گھر میں پلے ہیں شیر، مگرمچھ، سانپ اور اژدہے

سید بابر علی  اتوار 1 فروری 2015
درندے، خطرناک اور غیرروایتی جانور پالنے کا دل چسپ شوق۔ فوٹو: فائل

درندے، خطرناک اور غیرروایتی جانور پالنے کا دل چسپ شوق۔ فوٹو: فائل

لاہور: ہم اکثر و ریئلٹی شوز یا دستاویزی فلموں میں اس قسم کے مناظر دیکھتے رہتے ہیں کہ جنگل کا بادشاہ شیر ایک پالتو بلی طرح مالک کے قدموں میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہا ہے یا فٹ بال کھیل رہا ہے۔

ایک بڑے نے اژدہے نے پیار کا اظہار کرنے کے لیے کسی نوجوان کی بانہوں میں کنڈلی ماری ہوئی ہے، کسی نوجوان نے درندگی کے لیے مشہور مگرمچھ کے بچے کو ہاتھوں میں تھام رکھا ہے یا کوئی نوجوان سانپ کا بوسہ لے رہا ہے۔ لیکن اب پاکستان میں یہ شوق ٹی وی اسکرین کی حد تک ہی محدود نہیں رہا۔ جنگلی حیات سے پیار کرنے والے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے گھر والوں کی مخالفت اور وسائل نہ ہونے کے باوجود شیر، اژدہے، مگرمچھ اور سانپ جیسے خطرناک جانوروں اور پالنے کے حوالے سے غیرروایتی جانوروں کو بڑی تعداد میں گھروں میں پالا ہوا ہے۔

حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ خطرناک اور منہگا شوق ک پالنے والے نوجوان نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ وہ جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے ہر ممکنہ سطح پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آئیے یہ دل چسپ فیچر پڑھیے اور ان افراد سے ملیے جنھوں نے گھروں میں جنگل بسایا ہوا ہے۔

٭ثقلین جاوید خان

ثقلین جاوید خان جنگلی جانوروں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں افریقی نسل کے شیر کے دو بچے بھی پال رکھے ہیں، جن کی عمریں تقریباً دس ماہ ہیں۔ اپنے اس انوکھے مگر خطرناک شوق کے بارے میں ثقلین کا کہنا ہے: جانوروں سے محبت کا عنصر تو بچپن ہی سے موجود تھا کیوں کہ دادا نے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سے چڑیا گھر بنایا ہوا تھا۔ جس میں شیر، پوما (امریکی تیندوا) ، مور اور دیگر جنگلی جانور رکھے ہوئے تھے۔ شیر مجھے بچپن ہی سے بہت پسند تھا اور اسی شوق کے ہاتھوں میں نے شیر پالنا شروع کیا۔

2007 میں پانچ لاکھ روپے میں سمبا نام کا ایک شیر خریدا۔ یہ وہی شیر تھا جس نے طارق روڈ پر انتظامیہ کی دوڑیں لگوادی تھیں۔ اس واقعے کی بابت ثقلین کا کہنا ہے،’ایک سال کا سمبا گھر میں کُھلا رہتا تھا۔ ایک دن غلطی سے گھر کا دروازہ کھُلا رہ گیا اور سمبا گھر سے نکل کر سامنے موجود ایک شوروم میں گھُس گیا۔ اس واقعے میں سمبا یا کسی انسان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ بعد میں ایک صوبائی وزیر نے اُسے خرید کر فیڈرل بی ایریا کے ایک پارک میں بننے والے منی زو میں بھیج دیا تھا۔‘‘

ثقلین کے پاس اس وقت موجود شیر جو ان کے اطراف بلی کی طرح دُم ہلا تے ہوئے گھومتے رہتے ہیں۔ شیر کے یہ بچے ثقلین کے بچوں کے ساتھ بھی اسی طرح کھیلتے ہیں جس طرح پالتو بلیوں کے بچے بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اپنی خونخواری کی بدولت جنگل کا بادشاہ کہلانے والے شیر کو گھر میں پالتو جانور بنا کر رکھنے والے ثقلین کا کہنا ہے کہ یہ کافی منہگا شوق ہے، کیوں کہ شیر کے ایک بچے کی قیمت تقریباً 8لاکھ روپے ہے اور اس کو گھر میں رکھنے کے لیے پرمٹ بھی ضروری ہے، جو محکمۂ جنگلی حیات کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے، جس کی سالانہ فیس دس ہزار روپے ہے۔

شیر کے کھانے پینے کے اخراجات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ ایک بالغ شیر روزانہ تقریباً پانچ ہزار روپے کا گوشت کھاتا ہے، جب کہ یہ دونوں بچے دن میں تقریباً چار سے پانچ کلو بچھیا کا گوشت کھاتے ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ ان کی خوراک بھی بڑھتی جارہی ہے۔ ثقلین جاوید نے بتایا کہ شیر کے بچوں کی پہلی ویکسی نیشن ڈھائی ماہ، دوسری چھے ماہ اور تیسری ڈیڑھ سال کی عمر میں ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ ویکسی نیشن کا دورانیہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔

شیر جیسے خطرناک جانور کو پالتو بنا کر گھر میں رکھنے پر گھر والوں کے اعتراضات کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں گھر والوں کی طرف سے تو کسی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیوں کہ گھر میں تقریباً سب لوگ ہی جنگلی جانوروں سے مانوس ہیں۔ شروع شروع میں محلے والوں کو کچھ اعتراضات تھے جو اب نہیں ہیں اور اب شیر کے بچے گلی میں آزادی سے گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شیر کو پالتو جانور کی حیثیت سے پالنے والے کچھ لوگ اُس کے دانت گھسوا دیتے ہیں، جو جنگل کے بادشاہ کے ساتھ زیادتی ہے، کیوں کہ شیر کی خوب صورتی اُس کے نوکیلے اور تیز دانتوں ہی میں ہے۔

دانت گھسوانے سے نہ صرف ان کا حُسن بلکہ قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔ زیادہ تر لوگ صرف شیر کے ناخن نکلوا دیتے ہیں، کیوں کہ اس کے پنجے کی گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے اور وہ حملہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنا پنجہ ہی استعمال کرتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ شیر ہو یا بکری کسی بھی جانور کو خود سے مانوس کرنے کے لیے وقت دینا پڑتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں کاروباری مصروفیات کے با وجود دن میں دو تین گھنٹے ان کے ساتھ گزارتا ہوں۔ اس دوران میرے چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں۔ جنگل کے بادشاہ سے بے انتہا محبت کرنے والے ثقلین کے لیے یہ شیر گھر کے ایک فرد کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔

ثقلین ان کے باقاعدہ چیک اپ اور ویکسی نیشن کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ انہوں شیر کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دو مستقل ملازم بھی رکھے ہوئے ہیں، جو انہیں وقت پر کھلانے پلانے، پنجرے کی صفائی اور باہر ٹہلانے کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ پالتو جانوروں کے پنجروں کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے جس سے اُن میں بیماریاں پھیلتی ہیں۔ ہم ان کے پنجرے کی روزانہ باقاعدگی سے صفائی کرتے ہیں۔

پنجرے کی صفائی کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ پنجرے کی صفائی کرتے وقت دو سے تین افراد کی موجودگی ضروری ہے۔ پہلے ہم شیروں کو پنجرے کے اندر ہی موجود نسبتاً چھوٹے پنجرے میں بھیجتے ہیں، پھر ایک فرد اندر جاکر پنجرے کی صفائی کرتا ہے۔ پنجرے کی صفائی روزانہ کی جاتی ہے۔ ثقلین کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے وہ مور اور پوما (امریکی تیندوا)بھی رکھ چکے ہیں۔ تاہم اب ان کی توجہ کا مرکز جنگل کے بادشاہ شیر اور اُس کے ازلی شکار ہرن پر ہے۔

انہوں نے اپنے گھر میں ہرن بھی پال رکھے ہیں جو پنجرے میں قید خاموشی سے لوسن کھانے میں مصروف نظر آئے۔ خوب صورتی کی وجہ سے ضرب المثل بننے والی ہرن کی حسین آنکھوں میں قید کی اداسی کا عکس نمایاں نظر آیا۔ ہرن کی قیمت کے بارے میں ثقلین نے بتایا کہ ہرن کا بچہ 30ہزار اور بڑا ہرن 60 ہزار روپے تک میں ملتا ہے اور اس کی کھلائی پلائی کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

٭حسن حُسین اور حمزہ حسین

طارق روڈ کے رہائشی حسن حسین اور اُن کے بھائی حمزہ حسین کو بھی بچپن ہی سے ریپٹائل (رینگنے والے جانور) پالنے کا شوق ہے۔ حسن کا کہنا ہے کہ ہم نے میٹرک میں تحفے میں ملنے والے سونی پلے اسٹیشن کو فروخت کرکے مگرمچھ کا بچہ خریدا تھا جو ہمارا پہلا ریپٹائل تھا۔ اس حرکت پر گھر والوں نے بہت ڈانٹ ڈپٹ بھی کی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میرا یہ شوق بڑھتا گیا۔ اس کے بعد میں نے ایک کلاسیفائیڈ ویب سائٹ کے ذریعے ’رشین سینڈ‘ نسل کا سانپ خریدا جو زہریلا نہیں ہوتا۔

اس تمام عرصے میں مجھے گھر والوں کی شدید مخالفت کا سامنا بھی رہا، لیکن اب گھر والوں نے بھی میرے پالتو اژدہوں کے لیے گھر کی چھت پر ایک کمرہ مخصوص کردیا ہے۔ تاہم مجھے انہیں اژدہوں کو گھر کے اندر لانے کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ حسن کا کہنا ہے کہ اس شوق کی وجہ سے مجھے بہت سے لوگوں نے دھوکا بھی دیا۔ ایک لڑکے نے مجھے غیر زہریلا بتا کر انتہائی زہریلا ’وائپر‘ سانپ منہگے داموں فروخت کردیا تھا۔ اسی طرح جب میں نے پہلی بار اژدہے درآمد کیے تو ایک صاحب کی غفلت کی وجہ سے میرے لاکھوں روپے کے اژدھے کسٹم والوں نے پکڑ کر چڑیا گھر کے حوالے کردیے جن میں سے زیادہ تر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مرچکے ہیں۔

اس کے بعد میں نے خود امریکا جا کر باب کلیر(Bob Clare)  (جنگلی حیات کے مشہور امریکی ماہر، اژدہوں کے حوالے سے گینیز ورلڈ ریکارڈ ہولڈر) سے ملاقات کی اور ان سے اژدہے خرید کر پاکستان درآمد کیے۔ حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریپٹائل کو گھریلو جانوروں کے طور پر پالنے کا رجحان بہت کم ہے، اور اگر کوئی شوق کی بنا پر انہیں پالنا چاہے تو کچھ نوسر باز اُن کی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی سستے اور زہریلے سانپ ہزاروں، لاکھوں روپے میں فروخت کردیتے ہیں، شروع میں میرے ساتھ بھی اس طرح کی کچھ دھوکے بازیاں ہوچکی ہیں۔

حسن کے بھائی حمزہ حسین نے بتایا کہ ہم نے چند ماہ قبل ہی امریکی ریاست اوکلوہاما سے 16مختلف نسلوں کے اژدہے درآمد کروائے ہیں، جن میں جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا اژدہا بھی شامل ہے۔ چار سال کے اس اژدہے کا تعلق ہیٹ البینو ریٹی کیولیٹڈ (Het albino reticulated ) نسل سے ہے، جس کی لمبائی 20فٹ ہے۔ اس کا نام انہوں نے ٹائنی رکھا ہے۔ اس طرح پاکستان کا پہلا، دوسرا، چوتھا اور پانچواں بڑا اژدہا بھی ہمارے پاس ہی ہے، جن کی لمبائی 20 سے 13فٹ کے درمیان ہے۔

حسین کے پاس ہیٹ البینو ریٹی کیولیٹڈ، ٹائپ ٹو البینو سپر ٹائیگر ریٹی کیولیٹڈ، پرپل موٹلے ریٹی کیولیٹڈ، البینو برمیز، بال، فائر البینو ریٹک اور انڈین روک نسل کے اژدہے موجود ہیں، جن میں تین ماہ کے بچے بھی شامل ہیں۔ ان کی غذا کے حوالے سے حسن نے بتایا کہ ایک بڑے اژدہے کے لیے ہفتے میں ایک بڑا خرگوش یا مرغی کافی ہوتی ہے۔ یہ اپنی غذا (مرغی، خرگوش، چوہے) کو جکڑ کر سانس روک دیتا ہے اور پھر اسے چبائے بغیر ثابت نگل جاتا ہے۔

سفید چوہے اژدہے کی مرغوب غذا ہیں، ہم انہیں یہ بھی کھلاتے رہتے ہیں۔ کسی ناخوش گوار واقعے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں حسن نے اپنا بازو آگے کردیا، جس پر کسی چاقو سے لگے زخم کی طرح کے نشانات واضح نظر آرہے تھے۔ اس زخم کی بابت حسن نے بتایا کہ یہ میری اپنی غلطی کی وجہ سے لگا ہے۔ ’ٹائنی‘ کو کھانا کھلاتے وقت تھوڑی سی بے پرواہی ہوگئی تھی، جس پر اس نے مشتعل ہوکر میرے بازو پر اپنے دانت گاڑ دیے تھے۔ تاہم اس کے علاوہ کبھی کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

حمزہ حسین کا کہنا ہے کہ ہم نے اس کام کو شوق کی حد تک ہی رکھا اور مستقبل میں بھی شوق کو کاروبار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص گھر میں پالنے کی غرض سے اژدہا خریدنے کا خواہش مند ہو تو ہم قیمت سے زیادہ اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ آیا وہ اس کی اچھی طرح دیکھ بھال کر بھی سکے گا یا نہیں، سو فیصد مطمئن ہونے کے بعد ہی اژدہا یا اس کا بچہ کسی کے حوالے کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم اژدہوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کا شعور اُجاگر کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں بلامعاوضہ ورکشاپ کرتے ہیں۔ کچھ نجی ٹی وی چینلز اپنے مارننگ شوز میں اژدہے لے جانے کے لیے بھی ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لائسنس اور این او سی جاری کرنے سے قبل محکمۂ جنگلی حیات کے افسران نے ہمارے گھر کا معائنہ کیا۔ مطمئن ہونے کے بعد انہوں نے ہمیں لائسنس امپورٹ کے لیے اجازت نامہ ( پرمٹ) جاری کیا، جس کی فیس 400روپے فی اژدہا ہے۔ اژدہوں کی افزائش نسل کے حوالے سے حسن کا کہنا ہے کہ ملاپ کے تین چار ماہ بعد مادہ انڈے دیتی ہے، جن کی تعداد سو تک بھی ہوسکتی ہے۔ انڈوں سے بچے نکلنے میں دو ماہ کا عرصہ لگتا ہے۔ جب مادہ کھانا کم کر دے اور اس کی کھال اترنے لگے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ وہ حاملہ ہے اور پھر الٹراساؤنڈ کے بعد اس کی تصدیق کر لیتے ہیں۔

اس وقت مادہ کافی چڑچڑی ہوجاتی ہے، لہذا ہم اسے ہاتھ میں پکڑنے میں کافی احتیاط کرتے ہیں۔ جنگلی جانور پالنے والے دیگر افراد کی طرح دونوں بھائیوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر جنگلی جانوروں اور ریپٹائل کے حقوق اور ان کے بارے میں شعور اُجاگر کرنے کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔

٭جنید رفیق اور عبدالصمد

اژدہے، مگرمچھ اور سانپ جیسے ریپٹائل کو پالتو جانور کے طور پر پالنے والے ان دوستوں کی عمر تو گو کہ اتنی زیادہ نہیں لیکن ان کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ جسم کے مختلف حصوں پر سانپ اور مگرمچھ کے کاٹنے کے نشانات لیے جنید عرف جمی کو دیکھ کر پہلی نظر میں تو یہ بات مبالغہ لگتی ہے کہ اتنا دھان پان سا نوجوان آٹھ، نو فٹ لمبے اژدہوں کی دیکھ بھال کرتا ہوگا۔ غیرملکی ٹی وی چینلز پر جانوروں پر بننے والی دستاویزی فلموں کو دیکھ جنید کو 16سال کی عمر میں ہی ریپٹائل سے ایک طرح کا عشق ہوگیا تھا۔ میٹرک میں انہوں نے پہلا سانپ خریدا، جس پر گھر والوں سے مار بھی کھانی پڑی۔

اس حوالے سے جنید کا کہنا ہے کہ میں اپنے والدین کا اکلوتا لڑکا ہوں اور اسی وجہ سے گھر والے میرے اس شوق کے سخت مخالف ہیں، لیکن اُن کی تمام تر مخالفت کے باوجود میں خود کو ِان (اژدہے، سانپ، مگر مچھ) سے دور نہیں کر پاتا۔ اپنے اس شوق کو برقرار رکھنے کے لیے مجھے سخت محنت کرنا پڑتی ہے، میں تعلیم کے معاملے میں والدین کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیتا۔ اس نے اپنا ہاتھ دکھایا جس پر تقریباً پانچ چھے انچ کے دو لمبے نشانات بنے ہوئے تھے۔ یہ نشانات ایک پالتو مگرمچھ سے محبت کی یادگار ہیں، جس نے اپنی فطری حیوانی جبلت سے مجبور ہوکر اپنے ہی رکھوالے کے ہاتھ کا گوشت ادھیڑ دیا تھا۔

جنید کے ہاتھوں پر کچھ اور زخموں کے نشانات بھی موجود ہیں، جو ان کے پالتو ’ریٹ اسنیک‘ کے کاٹنے سے لگے ہیں۔ جنید کا کہنا ہے کہ ریٹ اسنیک ایک خوب صورت اور غیرزہریلا سانپ ہے، لیکن یہ کاٹنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتا۔ اس کے کاٹنے سے بلیڈ کی طرح کٹ لگنے جیسی تکلیف ہوتی ہے۔ جنید اور عبدالصمد کے پاس اس وقت مگرمچھ کا بچہ، دو ریٹ اسنیک اور چار اژدہے موجود ہیں۔ جامعہ کراچی میں سوشیالوجی کے طالب علم جنید نے بتایا کہ پاکستان میں جنگلی حیات خصوصاً ریپٹائلز پر بالکل بھی کام نہیں ہورہا۔ ان کا مستقبل میں سانپ اور اژدہوں پر تحقیقی کام کرنے کا ارادہ ہے۔

اس شوق میں وہ حسن حسین (جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے) کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں اور اژدہوں سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات کے لیے وہ حسن ہی سے رابطہ کرتے ہیں۔ لوگوں کو اژدہوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے بیس سالہ جنید رفیق نے کراچی چڑیا گھر کو ساڑھے آٹھ فٹ کے دو اژدہے بھی تحفتاً دیے، جس کے اعتراف میں کراچی چڑیا گھر کے ریپٹائل ہاؤس میں ان کے نام کا تہنیتی بورڈ بھی لگایا گیا ہے۔ اس انوکھے شوق میں جنید کا ہر قدم پر ساتھ دینے والے عبدالصمد بھی ریپٹائل سے محبت کرتے ہیں، اور اس شوق کی نشانی ان کے گھٹنے پر موجود مگرمچھ کے کاٹنے کا نشان ہے۔

عبدالصمد کا کہنا ہے کہ میں نے غلطی سے مگرمچھ کی دم پکڑ لی تھی، جس پر اس نے پلٹ کر مجھے کاٹ لیا۔ عبدالصمد کے گھر والے بھی کچھ عرصے قبل تک اُن کے اس شوق کے مخالف تھے، لیکن ایک بار اُن کی والدہ کو کسی سانپ نے کاٹ لیا اور انہوں نے دستاویزی فلموں میں بتائی گئی ہدایت کے مطابق اپنی والدہ کو فوری طبی امداد دی۔ اس واقعے کے بعد عبدالصمد کو ریپٹائل گھر میں رکھنے کی اجازت مل گئی ہے۔ لیکن اس ’’اجازت‘‘ کی حدود گھر کی چھت پر بنے کمرے تک ہے۔ یہ دونوں نوجوان اس وقت جنگلی جانوروں (چلنے اور رینگنے والے) کے تحفظ کے لیے ایک این جی او بنانے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے جنید کا کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں وائلڈلائف کے ایک پروگرام میں ہمیں بلایا گیا، وہیں میں نے این جی او بنانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ وہاں موجود محکمۂ جنگلی حیات کے افسران نے میری حوصلہ افزائی کی اور این جی او کے قیام کے لیے ہرممکن مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ اگلے ماہ اُن سے ایک ملاقات بھی طے ہے، جس میں این جی او کے قیام کے لائحہ عمل کو عملی شکل دی جائے گی۔ ان ریپٹائلز کی خوراک کے بارے میں جنید کا کہنا ہے کہ ہم انہیں مرغی، خرگوش اور سفید چوہے کھلاتے ہیں، ان کے کھانے پینے کا تما م خرچہ ہم اپنے جیب خرچ سے کرتے ہیں۔

٭جاوید احمد مہر (چیف کنزرویٹر محکمۂ جنگلی حیات سندھ)

گھروں میں خطرناک جانوروں کو پالنے کے حوالے سے محکمۂ جنگلی حیات سندھ کے چیف چیف کنزرویٹر جاوید مہر کا کہنا ہے کہ جنگلی جانوروں (شیر، اژدہے، مگرمچھ، سانپ) کو گھر میں رکھنے کے لیے وائلڈلائف کا لائسنس /پرمٹ لینا لازمی ہے۔ اگر ان کے بغیر کسی نے غیرقانونی طور پر سانپ، اژدہے، مگرمچھ، شیر یا اس طرح کے خطرناک جانور پال رکھے ہوں تو ہمارا محکمہ اطلاع ملنے پر فوراً کارروائی کر کے انہیں ضبط کرلیتا ہے۔ ضبط کیے جانے والا جانور اگر جنگلی ہے تو اسے جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے یا پھر چڑیا گھر کے حوالے کردیا جاتا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے قبل ہم نے غیرقانونی طور پر امپورٹ کیے جانے والے 38 سانپ پکڑے تھے، جنہیں میڈیا کے نمائندوں کی موجودگی میں جنگل میں آزاد کردیا گیا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی جانور یا ریپٹائل (اژدہے، سانپ وغیرہ) باہر سے درآمد کروا رہا ہے تو اس کے لیے قانون الگ ہے اور اس طرح کے مقامی جانوروں کے لیے قانون الگ ہے۔ باہر سے آنے والے تمام جانور وہاں کی حکومت کے تمام قانونی تقاضے پورے کرکے آتے ہیں، تاہم انہیں پاکستان میں درآمد کرنے سے قبل ایک این او سی لینا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ لاعلمی میں یا جان بوجھ کر این او سی حاصل کیے بنا یہ جانور منگوالیتے ہیں، جو ہوائی اڈے اور بندرگاہ پر پکڑے جاتے ہیں۔

ہمارا محکمہ جانوروں کی سفری دستاویزات اور طبی رپورٹس کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد مالک پر معمولی جرمانہ عاید کرکے جانور اس کے حوالے کردیتا ہے۔ جنگلی جانوروں اور ریپٹائلز کے پرمٹ اور لائسنس کے حصول میں ہونے والی درپیش مشکلات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے،’میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے محکمے میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے، کچھ لوگ یقیناً اپنے مفادات کو بھی مدِنظر رکھتے ہیں۔ تاہم ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اگر کوئی اپنے شوق یا کاروبار کے لیے لائسنس لینا چا رہا ہے تو وہ اُسے جلدازجلد فراہم کردیا جائے۔‘

لائسنس حاصل کرنے کے طریقۂ کار کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ کسی بھی لائسنس کو جاری کرنے سے پہلے ہم اُس جگہ کا معائنہ کرتے ہیں جہاں اس جانور یا ریپٹائل کو رکھا جائے گا۔ معائنے میں اُس جانور کی ممکنہ رہائش کے محل وقوع، ہوا کی آمدورفت اور اس نوعیت کی اہم باتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ جانور کی رہائش اور اُس کے کھانے پینے کے حوالے سے مطمئن ہونے کے بعد محکمۂ جنگلی حیات کی جانب سے لائسنس جاری کردیا جاتا ہے، جس کی فیس دس ہزار روپے سالانہ ہے۔ تاہم خریدوفروخت کرنے کے لیے ٹریڈ لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔

نایاب نسل کے کُتے جو پاکستان میں کسی اور کے پاس نہیں

جنگلی جانوروں کے حوالے سے مرتب کی جانے والے اس فیچر کی تیاری میں ہمارا رابطہ شان نام کے ایک نوجوان سے بھی ہوا جن کا شوق نایاب نسل کے کتے پالنا ہے۔ شان کے پاس کتوں کی کچھ ایسی بریڈ (نسلیں) ہیں، جو پاکستان میں کسی اور کے پاس نہیں ہیں۔ اس حوالے سے شان کا کہنا ہے کہ میرے پاس سائبیرین ہسکی (الاسکا اور سائبیریا جیسے برفانی علاقوں میں سلیج کھینچنے والے کتے)، کو کو شین شیفرڈ، اطالوی پیسا کونر کیم کوسو، برطانوی انگلش بُل ٹینیئر اورآئرش ڈوگو جینٹینو جیسی اعلیٰ نسل کے کتے موجود ہیں جو پاکستان میں کسی اور کے پاس موجود نہیں ہیں۔ ان کے پاس ایک بہت کم پایا جانے والا سائیبرین ہسکی بھی ہے جس کی ایک آنکھ کے ڈھیلے کا رنگ سیاہ اور دوسری کا ڈھیلا سفید ہے۔

اس شوق کے بارے میں شان نے بتایا کہ مجھے بچپن ہی سے کتے پالنے کا شوق تھا اور ساتویں کلاس میں مجھے ایک دکان دار نے آوارہ کتے کو جرمن شیفرڈ بناکر بیچ دیا تھا۔ اسی بات نے مجھے کتوں کی نسلوں کے بارے میں تحقیق پر مجبور کیا اور اب میں کتے کو دیکھ کر اُس کی نسل کے بارے میں بتا سکتا ہوں۔

اس شوق کی خاطر انہیں اپنے گھر والوں کی شدید مخالفت کا سامنا بھی رہا اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے کتوں کو گھر سے دور ایک فارم پر رکھا ہوا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ صرف میرا شوق ہے کاروبار نہیں، لیکن اگر کوئی اصرار کرے تو پھر میں اپنی تسلی کے بعد کتے کو فروخت کرتا ہوں۔ وہ جرمنی، امریکا، سربیا، روس اور تھائی لینڈ سے بھی کتے درآمد کرتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پستہ قامت نسل سے تعلق رکھنے والے پِگ ڈوگ جسے عرف عام میں ’ٹوائے ڈوگ ‘کہتے ہیں منگوایا ہے۔ اس کتے کی خاص بات یہ ہے کہ اس نسل کے کتے کا قد زیادہ سے زیادہ عام بلی جتنا ہوسکتا ہے۔

زیادہ تر مشہور شخصیات اس نسل کا کتا پالنے اور ساتھ لے کر چلنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ کتوں کی ویکسی نیشن کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ پہلی ویکسین سات ہفتے، دوسری ایک ماہ اور تیسری دوسرے ماہ دی جاتی اور ہر ایک سال بعد یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ شان کی کتوں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے سڑک پر کار کی ٹکر سے زخمی ہونے والے ایک آوارہ کتے کو اپنے فارم پر رکھا ہوا ہے۔ لکی نام کے اس کتے کا نچلا ڈھر بالکل مفلوج ہوچکا ہے لیکن یہاں اُس کا بھرپور طریقے سے خیال رکھا جاتا ہے۔

آرمی ٹریننگ سینٹر سے کتوں کی تربیت سیکھنے والے عمران ولیم کا کہنا ہے کہ ہم ان کتوں کو دودھ، روٹی، چاول اور بار سے منگوائی جانے والی خصوصی خوراک دیتے ہیں، انہیں روزانہ ٹہلانے لے جاتے ہیں۔ شان کے فارم پر موجود سب سے خطرناک دکھائی دینے والا کتا ’روڈ وائلر‘ سب سے ٹھنڈے مزاج کا ہے۔ اس حوالے سے عمران کا کہنا ہے کہ 80کلو وزنی اس کتے کو اگر ہم حملہ کرنے کی تربیت دے دیں تو یہ بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے لیکن یہ بلا وجہ کسی کو تنگ نہیں کرتا اور پر سکون رہنا پسند کرتا ہے۔

٭مگرمچھوں سے متعلق چند اساطیر اور حقائق

مگرمچھوں سے منسوب ایک کہاوت ’مگر مچھ کے آنسو بہانا‘ ہم سب کو اچھی طرح یاد ہے۔ تاہم یہ سمجھنا درست نہیں کہ انسانوں کو کھاتے ہوئے مگرمچھ کے آنسو اپنے شکار انسان کی موت پر دکھ میں بہتے ہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ کھاتے ہوئے مگرمچھ کے آنسو بہتے ہیں لیکن اس کا سبب کسی قسم کا تاسف ہرگز نہیں۔ کھاتے وقت مگرمچھ کی آنکھیں پوری طرح کُھل کر پھول جاتی ہیں، ہوا عضلات میں پیدا ہونے والی خالی جگہ سے گزر کر آنسوؤں کے غدود پر دباؤ ڈالتی ہے جس کا نتیجہ مگرمچھ کے مصنوعی آنسو کی شکل میں سامنے آتا ہے۔

نرم اور پائے دار ہونے کی وجہ سے مگرمچھ کی کھال کی قیمت 15ہزار ڈالر( 15لاکھ پاکستانی روپے) تک ہوتی ہے۔ کچھ قبائلی معاشروں میں مگرمچھ کی کھال کو بلند مرتبے کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ نہ صرف اس جانور کی کھال بل کہ ہڈیوں کو بھی تیر، بھالے یہاں تک کہ گولیاں بنانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

مگرمچھ کی آنکھوں پر چمک دار خلیوں کی ایک تہہ چڑھی ہوتی ہے، جس کی بدولت اندھیرے میں اُس کی آنکھیں دور ہی سے چمکتی دکھائی دیتی ہیں۔ مگرمچھ کے شکار کے لیے برازیل کے شکاری انوکھا طریقہ اختیار کرتے ہوئے دور سے مگرمچھ کی آنکھوں میں کوئی نوک دار چیز گھونپ دیتے ہیں اور پھر اسے کشتی پر لاد کر زندہ مگرمچھ کی کھال اُتار لیتے ہیں۔

کئی مرتبہ مگرمچھ دریا کے کنارے منہ کھول کر لیٹے رہتے ہیں۔ یہ اُن کا جارح انداز نہیں بل کہ خود کر گرمی سے بچانے کا ایک طریقہ ہے۔ اس طرح مگرمچھ منہ سے پسینہ خارج کرتے ہیں۔

اکثر لوگ گھڑیال کو بھی مگر مچھ سمجھتے ہیں، دونوں الگ جانور ہیں۔ مگرمچھ کے نچلے جبڑے پر منہ بند ہونے کے بعد بھی چوتھا دانت واضح دکھائی دیتا ہے۔ مگرمچھ منہ میںسالٹ گلینڈ ہونے کی وجہ سے سمندری پانی میں کھڑا رہ سکتا ہے، جب کہ گھڑیال میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی۔

مگرمچھ کے 99 فیصد بچے پیدائش کے پہلے سال ہی بڑی مچھلیوں، چھپکلیوں اور بڑے مگرمچھوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ مگرمچھ اپنی طاقت ور دم کی بدولت 40کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیراکی اور پانی میں دو سے تین گھنٹے رہ سکتا ہے۔

دنیا کا پہلا مگرمچھ 240ملین سال قبل ظاہر ہوا تھا۔ اس دور میں ڈائنو سارز بھی کرۂ ارض پر موجود تھے۔

سانپوں سے متعلق اساطیر اور چند حقائق

سانپ کا ذکر کسی بھی طرح دل چسپی سے خالی نہیں۔ سانپ کے تذکرے پر ہمارے اندر تجسس جاگ اٹھتا ہے، جب کہ بعض لوگ اس کے نام سے ہی خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ سب انہی قصّوں اور کہانیوں کی وجہ سے ہے، جو سانپوں کے بارے میں عام ہیں۔ خصوصاً ہندو مت میں سانپ سے متعلق تصورات اور عقائد کا اثر نمایاں ہے۔ سانپوں سے جڑی اساطیر کی اثر انگیزی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ناگ کے قتل کا انتقام لینے کے لیے ناگن کا قاتل کا تعاقب کرنا، انسانی روپ دھار لینے کی صلاحیت، سانپ کی مخصوص قسم کا نایاب اور قیمتی پتھر کی حفاظت کرنا اور طرح طرح کے افسانے، باتیں۔ اس کے ساتھ سانپ کے زہر اور ہر سانپ کے زہریلے ہونے سے متعلق بھی کئی باتیں کہی جاتی ہیں۔

بعض کہتے ہیں کہ ہر سانپ زہریلا نہیں ہوتا اور کچھ سانپ ایسے ہیں جن کے راستے سے ہٹ جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ماہرین جنگلی حیات اور محققین کہتے ہیں کہ زیادہ تر سانپ بے ضرر اور انسانوں کا سامنا کرنے سے کتراتے ہیں۔ دنیا بھر میں سانپوں کی تقریباً 2,800 اقسام پائی جاتی ہیں، لیکن اِن میں سے 280 نسل کے سانپ ہی زہریلے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہر سال تقریباً 25 لاکھ افراد زہریلے سانپوں کا نشانہ بنتے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

زہریلے سانپوں میں سے بعض کا زہر نہایت سریع اُلاثر ہوتا ہے اور لمحوں میں اپنے شکار کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے، جب کہ سانپوں کی بعض اقسام اپنے راستے میں آنے والے کو ڈَسنے کے بجائے خود راہِ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس بات کا دارو مدار ماحول پر ہوتا ہے۔ سمندری سانپ کبھی نہیں کاٹتے، لیکن اگر کسی کو کاٹ لیں تو وہ اپنی جان سے جاسکتا ہے۔

ڈسنے اور زہر کے اثر کرنے کی رفتار انتہائی سست ہونے کی وجہ سے سمندری سانپوں کو شوقین افراد پالتے بھی ہیں۔ اکثر ملکوں میں سانپ کے گوشت کو غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔زہریلے سانپوں میں ’’سنگ چور‘‘ اور ’’کوبرا‘‘ کے بعد براعظم افریقہ میں پائے جانے والے ’’مامبا‘‘ سانپ کا نمبر آتا ہے۔ عام طور پر یہ سانپ خطرے کی بْو سونگھتے ہی فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اپنے بچاؤ کے لیے ڈسنے سے گریز نہیں کرتا۔

سریع الحرکت ہونے کی وجہ سے ’’مامبا‘‘ سانپ درختوں پر بسیرا کرنے والے مینڈک، پرندوں اور دیگر حشرات کو اپنی غذا بناتے ہیں۔ یہ لمحوں میں ادھر سے ادھر ہوجاتا ہے اور اپنے شکار تک پہنچنے میں بہت تیزی دکھاتا ہے۔زیادہ تر سپیرے کوبرا (شیش ناگ) کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سُننے کی صلاحیت سے محروم کوبرا بین کی آواز سن کر جھومنے لگتا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کوبرا کے جھومنے کی وجہ بین کی آواز نہیں بل کہ بین بجانے والے کی حرکات و سکنات ہوتی ہیں۔

٭سانپ کے زہر کی اثر پذیری

مامبا، کوبرا اور سمندری سانپوں کا زہر دوسرے سانپوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتا ہے، یہ براہ راست انسان کے اعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے اور متاثرہ شخص تھوڑی ہی دیر میں ہلاک ہو جاتا ہے۔

کچھ سانپوں کا زہر جسم کے سرخ خلیات کو تباہ کر دیتا ہے، جس سے جسم کے خلیے گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق ہر سال سانپوں کے ڈَسے ہوئے تین لاکھ سے زاید افراد کی جان بچانے کے لیے ان کے جسم کے متاثرہ اعضا کاٹنا پڑتے ہیں۔

اژدہوں سے متعلق دل چسپ حقائق

اژدہے کا شمار بڑے سانپوں میں ہوتا ہے۔ سانپوں کی دیگر اقسام کے برعکس یہ زہریلے نہیں ہوتے۔

یہ ایشیا اور افریقہ کے گرم علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ بارانی جنگلات، بڑے میدانوں اور صحراؤں میں بھی پائے جاتے ہیں۔

اژدہے اُس وقت تک انسانوں پر حملہ نہیں کرتے جب تک انہیں مشتعل نہ کیا جائے۔اژدہے میں زہر نہیں ہوتا، یہ اپنے شکار کو اپنے عضلات سے جکڑ کر اس کا سانس روک دیتا ہے۔اژدہا اپنے شکار کو کاٹے بنا ثابت نگلتا ہے۔ اس کا معدہ کھال اور پروں کو چھوڑ کر سب کچھ ہضم کرلیتا ہے۔ پر اور کھال فضلے کے ذریعے خارج ہوجاتی ہے۔ اژدہا اپنے شکار کو مکمل طور پر ہضم کرنے میں بہت وقت لیتا ہے، اگر شکار بڑا ہے تو اس کا معدہ ہفتوں یا مہینوں میں اسے ہضم کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اژدہے بہت کم کھاتے ہیں۔

اژدہے پانی میں تیرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں۔

اژدہے عموماً اپنا مسکن ایسی جگہ پر بناتے ہیں، جہاں کا رنگ اُن کے جسم کے رنگ سے ملتا جلتا ہو۔

خوب صورت ہونے کی وجہ سے اژدہے کی کھال کو بڑے پیمانے پر فیشن انڈسٹری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پینٹ، جوتے، واسکٹ بنانے کے لیے انہیں بے دردی سے مارا جا رہا ہے۔

اژدہوں میں حرارت کو محسوس کرنے والے اعضا ہوتے ہیں، جو اسے شکار کی جگہ ڈھونڈنے میں مدد دیتے ہیں۔

اژدہا ٹھنڈے خون والا جان دار ہے لیکن یہ دھوپ کے ذریعے اپنے جسم کا درجۂ حرارت بڑھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ’ریٹی کیولیٹڈ‘ نسل کے اژدہوں کو سب سے لمبی نسل جانا جاتا ہے۔ اس نسل کے اژدہوں کی لمبائی 30فٹ تک پہنچ سکتی ہے۔ ہموار سطح پر اژدہے 1میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رینگ سکتے ہیں۔

٭ سانپ

سرگودھا کا30 سالہ حافظ محمد شہزاد سانپ پالنے کا اتنا شوقین ہے کہ اس شوق کی وجہ سے متعدد بار اسے گھر والوں کی طرف سے شدید برہمی کا سامنا کرنا پڑا اور بات گھر چھوڑنے تک پہنچ گئی، لیکن وہ ڈٹا رہا۔ کارپینٹر کا کام کرنے والے حافظ شہزاد کو سانپ پالنے کا شوق اس وقت پڑا جب وہ 10 سال کی عمر میں شہر کے قریب سے گزرنے والی نہر سے مچھلیاں پکڑا کرتا تھا۔ بقول حافظ شہزاد،’’ایک بار میں نے نہر میں کُنڈی لگائی تو اس میں مچھلی کے بجائے ایک سانپ لگ گیا۔

دیکھنے میں وہ مجھے بہت اچھا لگا تو میں نے اسے مارنے کے بجائے پالنے کا فیصلہ کر لیا اور یوں سانپوں سے ایک تعلق بن گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ میرے پاس اس وقت درجنوں سانپ ہیں، جن میں اکثریت سنگ چور اور دو منہ والے سانپوں کی ہے۔ عموماً میں شہر سے گزرنے والے کھالوں سے سانپ پکڑتا ہوں، کیوں کہ یہ پانی نہر سے آتا ہے اور اس میں کافی سانپ ہوتے ہیں۔ چھوٹے سانپوں کو میں اپنے گھر کے ایک کمرے میں رکھتا ہوں، جہاں دودھ سے ان کی ’سیوا‘ کی جاتی ہے۔

تھوڑا بڑا ہونے پر میں سانپ کے سامنے مینڈک یا چوزے چھوڑ دیتا ہوں تو وہ اسے کھا جاتا ہے۔ میں ان سانپوں کے ساتھ کھیلتا ہوں، ان کی لڑائیاں بھی کرواتا ہوں، یہ کبھی میرے پاس بیٹھ جاتے ہیں تو کبھی اوپر چڑھ جاتے ہیں۔ ہاں ایک بات جو نہایت اہم ہے وہ یہ کہ کبھی کبھار کوئی سانپ مجھے ڈس بھی لیتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ زہر کا میرے جسم پر اثر نہیں ہوتا۔ میں نے کبھی سانپوں کو پال کر فروخت نہیں کیا، جب ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جائے یا عمر میں بڑے ہو جائیں تو پھر میں ان میں سے کچھ دوستوں کو بطور تحفہ دیتا ہوں اور باقی کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘

٭ سُرخاب

ہمارے ہاں کسی امتیازی خصوصیت یا غرور پر اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’کیا تمہیں سرخاب کے پَر لگے ہیں‘‘ لیکن حقیقت میں ایسا خال خال ہی ہوگا کہ لوگوں نے نادرونایاب سرخاب پرندے کو آنکھوں سے دیکھا ہو۔ سرخاب ہالینڈ سمیت مختلف افریقی ممالک میں پایا جانے والا نہایت خوب صورت پرندہ ہے۔ قدیم افریقی قبیلوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات پتا چلتی ہے کہ قبیلے کا سردار اپنے تاج پر سرخاب کا پَر لگاتا تھا جو اس کی سرداری کی پہچان بنتا تھا۔ سرخاب کی یہی وہ خصوصیات تھیں جس نے رحیم یار خان کے رہائشی ذوالفقار علی کو متوجہ کیا۔ ذوالفقارعلی اپنے شوق کی تسکین کے لیے پچھلے 14سال سے سرخاب کی مختلف اقسام پال رہے ہیں۔

انہوں نے نہ صرف سرخاب پالے ہیں بل کہ اپنے فارم ہاؤس میں جنگل کا مصنوعی ماحول پیدا کرکے انڈے اور بچے بھی حاصل کیے۔ ان کے مطابق اس خوب صورت پرندے کی 35 سے زیادہ اقسام ہیں۔ نر پرندہ خوب صورت رنگوں سے سجا ہوتا ہے اور ایک بہت خوب صورت دم کا مالک ہوتا ہے جو اس کے حسن کو چار چاند لگادیتی ہے، لیکن مادہ بہت کم رنگوں سے مزین ہوتی ہے اور تقریباً ایک عام گھریلو مرغی کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ مادہ سرخاب اپریل سے جون تک 8 سے 15 انڈے دیتی ہے اور خود ہی سیتی ہے۔ مادہ سرخاب کے انڈوں میں سے24،25 دنوں بعد بچے نکل آتے ہیں۔ پرندے کی لمبائی 23 سے 33 انچ ہوتی ہے، یہ باجرہ، مکئی، پھل اور بیج کھاتے ہیں۔

٭ نیولا

بلی کی مانند نظر آنے والا نیولا وہ جانور ہے، جس پر سانپ کا زہر بھی اثر نہیں کرتا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی باہمی لڑائی میں جیت اکثر نیولے ہی کی ہوتی ہے۔ دنیا کے چند خطرناک ترین جانوروں میں شمار ہونے والے نیولے سے انسان ڈرتا اور بھاگتا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر سرگودھا ڈی بلاک کا رہائشی احمر خان اسے پالنے کا شوقین ہے۔ احمر نے کئی برس سے اپنے گھر میں نیولے پال رکھے ہیں۔ اپنے اس شوق کی روداد سناتے ہوئے 38 سالہ احمر خان نے بتایا کہ ’’درحقیقت معاملہ کچھ یوں ہے کہ پہلے مجھے کبوتر رکھنے کا شوق تھا۔

ان کبوتروں سے مجھے بڑا لگاؤ تھا، لیکن اس میں قباحت یہ ہوتی تھی کہ ہمارے علاقے میں نیولے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر کبوتر ان کے ہاتھوں مارے جاتے، جس کو پہلے تو میں نے نظرانداز کیا، مگر جب معاملہ حد سے زیادہ بڑھ گیا تو غصے میں نے فیصلہ کیا کہ اب انہیں نہیں چھوڑوں گا، لہٰذا چوہے پکڑنے والا پنجرا لگا کر میں نے ان کا شکار کیا۔ اس پنجرے میں دو تین نیولے پھنس گئے۔ میں نے جب ان نیولوں کو دیکھا تو پھر انہیں مارنے کو میرا دل نہیں چاہا۔ یہ نیولے مجھے بہت پسند آئے تو میں نے انہیں مارنے کے بجائے پالنے کا فیصلہ کرلیا۔

میں نے ایک موچی سے ان کے لیے پٹے بنوائے اور ان کی گردن میں ڈال دیے، یوں ان سے خطرے والا معاملہ ختم ہوگیا۔ ان نیولوں کے لیے میں نے اپنے گھر کی چھت پر مخصوص جگہ بنائی، جہاں وہ بہ آسانی سیروتفریح کر سکتے ہیں۔ خوراک میں انہیں روٹی اور گوشت دیا جاتا ہے، تاکہ وہ صحت مند رہیں۔ ان نیولوں کو میں 10 سال سے پال رہا ہوں، لیکن اب جاکر مجھے ان سے کچھ خطرہ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ یہ کسی شخص کو خود تو کچھ نہیں کہتے مگر گھر کے بچے انہیں تنگ کرتے ہیں، تو وہ کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ میرے خیال میں اب مجھے انہیں آزاد کر دینا چاہیے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔