بلدیاتی انتخابات میں ممکنہ دھاندلیاں

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 30 جنوری 2015
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہم بہت سارے بڑے بڑے گھپلوں کو محض حکومت کی نااہلی کا نام دے کر اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں اور ان بدعنوانیوں کے پس منظر میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس قسم کے مسائل حل نہیں ہو پاتے۔ ملک میں سات برس سے بلدیاتی الیکشن نہیں ہوئے۔

کیا یہ محض حکومتوں کی نااہلی ہے یا اس کے پیچھے کسی استحصالی نظام کا ہاتھ ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم اور ضروری ہے کہ یہ مسئلہ بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کا ہی نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی  تاریخ میں آج تک کسی جمہوری حکومت نے کبھی بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت ہی نہیں کی، جمہوریت کے پرستار جمہوریت کو بچانے کے لیے تو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں لیکن جمہوریت کی اساس بلدیاتی نظام سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ بلوچستان ایک انتہائی شورش زدہ صوبہ ہے لیکن اس صوبے میں بلدیاتی الیکشن کرا دیے گئے۔

کیا یہ الیکشن اس لیے ممکن نہیں ہوئے کہ اس صوبے میں ایک مڈل کلاس حکومت برسر اقتدار ہے ۔پچھلے سات برس کے دوران ہماری عدلیہ نے حکومتوں کو بار بار ہدایت کی کہ ہر صوبے میں بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں لیکن نہ مرکزی حکومت نے عدالت عالیہ کی ہدایات کا خیال کیا نہ صوبائی حکومتوں نے عدلیہ کے احکامات کو کوئی اہمیت دی۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں سے انحراف محض بلدیاتی انتخابات سے گریز کا واحد مسئلہ نہیں ہے بلکہ مہنگائی کے حوالے سے دودھ کی قیمتوں کے تعین وغیرہ کے حوالے سے عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد سے گریز کیا گیا۔اب خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

اپریل تک انتخابی شیڈول جاری کر دیا جائے گا اور مئی میں انتخابات کرا دیے جائیں گے پنجاب اور سندھ میں حلقہ بندیوں کے لیے فوکل پرسن مقرر کیے جا چکے ہیں اگر ’’مزید کوئی رکاوٹ‘‘ پیدا نہ ہوئی تو مئی ہی میں سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کرا دیے جائیں گے۔ ملک کے ان دو بڑے صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کا فیصلہ حتمی نہیں بلکہ مزید رکاوٹیں نہ پیدا ہونے سے مشروط ہے اور برسوں سے بلدیاتی انتخابات کا التوا ’’رکاوٹوں‘‘ ہی کی وجہ سے ہوتا رہا ہے۔

اس پس منظر میں یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ وہ ’’رکاوٹیں‘‘ ہیں کیا؟کیا حلقہ بندیاں، مردم شماری، بیلٹ پیپر کی چھپائی وغیرہ ہی وہ رکاوٹیں ہیں جن کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات ملتوی ہوتے آ رہے ہیں یا یہ رکاوٹیں صرف بہانہ ہیں اور اصل وجہ کچھ اور ہے؟ اس سوال کا جواب مشکل اس لیے نہیں ہے کہ یہ ایک اوپن سیکریٹ ہے کہ حکمران طبقات اپنے مالی اور انتظامی اختیارات سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں اور بلدیاتی نظام سے صوبائی حکومتوں کے مالی اور انتظامی اختیارات چھن جاتے ہیں اور یہ اختیارات نچلی سطح پر ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں جنھیں ہماری  جمہوریت نے ہمیشہ غلام بنائے رکھا ہے۔

کیا کوئی آقا اپنے اختیارات اپنے غلاموں کے حوالے کرنے پر تیار ہو گا؟ اسی ایک سوال کے جواب میں بلدیاتی نظام اور اشرافیہ کا بلدیاتی نظام سے فرار کے مضمرات موجود ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی تک جاگیردارانہ نظام موجود ہی نہیں ہے بلکہ قانون ساز اداروں پر اس طبقے کی گرفت بہت مضبوط ہے جو طبقہ انھیں اختیارات کی وجہ سے بڑی بڑی کرپشن کا ارتکاب کرتا ہے بھلا وہ اپنے مالی اور انتظامی اختیارات سے کیسے دست بردار ہو سکتا ہے۔ بلدیاتی نظام کے حوالے سے جو اربوں روپوں کا فنڈ صوبائی حکومتوں کو ملتا ہے وہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کے حوالے کر دیا جاتا ہے اگر یہ فنڈ ختم ہو جائے تو پھر ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کس طرح قابو میں رکھا جائے گا؟

ان حقائق سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا کہ ہماری برسر اقتدار اشرافیہ جس کا حلق جمہوریت کی تعریف کرتے سوکھ جاتا ہے، جمہوریت سے کس قدر مخلص ہے اور بلدیاتی نظام کو اپنے طبقاتی مفادات کے لیے کس قدر بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔ ہمارے جمہوری سیاستدان قدم قدم پر قانون اور انصاف کی برتری کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں اور قومی بقا اور ترقی کے لیے قانون اور انصاف کی برتری کو ناگزیر قرار دیتے ہیں اور عملاً قانون اور انصاف کی برتری کا عالم یہ ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں کو ڈیری مافیا ہوا میں اڑا دیتی ہے اور صوبائی حکومتیں مختلف بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے عدلیہ کے فیصلوں کو اہمیت دینے کے لیے تیار نظر نہیں آتیں۔ سوئس کیس کے مسئلے پر عدالت عالیہ کے فیصلوں کی جس طرح خلاف ورزی کی گئی اس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔

ہر جمہوری ملک میں عدلیہ کے فیصلوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے لیکن پاکستانی جمہوریت میں عدلیہ کے فیصلوں کی خلاف ورزی ایک عام بات ہو گئی ہے۔ کیا یہ اتنی چھوٹی بات ہے جس کا نوٹس نہ لیا جائے یا یہ روایت ملک و ملت اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے جس کا سدباب ہونا ضروری ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ وکلا نے اپنی تاریخی تحریک کے ذریعے عدلیہ کو آزاد کرایا۔

کیا ہماری حکومتوں کا رویہ آزاد عدلیہ کا مظہر ہے؟ ہماری  عدلیہ توہین عدالت کے حوالے سے بڑی حساس ہے کیا عدلیہ کے اہم فیصلوں پر عملدرآمد سے حکومتوں کی بہانے بازیاں توہین عدالت نہیں؟ اگر ہیں تو پھر عدالتی فیصلوں سے گریزاں حکومتوں کے خلاف توہین عدالت کے قانون کو حرکت میں نہیں آنا چاہیے؟ اس سوال کا جواب حکومت سے اس لیے متوقع نہیں کیونکہ ان حوالوں سے حکومت ایک پارٹی بن گئی ہے البتہ وکلا برادری اور سول سوسائٹی کو اس کا نوٹس لینا چاہیے کہ عدلیہ کے فیصلوں اور احکامات پر عملدرآمد سے گریز کیوں کیا جاتا ہے۔ کیا اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے آئین میں کوئی شق موجود نہیں؟ کیا کوئی ایسی طاقت موجود نہیں جو عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد کرا سکے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہو رہا ہے کہ قومی مفاد کے اہم مسئلوں پر عدلیہ کے حکم کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

ہم نے اس بات کی نشان دہی کر دی ہے کہ ہماری زمینی اشرافیہ قانون ساز اداروں پر جمہوریت کے نام پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے اور دوسرے مسائل کی طرح بلدیاتی نظام بھی اس کے طبقاتی مفادات کے خلاف ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ صنعتی اشرافیہ کو زمینی اشرافیہ کے مقابلے میں ترقی پسند کہا جاتا ہے لیکن اس کرپٹ جمہوریت نے صنعتی اشرافیہ کو بھی زمینی اشرافیہ کا پارٹنر بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ہماری جمہوریت اس قدر بے لگام ہو گئی ہے کہ ہر محترم ادارے کے فیصلوں کو مختلف بہانوں سے پس پشت ڈال دیتی ہے۔اس پس منظر میں اگر بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں تو ان انتخابات کو دھاندلی کے ذریعے اپنے حق میں کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔

اگر دھاندلی کے ذریعے بلدیاتی انتخابات پر قبضہ کر لیا گیا تو ایسے بلدیاتی انتخابات اور بلدیاتی نظام کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ یہ سوال اس لیے بامعنی ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کا مسئلہ اب تک حل نہیں ہو سکا؟ اگر بلدیاتی انتخابات میڈیا کی خبروں کے مطابق مئی 2015ء میں ہونے جا رہے ہیں تو انھیں دھاندلیوں سے پاک بنانا نہایت ضروری ہے ورنہ یہ انتخابات بھی 2013ء کے انتخابات کی طرح متنازعہ ہو جائیں گے اور عوام کو بلدیاتی نظام سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔