جمہوریتوں کو قائم رہنے کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ملازمین کی تنخواہوں میں اور ان کے حالات زندگی میں مسلسل بہتری لانے کی کوشش کرتی رہیں۔ اس صورت میں انھیں دنیا کے غریبوں کی کفالت کے اخلاقی نظریات کو بالائے طاق رکھ دینا ہو گا۔ پروفیسر لارنس سمرز نے ڈیوس کی اشرافیہ کو مشورہ دیا ہے کہ  دولت کی مساویانہ تقسیم کے فلسفے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اس بارے میں کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے جس پر اس سال کے دوران غور و خوض کیا جاتا رہے۔

دریں اثناء یونان میں SYRIZA نام کی بائیں بازو کی پارٹی کی کامیابی نے ثابت کیا ہے کہ غریب اور متوسط طبقوں کے عوام میں دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کا بہت شدید احساس ہے جس کا انھوں نے انتخابی فتح کی صورت میں اظہار کیا ہے۔WEF کی کرپشن کے خلاف شراکت کاری کے حوالے سے 21 جنوری کو جو اجلاس ہوا اس میں میرے ذاتی نقطہ نظر کو تسلیم کیا جانا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ WEF کی انسداد بدعنوانی کی کوششیں عالمی انسداد بدعنوانی کے ایجنڈے کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ بنیں چنانچہ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کرپشن کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو باہمی طور پر مربوط کیا جانا ضروری ہے۔

PACI وین گارڈ کے چیئرمین اور فلور کرپشن کے انسداد کے سی ای او ڈیوڈ سیٹن کی یہ بات دہرائے جانے کے قابل ہے کہ ’’یہ کاروبار‘ حکومت اور سول سوسائٹی کے لیڈروں کے لیے بہت مناسب وقت ہے کہ وہ کرپشن کے مقابلے کے لیے کھیل کو بدلنے والے اقدامات کریں اور رشوت کو بالکل روک دیں۔ اسی صورت میں ہم عالمی ایجنڈے کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کر سکتے ہیں۔

اس اجلاس میں سو سے زیادہ بین الاقوامی کمپنیوں کے سربراہوں نے شرکت کی جن میں بیسل انسٹیٹیوٹ‘ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل وغیرہ شامل تھیں۔ سیکریٹری جنرل OECD اینجل گوریا نے قابل فخر کردار ادا کیا۔ PACI کی خواہش ہے کہ وہ قومی اور سماجی سطحوں پر حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرے تا کہ کرپشن پر موثر طور پر قابو پایا جا سکے۔کانفرنس میں میزبانی کرنے والے صدور اور وزرائے اعظم کے علاوہ عمران خان جیسے اہم سیاسی لیڈر بھی شامل تھے اس کے ساتھ ہی ہم نے بعض غیر پاکستانی معروف شخصیات سے بھی درخواست کی کہ وہ پاکستان اور اس خطے کے مسائل کے بارے میں بحث کرنے والے پینل میں شمولیت اختیار کریں۔

وزیراعظم میاں نواز شریف نے پہلے تو ہماری پیشکش کو مسترد کر دیا تھا جس میں ہم نے 24 جنوری 2015ء کے دن انھیں پاکستانی بریک فاسٹ میں شمولیت کی دعوت دی تھی جب کہ طارق فاطمی صاحب نے ہمیں بڑی نرمی سے واضح کیا کہ ساڑھے چھ سے ساڑھے آٹھ بجے صبح کے وقت وزیراعظم کے لیے اس اجلاس میں شرکت ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مسلسل دوسرے سال بھی یہ سفر منسوخ کر دیا۔ پیروٹ کمپنیز کے چیئرمین روز پیروٹ جونیئر اور چیئرمین ایسٹ ویسٹ انسٹیٹیوٹ (EWI) فرانسس میتھیو‘ ایڈیٹر ایٹ لارج گلف نیوز اور پاکستان کے اقوام متحدہ کے سفیر مسٹر ضمیر اکرم ممتاز شخصیات کے اس پینل میں شامل تھیں۔ جس کی کمپیئرنگ میرے بیٹے ظفر سہگل نے کی جو کہ ڈبلیو ای ایف کا نوجوان عالمی لیڈر ہے جس کا کہ وہ مستحق بھی ہے۔

پینل میں بولنے والوں نے بہترین ذہانت کا مظاہرہ کیا، چیئرمین مارٹین ڈوو فارماسیوٹیکلز کے چیئرمین جاوید اخائی‘ مسٹر حسین داؤد اور ذاکر محمود اور عاطف بخاری جیسی بنکاری کے شعبے میں شہرت یافتہ شخصیات بھی شامل تھیں۔بعدازاں اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ غیر پاکستانیوں کے سمجھانے سے وہ سمجھ نہیں آتی جتنی کہ پاکستانیوں کے اس اجلاس میں شمولیت کے نتیجے میں آئی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان سیاسی اقتصادی اور سماجی مشکلات کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کی خامیاں ہیں۔ جس کے نتیجے میں گورننس بھی ناقص ہے۔

جیسا کہ جوزف سٹگلٹز کا کہنا ہے کہ صدر بل کلنٹن کے امریکی انتخاب جیتنے کی وجہ معیشت کے بارے میں ان کے وہ ریمارکس تھے جو انھوں نے 1992ء میں دیے تھے کہ ’’بے وقوف یہ سیاست ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔