کیا آپ اپنے پیشے سے خوش ہیں؟

عدیل خان طاہر خیلی  ہفتہ 31 جنوری 2015

مجھے اگلے دن افغانستان سے واپس آنا تھا، لیکن اس سے پہلے وہ مجھے کابل کے ایک بازار لے گیا۔ وہ ایک سونے کی دکان کے باہر رکا اور اداسی میں گندھی ہوئی خوشی سے بولا کہ میں نے اپنی بیوی کو یہاں سے سونے کی انگوٹھی لیکر بھیجی تھی اور یہ ساری زندگی میں کوئی پہلی سونے کی چیز ہے جو میں نے بیوی کو لے کردی۔

اپنے کیئریئر کا آغاز اُس نے ملک کے سب سے بڑے ڈیم میں کلرک کی نوکری سے کیا۔ اُس دن اُس کی نائٹ شفٹ تھی، نیند آنکھوں سے چھلک رہی تھی، اُس نے گھڑی دیکھی، پانی کا ڈیٹا نکال کر اُس پر سرسری سی نظر ڈالی، فون اٹھایا اور ایک خاص مقدار میں ڈیم سے پانی چھوڑنے کی ہدایت کردی۔ اگلے دن محکمے میں تھرتھری مچ گئی، قومی اخبارات میں شور برپا ہوگیا، قومی اسمبلی میں صوبائیت پر تقریریں ہونے لگیں۔ گزشتہ رات اُس نے لاپرواہی میں مطلوبہ مقدار سے کہیں زیادہ پانی چھوڑ دیا تھا، جس سے ایک صوبے کو فائدہ پہچانے کے الزام لگنے لگے۔

افسران کی مہربانی سے اُس کی نوکری جانے سے تو بچ گئی، لیکن درحقیقت اُس کا سارا کیرئیر ایسی ہی لاپرواہیوں اور حماقتوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہوتا بھی کیوں نہ؟ وہ جس گریڈ میں کلرک بھرتی ہوا تھا، 25 سال کی نوکری کے بعد بھی وہ اُسی گریڈ میں تھا۔ وہ اپنی ملازمت سے خوش نہیں تھا اور اکثر ڈپریشن کا شکار رہتا۔ جب اُس نے اپنی زندگی کی 50 بہاریں گزاردیں تو ایک دن دفتر آکر استعفی دے دیا۔ پھر اُس کے ساتھ کیا ہوا میں یہ آپکو بلاگ کے آخر میں بتاؤں گا۔

اُس کی طرح  دنیا بھر میں 63 فیصد ملازمین اپنی نوکری سے مطمئن نہیں، 24 فیصد اپنے کام سے نفرت کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر تقریباً 90 فیصد نوکری پیشہ لوگ اپنے کام کو یا تو پسند نہیں کرتے یا پھرمتنفرہیں۔ یہ بات 2013ء میں گیلپ کی جانب سے 142 ممالک میں کئے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے۔ گیلپ اس قسم کے سروے 90 کی دہائی سے کررہا ہے اوراب تک دنیا بھر کے 189 ممالک کے ڈھائی کروڑ لوگ اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ گیلپ کے مطابق دنیا بھر میں صرف 13 فیصد ملازمین اپنے کام سے خوش یا مطمئن ہوتے ہیں۔

انسان کی جسمانی ساخت، نفسیاتی رجحان، انسان کی پسند نہ پسند اور کام کرنے کے طریقے پر سیدھا اثر ڈالتے ہیں۔ ماہرین لوگوں کو جسمانی طور پر 5 اور نفسیاتی طور پر 6 گروہوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہر ایک جسمانی یا نفسیاتی گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اپنی پسند نا پسند اور کام کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ اگر آپ کالج، یونیورسٹی میں ایک ایسی ڈگری کا انتخاب کرلیں جو آپکی جسمانی ساخت اور نفسیاتی رجحان سے غیرموافق ہو، یا آپ ایک ایسے کیرئیر میں چلے جائیں جس کے لئے آپ بنے ہی نہیں تو آپ کی زندگی کو ایک ہی لفظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ اردو میں وہ لفظ ہے،’افراتفری‘ اور انگلش میں ’انارکی‘۔

انسان کے اصل کی تلاش بچپن میں ہی والدین اوراسکول کی جانب سے شروع ہونی چاہیے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو انسان کو خود اپنے اصل کی تلاش میں سرگرداں رہنا چاہیے۔ اس موضوع پر ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں، جن کی مدد سے آپ اپنے اصل تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور ایک ایسے کیرئیر میں جاسکتے ہیں جو آپ کو ذہنی اور جسمانی آسودگی فراہم کرے۔ جیسے زندگی کے توانائی سے بھرپور سال گزار لینے کے بعد ایک دن وہ خوابوں کے سفر پر نکلا اور استعفی دیکر گھر چلا گیا۔ ایک انسٹیٹیوٹ میں داخلہ لیا اورکنسٹرکشن کے متعلق کورس کرنے لگا۔

پھر 2008-2007 کے دوران افغانستان چلا گیا، کچھ عرصہ نوکری کی اور فارغ کردیا گیا۔ پاکستان واپس آیا، کوئی نصف درجن نوکریاں کیں، کئی نوکریوں کو خود چھوڑ دیا اور کہیں سے نکال دیا گیا۔ کاروبار کی کوشش کی، کمپنی رجسٹرڈ کروائی اور ناکام ہوگیا۔ 2010 ء کا سال آتے آتے وہ کنگال ہو گیا تھا۔ محکمے سے جو پیسے ملے وہ بھی ختم ہوگئے۔ گزر بسر کے لئے قرض لینے پر مجبور ہوگیا۔ لیکن پھر ایک بار اُس نے افغانستان میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا، اس بار قسمت نے اس کا ساتھ دیا۔ نوکری دو سال تک چلی، مالی حالات بہتر ہوگئے، افغانستان میں کمپنی کا کام ختم ہوا تو واپس آگیا اور آج کل ملک کے اندر تقریبا 70 ارب روپے کے ایک ہاؤسنگ پروجیکٹ میں وہ پروجیکٹ مینیجر ہے۔

جب وہ بھرپور جوان تھا تووہ ایک غیر موافق پیشے میں تھا، تب ایک انجینئر تو دور کی بات ہے معمولی پڑھے لکھے لوگ اُس کے افسران تھے اور جب اس نے ادھیڑ عمر میں اپنے اصل کو پالیا اور موافق پیشہ اختیار کیا تو محض پانچ سات سال میں وہ اُس مقام کو پہنچ گیا کہ اب روزانہ کئی انجنینیر اُس کو نوکری کی درخواستیں بھیجتے ہیں۔ اِس لیے یہاں یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا آپ اپنے پیشے سے خوش ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔