آل سعود کی نئی نسل اتحاد برقرار رکھ سکے گی؟

عبید اللہ عابد  اتوار 1 فروری 2015
ان کے خاندان میں اختلافات کی بنیادیں کیا ہیں؟ امریکی اثرورسوخ کس قدر گہرا ہے؟۔ فوٹو: فائل

ان کے خاندان میں اختلافات کی بنیادیں کیا ہیں؟ امریکی اثرورسوخ کس قدر گہرا ہے؟۔ فوٹو: فائل

سعودی عرب کے نئے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس دعا کے ساتھ عنان اقتدارسنبھال لیاکہ

’’اللہ میری مدد کرے، سکیورٹی اور استحکام برقرار رکھنے میں، اور سلطنت کی تمام برائیوں سے حفاظت کرنے میں۔‘‘

شاہ سلمان کی یہی ایک دعا ان چیلنجز کی عکاسی کررہی ہے جن کا انھیں فوری طورپر سامنا ہے۔ انہیں ایک طرف مشرق وسطیٰ میں امریکی منصوبوں کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری طرف ان گروہوں کی مخالفت کا سامنابھی ہے جو امریکا مخالف ہیں اور اس وقت سے ہی آل سعود کے خلاف ہوگئے تھے جب شاہ فہد بن عبدالعزیز نے امریکی افواج کو سعودی عرب اور ہمسائیہ ممالک میں اڈے فراہم کرتے ہوئے امریکا سے مکمل تعاون کا فیصلہ کیا۔

شاہ فہد ، بالخصوص شاہ عبداللہ نے ایسے تمام گروہوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی لیکن یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ سعودی عرب امریکا اور آل سعود کی پالیسیوں کے مخالفوں سے خالی ہوگیاہے۔ ایسے گروہ آل سعود کے لئے آنے والے برسوں میں بھی ایک سنگین مسئلہ بنے رہیں گے۔ اس کے علاوہ عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے نوجوانوں میں شہری حقوق اور حکومت میں شرکت کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس بے چینی سے بچنے کے لیے حکومت کے لیے کافی اصلاحات کرنا ضروری ہیں۔

اس وقت دنیا میں ہرکوئی یہی جاننے کی کوشش میں ہے کہ نئے فرمانروا کس اندازمیں مملکت چلائیں گے؟ کیا وہ روایتی شاہ ثابت ہوں گے یا شاہ عبداللہ کی طرح ہلکی پھلکی اصلاحات کا عمل جاری رکھیں گے یاپھر بالکل ایک مختلف حکمران کے طورپر دنیا کے منظرنامے پر نمایاں ہوں گے؟ اگرشاہ سلمان کے اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیاجائے تو انھوں نے باقاعدہ مذہبی تعلیم حاصل کررکھی ہے اور جدید سائنس بھی پڑھ رکھی ہے۔ بطور گورنر ریاض، انھوں نے ایک ٹوٹے پھوٹے اور پسماندہ شہر کو دنیا کا جدیدترین شہر بنادیا۔

انھوں نے ایک طرف سرمایہ کاروں کو شہر میں آنے کی دعوت دی تو دوسری طرف سیاحوں کو بھی۔ وہ مغرب سے سیاسی اور معاشی تعلقات بڑھانے کے حامی رہے ہیں۔ جب گورنر تھے تو انھوں نے مذہبی، قبائلی اور شاہی مفادات میں ایک توازن قائم کیا۔ 80ء کی دہائی میں سویت یونین کے خلاف جہاد میں فنڈز جمع کرنے کا کام انہی کے ذمہ تھا۔ شاہ سلمان بحرین میں انقلابی تحریک کو کچلنے اور وہاں سعودی افواج کی مداخلت کی پالیسی کے زبردست حامی تھے۔ شاہی خاندان میں اختلافی معاملات میں شاہ سلمان کا کردار مصالحت اور ثالثی پرمبنی ہوتاتھا۔

’سعودی عربیہ پولیٹکل افیئرز‘ کتاب کی مصنفہ کیرن ایلیئٹ ہاؤس کاکہنا ہے کہ ’ عام تاثر یہی ہے کہ شاہ سلمان کا جھکاؤ سعودی عرب کی مذہبی قیادت کی جانب زیادہ ہے۔‘ ’آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ان کی ہلکی سے خواہش ہو گی کہ سعودی عرب میں زیادہ مذہبی سختی کو موقع دیا جائے۔‘ بعض دیگرمغربی ماہرین کاکہناہے کہ نئے سعودی شاہ کے ارد گرد موجود شاہی اشرافیہ اس قابل نہیں ہے کہ وہ ریاستی اور سماجی سطح پر مطلوبہ اصلاحات کر سکے اور اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو سعودی عرب مستقبل میں عدم استحکام کا گڑھ بھی بن سکتا ہے۔

شاہ سلمان چکی کے دوپاٹوں میں پسیں گے، ایک طرف امریکا مخالف گروہ اور دوسری طرف امریکا سے اتحاد برقرار رکھنے پر اصرار کرنے والا اپنا خاندان۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکی اثرورسوخ سعودی معاشرے میں کم اور سعودی خاندان میں زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب1982 میں شاہ خالد کی وفات کے بعد ملک کے نئے بادشاہ فہد نے اپنے سوتیلے بھائی عبداللہ بن عبدالعزیز کو اپنا ولی عہد اور ملک کا نائب وزیراعظم مقرر کیا تو شاہ فہد کے سات سگے بھائیوں نے شہزادہ عبداللہ کی ولی عہدی کی مخالفت کی تھی۔

مخالفت کا سبب عبداللہ کی امریکا مخالف سوچ تھی۔ جب نومبر 1995 میں شاہ فہد کے شدید علیل اور مکمل طورپر غیرفعال ہونے کے باعث عبداللہ بن عبدالعزیز عملی طور پر ملک کے حکمران بنے تو اس انتقالِ اقتدار کو جنوری 1996 تک چھپائے رکھاگیا۔ حالانکہ اس وقت تک عبداللہ بن عبدالعزیز بارہا یقین دہانی کراچکے تھے کہ وہ بطور سعودی بادشاہ امریکا سے قریبی تعلقات برقرار رکھیں گے۔ عبداللہ بن عبدالعزیز جیسے انسان کا خاندان کے سامنے ہتھیار ڈالنامعمولی پہلو نہیں ہے۔

یہی عبداللہ بن عبدالعزیزعشروں تک امریکی عزائم کے خلاف عرب اتحاد کے علمبردار رہے، سن1991ء میں جب کویت پر عراق نے حملہ کیاتوشاہ عبداللہ ( تب ولی عہد تھے( نے سعودی عرب میں امریکی فوج کی تعیناتی کی مخالفت کی تھی، ان کا خیال تھا کہ صدام حسین سے بات چیت کے ذریعے یہ معاملہ بہتر انداز میں حل ہو سکتا ہے۔ یہی عبداللہ بن عبدالعزیز کہا کرتے تھے کہ ہم امریکیوں کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح نہیں دے سکتے۔ ہمارے مفادات ہر جگہ موجود مسلمانوں اور عربوں سے وابستہ ہیں‘‘۔

سعودی فرمانرواؤں کے لئے شاہی خاندان میں امریکی اثرورسوخ ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس خاندان میں اقتدارپسندی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ شاہ سلمان کواس کا بخوبی اندازہ تھا اس لئے انھوں نے اقتدارسنبھالتے ہی اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن کو ولی عہد مقرر کر دیا۔ورنہ ایک خیال یہ بھی تھا کہ شاید وہ اپنے سگے بھائی احمد کو شہزادہ مقرن پر ترجیح دیں۔ بعدازاں نائب ولی عہد محمد بن نائف کی تقرری ہوئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مقرن بن عبدالعزیز آخری بھائی ہیں جو شاہ سلمان کے بعد تخت پر بیٹھیں گے اور محمد بن نائف آل سعود کے پہلے شہزادے ہیں جنھوں نے تخت کی سیڑھی پر قدم رکھاہے۔

موخرالذکرفیصلہ سنگین اختلافات کا باعث بن سکتاہے۔ اولاً شاہ سلمان کو اپنے سگے بھائی احمد بن عبدالعزیز کی ناراضی کا سامنا رہے گا جنھیں یقین ہوچکا ہے کہ انھیں تخت کی طرف جانے والے راستے سے ہٹاکر ایک نکڑ پر کھڑا کردیاگیاہے،اسی طرح شاہ عبداللہ کے بیٹے،شاہی خاندان کی حفاظت کرنے والی فوج ’نیشنل گارڈز‘ کے سربراہ شہزادہ مطائب کو نائب ولی عہد نہیں بنایاگیا، حالانکہ انھیں اس منصب کے لئے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا۔

شاہی خاندان کے دیگر بزرگوں نے بھی ناک بھوں چڑھایا ہے کہ اچانک شہزادوں کو تخت کی سیڑھی پر کیوں چڑھاناشروع کردیاگیا ہے۔ شاہ سلمان کا شاہی خاندان کے اندر السدیری دھڑا کبھی سات سگے بھائیوں کا ایک متحد گروپ ہوتا تھا اور اب اس گروپ میں بھی اندرونی دشمنیاں پیدا ہو چکی ہیں کیونکہ ان سات بھائیوں کے بیٹوں نے اپنے اپنے طاقتور مرکز بنا لیے ہیں۔یادرہے کہ شاہ سلمان اور شہزادہ احمد ان سات بیٹوں میں سے دو ہیں جن کی والدہ السدیری ابن سعود کی سب سے زیادہ چہیتی اہلیہ تھیں۔

اقتدار کے لئے اختلافات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شاہ عبداللہ کی زندگی میں جانشینی کے امور سے نمٹنے کے لیے قائم کی جانے والی ابن سعود کے بیٹوں اور پوتوں پر مشتمل کمیٹی ’بیعت کونسل‘ کا ایک اجلاس مارچ 2014 میں ہوا جس میں مقرن بن عبدالعزیز کو ولی عہد بنائے جانے کے فیصلے کی توثیق کی گئی اور اس میں یہ اتفاق بھی کیا گیا کہ شہزادہ مقرن کی تقرری کا فیصلہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ’بیعت کونسل‘ کے اجلاس میں موجود تمام شہزادوں نے شہزادہ مقرن کی ترقی کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا۔

یاد رہے کہ بیعت کونسل، بادشاہ منتخب کرنے کے ضمن میں اختلافات کا توڑ کرنے کے لئے شاہ عبداللہ نے قائم کی۔کونسل کے سربراہ مشعل بن عبدالعزیز ہیں، مجموعی طورپر اس کے ارکان کی تعداد28 ہے جس میں شاہ عبدالعزیز کے سب بیٹے، انتقال کرجانے والے بیٹوں کے سب سے بڑے بیٹے، شاہ کے بیٹے اور ولی عہد شامل ہوتے ہیں۔کونسل کے ارکان خفیہ رائے دہی کے ذریعے بادشاہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ موجودہ فرمانروا کاانتخاب، بیعت کونسل کا پہلا فیصلہ ہے۔

مقرن بن عبدالعزیز کو ولی عہد بنانے کے معاملے میں، اجلاس میں جتنا بڑا اختلاف پیداہوا، اس کی نظیر ماضی میں نہیںملتی۔ اس تناظر میں اب خدشہ اس بات کا ہے کہ جب شاہ سلمان کے بعد مقرن بن عبدالعزیز بادشاہ بنیں گے تو یہ اختلاف ایک بارپھر پوری شدت سے سراٹھائے گا۔ تاہم ایسابھی نہیں ہے کہ یہ اختلاف فوری طورپر شاہی خاندان کے بخیے ادھیڑ دے کیونکہ آل سعود اپنے اتحاد کو اپنی بقا کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔

سعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط میں ہوا جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعود معروف اسلامی شخصیت محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے۔ اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لئے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔

1902ء میں عبدالعزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہر چھین لیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے 1913ء سے 1926ء کے دوران الاحساء ، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر شامل تھے) پر بھی قبضہ کرلیا۔ 8 جنوری 1926ء کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے۔ 29 جنوری 1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔

20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں، جو اس وقت  مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے، پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔ مارچ 1938ء میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔

سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیزابن سعود نے 1953ء سے1964ء تک، گیارہ سال حکمرانی کی، ان کے بعد ان کے بیٹے شاہ سعود بن عبدالعزیز حکمران بنے، ان کے بعد شاہ فیصل بن عبدالعزیز بادشاہ بنے، انھوں نے1964ء سے1975ء تک حکمرانی کی۔ اگلا نمبر شاہ خالدبن عبدالعزیز کا تھا جو1975ء سے1982ء تک فرمانروارہے، اگلے حکمران شاہ فہد بن عبدالعزیزتھے جو 1982سے 2005ء تک اس منصب پر فائز رہے، ان کے جانشین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز بنے جو 2005ء سے2015ء تک فرمانروا رہے۔ ان کے دوبھائی شہزادہ سلطان اور شہزادہ نائف یکے بعد دیگرے ولی عہد بنے اور انتقال کرگئے۔جبکہ شہزادہ سلمان اب شاہ سلمان بن گئے ہیں۔ اب ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز ہیں۔ ان کے ایک بھائی شہزادہ احمد اس وقت وزیردفاع کے طورپر کام کررہے ہیں۔

شاہی خاندان کی سیاست کا جائزہ لیاجائے تو وہ اپنی وفاداریوں، ذاتی مقاصد اور نظریاتی بنیاد پر منقسم ہے۔ سب سے مضبوط لڑی ’سدیری سات‘ ہے، یہ سات بھائی ہیں جن میں سے ایک شاہ فہد گزر گئے جبکہ ان کے باقی چھ حقیقی بھائی موجود ہیں۔ سیاسی اصلاحات کی رفتار اور سمت پر بھی اس خاندان میں اختلافات ہیں۔ اس ایشو پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں کہ علماء کا کردار کم کرنا چاہئے، موجودہ سطح پر برقرار رکھنا چاہئے یا بڑھاناچاہئے۔ولی عہدشاہ سلطان کے انتقال کے بعد اس معاملے پر بھی اختلاف پیدا ہواکہ ان کا جانشین کون ہوگا۔ تب شاہ عبداللہ نے شہزادہ نائف کو ولی عہد بنادیا، جب 2012ء میں ان کا بھی انتقال ہوگیا تو خاندان پھر منقسم ہوگیا۔

شاہی خاندان پر کرپشن کے چھینٹے بھی پڑتے رہے ہیں، سعودی مملکت( جو ان کے خاندان کے نام پر قائم ہے) کے خزانے اور بڑے شہزادوں کی ذاتی دولت کے درمیان بعض اوقات گڈمڈ ہوجاتی ہے۔ شہزادہ بندر کے بارے میں اطلاعات آئی تھیں کہ انھوں نے برطانیہ سے اسلحہ خریدنے کے ایک معاہدے میں2ارب ڈالر رشوت لی تھی۔ سعودی خاندان کے دیگر کئی افراد مختلف سکینڈلزکے باعث شاہی خاندان کی بدنامی کا باعث بنے۔ سن 2010ء میں ایک شہزادہ کی ویڈیو ٹیپ منظرعام پر آئی جس میں وہ اپنے ملازم پر بدترین تشدد کررہاتھا، اس پر ہم جنس پرستی کا الزام لگا، اسے 20سال قید کی سزا ملی۔

اسی سال ’وکی لیکس‘ کے ذریعے انکشاف ہوا کہ شاہی خاندان میں پس پردہ ایک ایسا کلچر پروان چڑھ چکاہے جس میں شراب، منشیات اور زنا معمول بن چکاہے۔ اسی سال شاہی خاندان کے ایک فرد کو نیویارک کے پلازہ ہوٹل میں ایک لڑکی سے ریپ کرنے کے جرم میں دس سال جیل یاترا کے لئے جاناپڑا۔ یہ مثالیں سعودی عرب سے باہر کی ہیں، سعودی عرب میں کیا ہورہاہے، کوئی نہیں جانتا کیونکہ وہاں شاہی خاندان کو میڈیا پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔

جو تخت کی سیڑھیاں نہ چڑھ سکے

شاہ عبدالعزیز کے چند بیٹے ایسے بھی ہیں جن میں سے ایک دو کو تخت کی خواہش نہیں تھی، یاپھر انھوں نے چھوٹے مناصب پر ہی اکتفاکرلیا۔کچھ ایسے ہیں کہ وہ تخت پر نظرجمائے ہوئے تھے کہ انھیں راستے سے ہٹادیاگیا، پھر انھیں کسی کونے کھدرے میں رہنے پر مجبورکردیاگیا۔ ذیل میں شاہ عبدالعزیز بن سعود کے ایسے تمام بیٹوں کا ذکر کیاگیاہے:

٭92سالہ بندربن عبدالعزیز ہیں شاہ عبداللہ کے انتہائی قریبی ساتھی، مذہب کی طرف زیادہ رحجان رکھتے ہیں۔ کسی دور میں وہ وزارت داخلہ کے ڈائریکٹرجنرل رہے اور پھر کسی حکومتی عہدے کی طرف نظراٹھا کے نہیں دیکھا۔ تبوک سیمنٹ کمپنی انہی کی ہے۔ اسی طرح ریاض ریکریشنل ہوٹلز کے نام سے بھی کاروبار انہی کی ملکیت ہے۔

٭89سالہ مشعل بن عبدالعزیز، پہلے وزیرداخلہ اور گورنر مکہ رہے ہیں۔شاہ عبداللہ سے بہت قرب رہا۔ رئیل سٹیٹ اور کچھ دوسرے کاروباروں کی وجہ سے یہ شاہی خاندان کے امیرترین افراد میں سے ایک ہیں۔

٭83سالہ عبدالرحمن بن عبدالعزیز،سن 1978ء سے2011ء تک نائب وزیرداخلہ رہے۔

٭83سالہ متعب بن عبدالعزیز،1978ء سے 2011ء تک شہری اوردیہاتی امور کے وزیررہے، شاہ عبداللہ کی فیملی کے بہت قریب ہیں۔

٭ 83سالہ طلال بن عبدالعزیز پچاس کی دہائی میں فنانس اور کمیونیکیشن کے وزیر رہے، مملکت کی سب سے بڑی کاروباری شخصیات میں سے ایک ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے خصوصی نمائندہ رہے اور اے جی فنڈ کے چئیرمین بھی۔ ایک دورمیں وہ بھی تخت کے لئے نظریں جمائے ہوئے تھے لیکن جب انھیں زیرغورنہ لایاگیاتو ناراض ہوئے، پھر انھوں نے آئین میں ترمیم اور قانون کی مکمل حکمرانی کے لئے جدوجہد شروع کردی۔

٭81سالہ نواف بن عبدالعزیز، شاہ عبداللہ کے مشیروں میں سے ایک تھے، سابق فنانس منسٹر اور2001 ء سے2005ء تک جنرل انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹرجنرل بھی رہے۔

٭ 80سالہ ترکی الثانی بن عبدالعزیز،کاروباری شخصیت ہیں، ان سے 1978ء میں نائب وزیردفاع کے منصب سے زبردستی استعفیٰ لے لیا گیا تھا۔

٭ 76سالہ عبداللہ بن عبدالعزیز جوف صوبہ کے گورنررہے،2008ء میں شاہ عبداللہ نے انھیں اپنا خصوصی مشیر بنالیا۔

٭75سالہ ممدوح بن عبدالعزیزتبوک کے گورنر رہے، شاہ فہد نے انھیں برطرف کردیا، بعدازاں سعودی سنٹر آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے ڈائریکٹربنادئیے گئے۔

٭73سالہ مشہوربن عبدالعزیز ، ایک دوآوازیں سنی گئی تھیں کہ یہ شاہ عبداللہ کے جانشین ہوں گے۔ تاہم یہ آوازیں دب گئیں۔

مغرب میں تعلیم پانے والی نسل

ولی عہد شہزادہ مقرن پہلے ولی عہد ہیں جو امریکا اور برطانیہ میں زیرتعلیم رہے ہیں۔ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بھی امریکا کے تعلیم یافتہ ہیں۔ 80ء کی دہائی میں انھوں نے ایف بی آئی سے سیکورٹی کورسز بھی کئے اور پھر برطانوی ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ میں انسداد دہشت گردی میں تربیت حاصل کرتے رہے۔جب یہ وزیرداخلہ بنے تو ایک امریکی سفارت کار نے کہاتھا کہ سعودی کابینہ میں امریکا کا سب سے بڑا حامی وزیر شہزادہ محمد ہی ہے۔ وزیرشہری و دیہی امور شہزادہ منصور بن متعب جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے ہیں۔

وزیرتعلیم خالد الفیصل بھی امریکا اور برطانیہ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگرشاہی خاندان سے باہر کے وزرا مثلاً وزیر پٹرولیم اینڈ منرل ریسورسز علی بن ابراہیم النعیمی، وزیر صنعت وتجارت توفیق بن فوزان الربیعہ،وزیرمعیشت و منصوبہ بندی محمد الجسر، وزیرسول سروس عبدالرحمن بن عبداللہ البراک، وزیر فنانس ابراہیم عبدالعزیز الجسر، وزیر پانی وبجلی عبداللہ بن عبدالرحمن الحسین، وزیرحج بندرالحجر، وزیرمملکت برائے امور خارجہ سمیت کابینہ کے ارکان کی اکثریت امریکی یا برطانوی تعلیم یافتہ ہے۔

شاہی خاندان کی اگلی نسل

ایک اندازے کے مطابق سعودی عرب میں شہزادوں کی مجموعی تعداد 7000 سے زائد ہے۔ سعودی کابینہ کے کلیدی وزیروں اور تیرہ صوبوں کے گورنرز کا تعلق شاہی خاندان ہی سے ہوتاہے۔ بعض اہم وزارتیں مختلف نسلوں کی جاگیریں بن چکی ہیں۔ مثلاً گزشتہ دنوں انتقال کرنے والے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز 1963ء سے2010ء میں ولی عہد بننے تک، نیشنل گارڈ کے کمانڈر رہے۔

ان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ منصب ان کے بیٹے مطائب کو دے دیاگیا۔ شاہ سلطان 1962ء سے2011ء میں ولی عہد بننے تک وزیردفاع و ایوی ایشن رہے، شہزادہ نائف 1975ء سے 2012ء میں اپنی موت تک وزیرداخلہ رہے، شہزادہ سعود 1975ء سے تاحال وزیرخارجہ ہیں، اورموجودہ بادشاہ سلطان بن عبدالعزیز 1962ء سے 2011ء میں ولی عہد بننے تک گورنر ریاض رہے ہیں۔

شاہ عبدالعزیز کے سب بیٹوں کی اولادیں بھی اس وقت مختلف اہم عہدوں پر فائز ہیں۔شاہ فیصل کے بیٹے شہزادہ خالد وزیر تعلیم ہیں، گورنرمکہ بھی رہے ہیں۔ دوسرے بیٹے شہزادہ سعود وزیرخارجہ ہیں۔ وہ دنیا کے سب سے طویل المدت وزیرخارجہ ہیں۔ شاہ عبداللہ کے بیٹے شہزادہ مطائب نیشنل گارڈ کے سربراہ ہیں جبکہ دوسرے بیٹے شہزادہ ترکی گورنر ریاض ہیں۔

شہزادہ سلطان عبدالعزیز کے بیٹے شہزادہ بندر طویل عرصہ تک واشنگٹن امریکا میں سعودی سفیر رہے ہیں، بعدازاں انٹیلی جنس چیف بنے۔ شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کے بیٹے شہزادہ سعود سپین میں سفیر رہے ہیں، اب وہ ایک مشرقی صوبے کے گورنر ہیں۔ ان کے دوسرے بیٹے شہزادہ محمد بن نائف نائب ولی عہد ہیں۔ شاہ سلمان عبدالعزیز کے بیٹے شہزادہ محمد وزیردفاع اور شاہی عدالت کے سربراہ ہیں۔ دوسرے بیٹے شہزادہ سلطان وزیرسیاحت ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔