کیا پایا انساں ہو کے

محمد عثمان جامعی  اتوار 1 فروری 2015
روبوٹس بنے سیاسی کارکن، اور پھر..... .فوٹو: فائل

روبوٹس بنے سیاسی کارکن، اور پھر..... .فوٹو: فائل

اگر جبارسلامت کی گاڑی، کلائی پر چمکتی گھڑی، فربہہ جسم پر منڈھے سوٹ اور اس کی جیب میں موجود کڑکڑاتے نوٹوں کی مجموعی مالیت شمار کی جائے، تو لگ بھگ دس کروڑ کا سرمایہ شاہ راہ پر گردش کر رہا تھا۔

پچھلی سیٹ پر جبار سلامت کے ہم نشست پرسنل سیکریٹری، ڈرائیور اور اس کے ساتھ بیٹھے چوکنا باوردی محافظ کی تنخواہ سرمائے کی ہتک کے خیال سے اس مجموعے میں شامل نہیں کی گئی۔ اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں کہ کون جبار سلامت؟ تو میرا رویہ بہ یک وقت برہمی، حیرت اور استہزا لیے ہوگا، اور اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ آپ اخبارات پڑھنا اور ٹی چینلز دیکھنا تو کجا چار لوگوں میں بیٹھتے بھی نہیں، ورنہ آپ نام سنتے ہی جان لیتے کہ میں کسی للوپنجو کی نہیں اس کھرب پتی سرمایہ دار کی بات کر رہا ہوں جو اپنے سرمائے کا ایک حصہ بھوکوں کو کھانا کھلانے، غریب لڑکیوں کے لیے جہیز کی فراہمی اور قدرتی آفات، سانحات اور حادثات کا شکار افراد کی بحالی کے لیے خرچ کرتا ہے اور اس احتیاط سے فلاحی کام کرتا ہے کہ کوئی مفلوک الحال شخص کہیں اپنے پیروں پر نہ کھڑا ہوجائے۔ بھئی اگر پچھڑے ہوئے لوگ خودکفیل ہوگئے تو مخیر اہل ثروت خیرات کے ثواب اور اس کے دنیاوی اجر سے محروم نہیں ہوجائیں گے۔

’’لگ بھگ دس کروڑ کا سرمایہ‘‘ پوری شان سے شاہ راہ پر گردش کرتے کرتے ایک ملحق سڑک پر مڑا، جبار سلامت نے اپنی مُندی آنکھیں کھولیں جو کھڑکی کے پار ایک وسیع عمارت پر جا کر ٹک گئیں، پھر اس کی نظریں عمارت کی دیوار سے چپک کر اس کی لمبائی کے ساتھ چلتی گئیں۔ ’’اسے خریدنے کی بات کرو، فوراً‘‘ مالک کا نظر اور مزاج آشنا پرسنل سیکریٹری اُس کے ’’اِس، اُس، وہ‘‘ کی مجہول گفتگو کے پیچھے چھپے معنی مطلب فوراً جان لیتا تھا۔ ’’سر! یہ بلڈنگ آپ ہی کی تو ہے۔‘‘ جبارسلامت کی ساری املاک کا ریکارڈ اسے رٹا ہوا تھا، مُلک کی ٹاپ ماڈل شینا کے اعضا کی پیمائش سمیت۔ ’’اوہ، اچھا، اونھ‘‘ جبار کی آنکھوں میں اتر آنے والی بے چینی پر سکون کی تہہ چھاگئی۔

پرسنل سیکریٹری یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا ’’سر‘‘ آج کل کیوں عمدہ وقوع پر موجود شان دار عمارات کو دیکھ کر چونک اٹھتا ہے۔ اگرچہ جبارسلامت کے منصوبے اس کے دھنسے سینے اور تنے پیٹ سے اپنے آغاز تک باہر نہیں آتے تھے، لیکن اس کا تازہ خواب یوں اسے اپنا اسیر کیے ہوا تھا کہ آنکھوں سے بہے جاتا تھا۔ لفٹ مین کی نوکری سے ابتدا کرنے والے جبار سلامت نے نہ جانے کون سا بٹن دبایا تھا کہ اس کی جیون لفٹ اٹھتی ہی گئی، اوپر اور اوپر اور اوپر۔ وہ معمولی لفٹ مین سے بزنس ٹائیکون کیسے بنا، ہم اس قصے میں کیوں الجھیں، اس میں ایسا کچھ نیا نہیں، وہی خاص لوگوں کی عام سی کہانی۔

پرسنل سیکریٹری بھی اس کے ماضی سے ناواقف تھا، البتہ حال کے ہر پہلو سے آشنا، کیوں کہ یہ اس کی نوکری کا تقاضا تھا۔ اس نے جو بھی کرکے دولت بنائی، اتنی بنالی کہ اپنے اثاثوں کے شمار کے دل چسپ کھیل سے اس کی طبیعت اوبھ گئی، نیا مشغلہ نیک نامی کمانا تھا، سو شہر شہر چوراہوں پر دسترخوان سجادیے، کتنی ہی غریب لڑکیوں کو جہیز دے کر اپنی شہرت کو عزت کی خلعت پہنائی، غرض فلاح کے نام پر جو بھی ممکن تھا کرڈالا۔ اور اب منزل تھی سیاست۔

اس منصوبے کا ادراک پرسنل سیکریٹری کو اس وقت ہوا جب مفلس خواتین میں سلائی مشینیں بانٹنے کی تقریب کے آغاز میں جبار سلامت نے رفیع رضا شاہ کو ساتھ بٹھاکر سرگوشیوں میں گفتگو شروع کردی۔ باربار اقتدار میں حصہ لینے والی پبلک پارٹی کا دانش ور راہ نما رفیع رضا شاہ اپنی بھری جوانی کے روزوشب سرخ سویرا پارٹی کی نذر کرنے کے بعد مایوس ہوکر ’’سُرخ انقلاب بہ ذریعہ جمہوریت‘‘ کی نئی امید کے ساتھ پبلک پارٹی سے جُڑگیا تھا۔

’’سرمایہ‘‘ کی تشریح اور ’’قدرِزاید‘‘ کے نظریے کی تفسیر میں کمال رکھنے والا یہ دانش ور راہ نما برسوں اپنی کٹیا سے مکان، اجڑے پارکوں اور گلیوں کے نکڑوں پر بیٹھک لگاکر پبلک پارٹی کے کارکنوں کو اس آس پر لیکچر دیتا رہا کہ ’’یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔‘‘ ہر شام کچھ ’’چراغ‘‘ اس کے طویل لیکچر سنتے، اونگھتے، ٹمٹماتے اور ایک ایک کرکے گُل ہوتے جاتے۔ رفتہ رفتہ نئی امید بھی بجھ گئی۔ اب وہ پارٹی کے جلسوں میں نظامت کرتا اور ہر سال پارٹی کے، بانی، سربراہ، اس کی اہلیہ، بچوں کی سال گرہوں کے کیک پر موم بتیاں لگاتا، جلاتا، بجھاتا نظر آتا۔

آس کے یہ دیپ بھی اسے اپنی جماعت میں کوئی مقام اور پارٹی ٹکٹ نہ دلاسکے تو تھر کے مفلس باسیوں کے لیے کراچی میں سرگرم ایک این جی او کی سربراہی سنبھال کر سیاست کو خیرباد کہہ دیا۔ جبارسلامت کو جب تقریبات میں تقریر کی ضرورت پڑی، تو اس کی تلاش نے رفیع رضا شاہ کو پالیا۔ اب اس کے منہ کو زُبان دینے کا کام رفیع رضا شاہ کا تھا۔ یہی نہیں، وہ جبارسلامت کی تقاریب میں ایک معتبر دانش ور اور سماجی کارکن کی حیثیت سے تقریر بھی کرتا تھا۔

پرسنل سیکریٹری نے سرگوشیوں کا منظر دیکھنے کے بعد رفیع رضا شاہ کو تقریر میں جب یہ کہتے سنا،’’محترم جبارسلامت! سیاست کو آپ جیسے عوام دوست اور وطن پرست شخصیت کی ضرورت ہے۔ عوام آپ کے منتظر ہیں‘‘ تو وہ اسی لمحے اپنے ’’سر‘‘ کا ارادہ جان گیا۔

’’اسے پینٹ کراؤ، اور فرنیچر وغیرہ، سب اے ون۔۔۔۔میں رفیع رضا کو بول دوں گا، وہ تمھیں سمجھادے گا کیا کرنا ہے‘‘ جبارسلامت کے عقب کی طرف اٹھے انگوٹھے کا ہدف وہی عمارت تھی۔ گاڑی وسیع وعریض بنگلے پر رکی، جس پر بریگیڈیر (ر) خاورملک کے نام کی تختی لگی تھی۔ گیٹ کھلا، گاڑی دھیمی رفتار سے اندر داخل ہوئی۔ اندر سے سوٹ میں ملبوس ایک لمباچوڑا بہ وقار شخص ہاتھ میں سگار لیے نمودار ہوا۔ ’’ویلکم، اندر سب آپ کے منتظر ہیں‘‘ چہرہ، لفظ، مصافحہ سب گرم جوشی لیے ہوئے تھے۔

دونوں راہ دار سے ہوکر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے، جہاں سوفوں پر چھے لوگ بیٹھے تھے۔ جبارسلامت کی ٹیم، جو اس نے معاوضہ دے کر بنائی تھی، بریگیڈیر (ر) خاور ملک سمیت سات لوگ، جن سے ایک وہی رفیع رضا شاہ تھا، جس نے اپنی سگریٹ ایش ٹرے میں بجھائی اور دیگر پانچ لوگوں کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ سب نے ایک قدم آگے بڑھ کر جبارسلامت سے ہاتھ ملایا، سابق رکن قومی اسمبلی اعظم منگریو، بیوروکریسی میں تین عشرے گزار کر ریٹائر ہونے والا نعمان جلیسی، مقتدر افراد کی خواب گاہوں تک رسائی رکھنے والی پختہ عمر اداکارہ ساحرہ، سینیر صحافی اور کئی اخبارات کا مدیر رہنے والا داؤد نسیم اور متعدد مشہور سیاسی مقدمات لڑکر نام کمانے والا قانون داں بیرسٹرشہریار جاوید۔

آج کی میٹنگ بہت اہم تھی، جس کا اختتام ملک کی ایک نئی سیاسی جماعت کے آغاز پر ہوا، جس کا نام رکھا گیا ’’برائٹ فیوچر پارٹی۔‘‘ پارٹی کا منشور پیش اور منظور ہوا، پرچم کے رنگ طے ہوئے، پبلسٹی کے لیے میوزیکل گروپ اور اشتہاری کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ ہوا۔

اگلے روز ایک فائیواسٹار ہوٹل میں پریس کانفرنس بلاکر جبارسلامت نے نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کردیا۔ اسی شام کو اس عمارت میں پارٹی کے صدردفتر کا افتتاح کردیا گیا، جس کی تزئین وآرائش کا حکم پرسنل سیکریٹری کو ملا تھا۔ اگلے روز ’’برائٹ فیوچر پارٹی‘‘ جماعت کے منشور کے اہم نکات اور جبارسلامت کی خدمات بیان کرتا اشتہار ہر اخبار کے پہلے صفحے کا نصف حصہ گھیرے ہوئے تھا۔ ہر ٹی وی چینل کے پرائم ٹائم میں ’’برائٹ فیوچر پارٹی‘‘ کا پندرہ منٹ کا اشتہار’’ہے نئی قیادت، جبارسلامت‘‘ کے نغمے، جبارسلامت کی فلاحی سرگرمیوں کی وڈیوز اور پارٹی کے نعروں اور وعدوں کے ساتھ نشر ہوا، اور کئی روز تک متواتر نشر ہوتا رہا۔

ملک کے تمام بڑے شہروں میں پارٹی کے رکنیت سازی کیمپ لگادیے گئے، جہاں یومیہ ہزار روپے کے عوض خدمات انجام دینے والے رضاکار رکنیت کے فارم لے کر بیٹھ گئے۔ مگر ساری کوششیں بے کار گئیں، پورے ملک سے محض چند درجن افراد پارٹی کے رکن بنے، اور جب کارکنان کا پہلا اجلاس بلایا گیا تو دور تک پہلے ہال میں پندرہ بیس افراد بیٹھے برابر کے کمرے میں رکھے بسکٹوں، پیسٹریوں اور سموسوں کو تک رہے تھے۔

’’آپ لوگوں نے جیسا بولا میں نے کیا۔۔۔۔بولتے تھے لوگ دھڑادھڑ آئیں گے۔۔۔اونھ، کدھر ہیں لوگ۔‘‘ جبارسلامت کے سات رتن مؤدب بیٹھے اس کی مودبانہ پھٹکار سن رہے تھے۔ ’’جناب! ہمیں غریب علاقوں میں جلسے کرنا ہوں گے، وہاں سے ہمیں کارکن حاصل ۔۔۔۔‘‘،’’او مجھے چاہیے ہی نہیں، یہ لوگ مجھے چاہیے ہی نہیں۔ لوگ نیا چاہتے ہیں، اب میں وہ کروں گا جو کسی نے نہیں کیا۔ میرے پاس بہت پیسہ ہے، مجھے ضرورت نہیں ان لوگوں کی‘‘

’’کارکن تو ہماری ضرورت ہیں جناب‘‘ بھاری مشاہرے کے نیچے دبے بریگیڈیر خاور ملک کے عسکری دبدبے نے ایک مضمحل سی انگڑائی لی۔

’’کارکن تو ہوں گے، مگر یہ لوگ نہیں‘‘

’’پھر؟‘‘ کئی حیران آوازوں نے پوچھا۔

’’میں نے کل ایک خبر پڑھی کہ چین کے ایک ریسٹورینٹ میں روبوٹ ویٹر ہیں، میرے کارکن بھی روبوٹ ہوں گے۔ ہزاروں روبوٹ، میں نے آج صبح ہی جاپانی کمپنی کو آرڈر کردیا ہے۔‘‘

’’جی، مگر۔۔۔۔کیا بات ہے جناب!‘‘ حیرت اور سوال یکایک ستائش میں بدل گئے۔

اور کچھ ہی دنوں بعد ملک کے کئی بڑے شہروں کی سڑکوں پر ابھرنے والا ایک عجیب اور دل چسپ منظر ٹی وی چینلوں کے توسط سے ہر گھر میں کسی سنسنی خیز فلم کی طرح دیکھا جارہا تھا۔ ہر شہر میں بیسیوں روبوٹ ’’برائٹ فیوچر پارٹی‘‘ کا پرچم اور جماعت کے نعروں پر مشتمل بینر لیے نمودار ہوئے، وہ بہ یک زبان’’جبابر۔۔۔سلامت۔۔۔زندہ۔۔۔برائٹ ۔۔۔فیوچر۔۔۔پارٹی۔۔۔زندہ باد‘‘ کے نعرے لگارہے تھے۔ کچھ دیر نعرے لگانے کے بعد انھوں نے اپنے آہنی ہاتھوں سے دیواروں پر جبارسلامت کی تصاویر اور ’’نئی قیادت، جبارسلامت‘‘ کے نعروں سے مزین پوسٹر چسپاں کرنے لگے۔ اب تو یہ مناظر روز کا معمول بن گئے۔

پارٹی کے جلسوں میں شامیانے اور کرسیاں لگانے سے اسٹیج کی تیاری اور گلی گلی کوچہ کوچہ لوگوں میں منشور کی کاپیاں تقسیم کرنے تک پارٹی کی تمام سرگرمیاں روبوٹ انجام دے رہے تھے۔ پارٹی کی تنظیم سازی میں جبارسلامت کو بہ طور چیئرمین مرکزی اور محوری حیثیت حاصل تھی، اس کے بعد سات رکنی ’’بورڈ‘‘ تھا، جس کا کام روبوٹس ہی کی طرح چیئرمین کا حکم بجالانا تھا، ایک تیکنیکی نظام کے ذریعے روبوٹ کارکن براہ راست جبارسلامت کے کنٹرول میں تھے۔

آئیڈیا کام یاب رہا۔ حیرت کبھی نہیں ہارتی، انوکھاپن توجہ حاصل کرکے رہتا ہے۔ روبوٹس کے ہاتھوں لگے پوسٹر اور ان کے ذریعے ملنے والے منشور کو پوری دل چسپی اور غور سے پڑھتے، بڑی محنت سے تیارکردہ سنہرے وعدوں والا منشور اور جبارسلامت کے ایک نعرے کی بنا پر پارٹی تیزی سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے لگی،’’میرے پاس اتنی دولت ہے کہ مجھے بدعنوانی کی ضرورت نہیں۔‘‘

انتخابات قریب تھے اور محسوس ہورہا تھا کہ ’’برائٹ فیوچر پارٹی‘‘ عوام میں مقبولیت حاصل کرتی جارہی ہے۔ برسراقتدار جماعت نے خطرہ بھانپ لیا اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ بدعنوان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے جھٹ پٹ ایک ادارہ بھی کھڑا کردیا گیا، جسے پہلا حکم ملا’’جبارسلامت کے اثاثوں کی تحقیقات کرو۔‘‘

انکم ٹیکس کی چوری، زمینوں پر قبضہ، سرکاری قرضوں کی عدم ادائیگی۔۔۔۔ایک کے بعد ایک کیس کھلنے لگے، گھیرا تنگ ہونے لگا۔

آج کی میٹنگ کا ایجنڈا بس تین الفاظ پر مشتمل تھا ’’کیا کیا جائے۔‘‘

’’آپ کچھ دنوں کے لیے ملک سے چلے جائیں‘‘ داؤد نسیم اور اعظم منگریو کے مشورے کی سب نے تائید کی۔

’’پھر پارٹی کی قیادت کون کرے گا‘‘ جبارسلامت کسی قسم کے کاروبار میں دوسروں پر اعتماد کا قائل نہیں تھا۔

’’آپ وہاں رہتے ہوئے آپریٹ سسٹم کے ذریعے روبوٹس کو چلاسکتے ہیں۔‘‘ خاورملک جانتا تھا کہ جبار کا پارٹی سے کیا مطلب ہے۔

’’یہ ممکن نہیں۔۔۔یہ سسٹم اس طرح بنایا گیا ہے کہ میں اسے صرف ملک کی حدود میں استعمال کرسکتا ہوں۔‘‘ کیسی بے چارگی تھی لہجے میں۔

’’آپ کے صاحب زادے جناب! عاطف جبار۔۔۔نوجوان قیادت، ان کا فی الحال آپ کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں، ان پر کوئی مقدمہ نہیں بنایا جاسکتا‘‘ بیرسٹرشہریارجاوید کی صلاح نے جبارسلامت کی آنکھیں چمکادیں۔

چنددنوں میں جبارسلامت پر دل کے دورے، اس کی علاج کے لیے بیرون ملک روانگی اور عاطف جبار کے ’’برائٹ فیوچر پارٹی‘‘ کا چیئرمین بننے کی خبریں ایک تسلسل کے ساتھ سامنے آئیں۔

امریکا روانگی سے قبل جبارسلامت نے ضروری دستاویزات کے ساتھ روبوٹس کا آپریٹنگ سسٹم اپنے بیٹے کے حوالے کیا اور ایئرپورٹ کی راہ لی۔

نیویارک کے پُرتعیش ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر کچھ دیر آرام کے بعد اسے کچھ خیال آیا۔ اس نے عاطف جبار کا نمبر ڈائل کیا۔ ’’یس ڈیڈی‘‘،’’ایک کام کرو، روبوٹس کا ایک جلوس نکلواؤ، ان کے ہاتھوں میں میری صحت یابی کی دعا کے بینر اور کارڈ ہوں۔ فوری۔ انڈراسٹینڈ۔‘‘ اس نے جواب سنے بغیر فون بند کردیا۔

باپ کی کال ختم ہوتے ہی عاطف جبار نے سات رکنی بورڈ کی میٹنگ بلالی۔ میٹنگ کے خاتمے پر اس نے فون پر بینرز اور کارڈز تیار کرنے کی ہدایت جاری کی۔ چند گھنٹوں میں بینر اور کارڈ پارٹی کے دفتر پہنچ گئے۔ اب روبوٹس کو متحرک کرنے کا مرحلہ تھا۔ عاطف جبار نے روبوٹس کا آپریٹنگ سسٹم سنبھالا اور اسے باپ کی ہدایات کے مطابق استعمال کرتے ہوئے کی بورڈ کے ذریعے روبوٹس کو جلوس نکالنے کی ہدایت جاری کرنے لگا۔

ہدایت ملتے ہی روبوٹس کو متحرک ہوجانا چاہیے تھا، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے، ان کے پورے وجود میں کسی چیز نے حرکت کی تو وہ ان کے فولادی ہونٹ تھے، ’’تم۔۔۔کون۔۔۔ہم۔۔۔نہیں۔۔۔جانتے۔۔۔۔ہم۔۔۔۔نہیں۔۔۔مانتے۔‘‘ عاطف جبار نے دوسرے بار ہدایت کی، تیسری بار۔۔۔مگر ساکت جامد روبوٹس کا ایک ہی جواب تھا۔ روبوٹس کی بغاوت؟ حکم عدولی؟ عاطف جبار اور سات رکنی بورڈ کے ارکان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس انسان نما مشین کے رویے کو کیا نام دیا جائے۔

یہ سب سُن کر جبارسلامت کے ہوش اُڑگئے۔ اس کی ساری سیاسی مقبولیت ان روبوٹس ہی کے سہارے قائم تھی۔ اگلے روز وہ ٹوکیو میں تھا اور روبوٹ بنانے والی کمپنی کے سربراہ کے سامنے بیٹھا روبوٹس کی بغاوت کا شکوہ کر رہا تھا۔

’’آپ نے تو کہا تھا یہ کسی حکم سے انکار نہیں کریں گے۔ پھر یہ کیا ہے؟‘‘

’’مسٹرجبار! ان روبوٹس کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ صرف آپ کا حکم مانیں گے، کسی اور کا نہیں۔ البتہ ہنگامی صورت حال کے لیے ان میں ایک خاص صلاحیت موجود ہے۔

’’وہ کیا؟‘‘ جبارسلامت کی پریشانی کو کچھ ڈھارس ہوئی۔

’’وہ صلاحیت یہ ہے کہ۔۔۔۔‘‘ اکیو اکیرا نے اپنی چھوٹی چھوٹی جگنو سی چمکتی آنکھیں جبار سلامت کی آنکھوں میں کھب رہی تھیں۔ ’’اس اندیشے کے پیش نظر کہ آپ اچانک دنیا سے چلے جائیں یا کسی بیماری اور حادثے کی وجہ سے روبوٹس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھیں تو آپ کی پارٹی کا پورا نظام مفلوج ہوجائے گا، ہم نے ان روبوٹس کے سسٹم میں ایک خاص صلاحیت رکھی ہے۔

ہمیں یقین تھا کہ کسی بھی بنا پر آپ اپنی جماعت کے سربراہ نہیں رہتے تو آپ کی جماعت کا کوئی سنیئر، تجربہ کار اور بہ صلاحیت راہ نما ہی قیادت سنبھالے گا، چناں چہ یہ روبوٹس آپ کے اردگرد موجود افراد پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ آپ کا لمس ان میں فیڈ ہے، آپ جن لوگوں سے بھی ملتے اور بات کرتے ہیں ان کے عکس اور آواز مسلسل ان روبوٹس کو ارسال ہوتی ہے۔ ان کا پروگرام آپ کی زبان سمجھتا ہے۔

الفاظ اور حرکات وسکنات کے تجزیے کے ذریعے یہ پروگرام روبوٹس کو بتاتا رہتا ہے کہ آپ کے گرد لوگوں میں سے کس کا کیا رجحان اور رویہ ہے، کون آپ کا دوست یا رشتے دار ہے، کون آپ کا تجارتی ساتھی اور کون آپ کا سیاسی رفیق، آپ کس پر کتنا اعتماد کرتے ہیں اور کس میں کس درجے کی اہلیت ہے۔ آپ نے ہم سے کہا تھا کہ سیاسی ورکرز کے ہوبہو روبوٹس چاہییں، سو ہم نے ویسے ہی روبوٹس تیار کرکے دیے ہیں۔ آپ نے جس شخص کو پارٹی کا سربراہ بناکر روبوٹس کا آپریٹنگ سسٹم اس کے ہاتھ میں دیا، اس کا آپ کی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا، روبوٹس کے انکار کے لیے ایک یہی وجہ کافی ہے۔۔۔‘‘

جبار سلامت حیرت اور افسوس لیے سنتا رہا، پھر اپنا ڈھیلاڈھالا ہاتھ بڑھا کر مصافحہ کرکے رخصت ہوا۔

اب سارے روبوٹس ’’برائٹ فیوچر پارٹی‘‘ کے دفتر کے عقبی میدان میں پڑے زنگ کھارہے ہیں۔ سات رکنی بورڈ نے رکنیت سازی مہم چلاکر روبوٹس کے ذریعے ملنے والی مقبولیت کی بنا پر کارکنوں کی کھیپ کی کھیپ پارٹی میں شامل کرلی ہے، جو بڑے جوش سے جبارسلامت اور عاطف جبار کے حق میں نعرے لگاتی اور ان کی سال گرہیں مناتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔