’بھولی وڈ‘ کے سپنے

محمد عثمان جامعی  جمعرات 29 جنوری 2015
ہولی وڈ کے بھولے ڈائریکٹر اور کہانی کار کوّے ایک تو ہالی وڈ کے ہنس کی چال چلنے کے چکر میں اپنی چال بھول گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

ہولی وڈ کے بھولے ڈائریکٹر اور کہانی کار کوّے ایک تو ہالی وڈ کے ہنس کی چال چلنے کے چکر میں اپنی چال بھول گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

ڈرنا ضروری ہو نہ ہو، سپنا بہت ضروری ہے۔ آنکھوں کے بنا جیا جاسکتا ہے خوابوں کے بغیر نہیں۔

خواب انہونی کو ہونی کردیتے ہیں، نارسا تک لمحوں میں رسائی، ناممکن کا جھٹ پٹ ممکن ہوجانا ۔۔۔ ساری حسرتیں، تمنائیں، آرزوئیں، خواہشیں سپنوں میں کھوکر ہی حقیقت کا روپ دھارتی ہیں۔

آپ کو اگر پچھلی گلی کی علاقائی ملکۂ حُسن لفٹ نہیں کرارہی تو کوئی بات نہیں، خواب میں وہ آپ کا ہاتھ تھامے بڑی لجاجت سے اظہارِمحبت اور اقرارِ وفا کر رہی ہوگی، ہوسکتا ہے وہ مُنے کو گود میں اٹھائے کہہ رہی ہو،بالکل آپ پر گیا ہے۔ آپ کا خوں خوار باس نیند کی وادی میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر اپنے سلوک کی معافی مانگ رہا ہوگا، آپ کی شکی بیوی آپ کے سپنے میں آکر بڑی فراخ دلی سے آپ کو دوسری شادی کی اجازت دے رہی ہوگی۔ یہ اور بات ہے کہ بیدار ہوتے ہی آپ موبائل فون دیکھتے ہیں تو شکیلہ کا ریپلائی آیا ہوتا ہے،چل دفع دور، فٹے منہ، آنکھ کھلتے ہی فون کی بیل بجتی ہے اور باس کی چنگھاڑتی آواز میں فوری آفس پہنچو کا حکم آپ کو لرزا دیتا ہے اور اپنی کمر پر ہاتھ رکھے آپ کے سر پر کھڑی بیوی کی اس دہاڑ سے خواب ٹوٹتا ہے، یہ سوتے میں کیا دیکھ کر مسکرارہے تھے جی!

اسی طرح کسی سانولی سلونی عام سی شکل کی بھولی کے خواب میں کوئی شہزادہ اسے دلہن بناکر لے جارہا ہے، مگر راستے ہی میں اس کی آنکھ شہزادہ دودھ والے کی زوردار دستک سے کھل گئی۔ بھولی تو خیر سوتے میں اور کسی کوشش کے بغیر خواب دیکھتی ہے، مگر ایک بھولی ووڈ بھی ہے، جو کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہی نہیں باقاعدہ سپنے بُنتی ہے اور دکھاتی بھی ہے۔

آپ نے اگر بھارتی بے بی دیکھی ہو تو میری بات آسانی سے سمجھ سکیں گے۔۔۔۔ ارے نہیں نہیں ۔۔۔ میں اُس بے بی کی بات نہیں کر رہا، وہ تو آپ کا ذاتی مسئلہ ہے، جب دیکھیں، جہاں دیکھیں جیسے دیکھیں ۔۔۔ میں ذکر لے بیٹھا ہوں بھولی وڈ، یعنی بھارتی فلمی صنعت، کی نئی فلم کا۔ بھولی وڈ کا نیا سپنا۔ یہ پوری رات کی نیند جتنا طویل سپنا سکڑ کر اتنا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایک سیکریٹ آپریشن میں سعودی عرب میں مقیم ایک دہشت گرد بلال کو ماردیا جاتا ہے اور وہاں اتفاقاً مل جانے والے مولانا محمد رحمٰن کو بے ہوشی کی حالت میں بھارت لے آیا جاتا ہے۔

مولانا محمد رحمٰن کی شکل میں دراصل جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کو دکھایا گیا ہے۔ بھارتیوں کو حافظ سعید کے اغوا کے لیے سپنے یعنی فلم میں بھی پاکستان آنے کی ہمت نہیں ہوئی، چناں چہ انھیں سعودی عرب ایکسپورٹ کرکے بھارت امپورٹ کیا گیا۔ اس سے پہلے بھولی وڈ ڈی ڈے کا خواب بُن، دیکھ اور دکھا چکا ہے، جس میں بھارتیوں کے دعوے کے مطابق پاکستان میں مقیم داؤدابراہیم کو اغواء کرکے بھارت لے جایا جاتا اور سرحد پار کرتے ہی پارلگادیا جاتاہے۔۰

بھولی وڈ کے یہ بھاری بجٹ سے بُنے جانے والے سپنے دیکھ کر بھارتیوں کے حال پر ہنسی اور ان کی بے بسی پر رونا آتا ہے۔ دراصل بھولی وڈ کے بھولے ڈائریکٹر اور کہانی کار کوّے ایک تو ہالی وڈ کے ہنس کی چال چلنے کے چکر میں اپنی چال بھول گئے ہیں، دوسرے انھیں اپنے افلاس سے نڈھال دیش کو شائننگ انڈیا سے کہیں آگے جاکر امریکا بنانے کا دورہ پڑجاتا ہے، نتیجے میں بے بی اور ڈی ڈے جیسی جنونی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں۔

سو جو بھارتی ’سینا‘ اور ’را‘ نامی قاتل حسینہ کے لیے ممکن نہیں، وہ سپنوں سی فلموں کے ذریعے ممکن بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی سنی دیول کو وردی پہنا کر پاکستانی سرحد پر للکارتا دکھایا جاتا تھا، یوں اپنی اور بھارتی عوام کے دل کی بھڑاس نکال لی جاتی تھی، لیکن نائن الیون کے بعد بھولی وڈ نے دہشت گردی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اور اشنان کرنا شروع کردیے۔ کئی سال سے بھولی وڈ کی ہر دوسری فلم کا موضوع دہشت گردی ہوتا ہے، جس میں دہشت گرد مسلمان ہوتے ہیں اور پاکستان اور آئی ایس آئی اس کا لازمی کردار ہوتے ہیں۔ ان فلموں کے ذریعے بھولی وڈ والے بھارتیوں کو سپنے دکھاکر پیسے بناتے ہیں۔

چلو شری متی بھولی وڈ، خوش رہو اپنے خرچے پر، دیکھو سپنے اور دکھاؤ، مگر دیکھو انھیں سپنا ہی سمجھنا اور اپنی جنتا اور سینا کو بھی سمجھا دو کہ بھیا! یہ کیول سپنے ہیں، انھیں سچ نہ سمجھ لیجو، اور خود کو بے بی کا اکشے کمار یا ڈی ڈے کا ارجن رام پال مت جان لیجو، دیکھ ہاتھ جوڑ کر بنتی کرت ہیں، ایسا نہ کیجو، ورنہ فلم گلے پڑجاوے گی۔

اور بی بی بھولی وڈ! اگر آپ اور آپ کے لوگ یہ بات نہ سمجھیں، تو ہم آپ سے کہیں گے، جیسے فلموں میں منہ اٹھائے آجاتے ہو ویسے کبھی آؤ نہ مارے دیس، منہ کی کھانے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔