چولہا!

ندیم جاوید عثمانی  اتوار 1 فروری 2015
بھری ہوئی جیبوں والے کبھی اُس منظر کی دلکشی کو سمجھ ہی نہیں سکتے جب ایک غریب شخص کسی کی استعمال شدہ شے میں اپنے لئے نئی خوشیاں ڈھونڈ لیتا ہے! فوٹو: اے ایف پی

بھری ہوئی جیبوں والے کبھی اُس منظر کی دلکشی کو سمجھ ہی نہیں سکتے جب ایک غریب شخص کسی کی استعمال شدہ شے میں اپنے لئے نئی خوشیاں ڈھونڈ لیتا ہے! فوٹو: اے ایف پی

پرانی اشیاء سے سجے اتوار بازار کی رونقیں اپنے عروج پر تھیں۔ جہاں کھاتے پیتے گھروں سے نکلے ہوئے پرانے استعمال شدہ سامان میں لوگ اپنے اپنے مطلب کی چیزیں ڈھونڈنے اور خریدنے میں مصروف تھے۔ 

بھری ہوئی جیبوں والے کبھی اُس منظر کی دلکشی کو سمجھ ہی نہیں سکتے جب ایک غریب شخص کسی کی استعمال شدہ شے میں اپنے لئے نئی خوشیاں ڈھونڈ لیتا ہے!

میں بھی اپنے تمام تر پرانے پن کے ہمراہ پچھلے دوہفتوں سے یہاں اپنے بکنے کا منتظر تھا۔ گو کہ جس کباڑی کے ہاتھ میں لگا تھا اُس نے صاف اور رنگ و روغن کرکے مجھے ایک نئی ظاہری چمک دے دی تھی مگر اس کے باوجود بھی میں کسی کی نظرضرورت سے محروم تھا۔

آخر ایک چولہے کی خواہش ہی کیا ہوتی ہے؟ یہی نا کہ اُس کی آگ ٹھنڈی نہ پڑے چولہے کے لئے اُس کے جلنے کا عمل بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی انسان کے لئے سانس لینے کا عمل، ادھر یہ دنوں چیزیں ختم ہوئیں ادھر باقی سب کچھ ٹھنڈا، پھر وہ چولہا ہو یا انسان۔

اور اب پچھلے ایک ماہ سے اُسی آگ کے لئے ترس رہا تھا کہ گھر میں لگنے والے کوکنگ رینج کی خوشی میں گھر کی مالکن نے مجھ پر بے مصرف کا ٹھپہ لگا کر اس کباڑی کو دے دیا جس کے ٹھیلے پر ابھی میں پڑا تھا۔ دوہفتے تو اُس کباڑی نے مجھے اپنے گھر میں پڑا رہنے دیا کہ پہلے سے موجود پرانی چیزوں کو بیچنے میں لگا ہوا تھا اور اب بلاخر میری ٹھیلے پر سجنے کی باری آئی تو مجھے اُمید ہوئی کہ اب کوئی ضرورت کا مارا مجھے یہاں سے خرید کر لے جائے گا اور اسی انتظار میں دو اتوار گزر گئے تھے۔ شام کے چھ بج رہے تھے اور اب اتوار بازار کی اس گہما گہمی جیسے جیسے کم ہورہی تھی مجھے اپنی قسمت پر رونا آرہا تھا کہ میں آج بھی بکنے سے رہ گیا۔

مگر بازار ختم ہونے سے کچھ دیر قبل ہی میری قسمت جاگ گئی جب ضروتمند نے مجھے خرید لیا اور اب جس طرح وہ مجھے اپنی بغل میں دبا کر لئے جارہا تھا جیسے میں کوئی بہت قیمتی شے ہوں تو اُس کے ہاتھوں کی اسی گرفت نے مجھے ایک غرور کی سی کیفیت میں مبتلا کردیا کہ اب جاکر میں صیح قدر شناس کے ہاتھ لگا ہوں۔

وہ پیدل ہی چلتا ہواجب ایک ٹوٹے پھوٹے کچے مکانوں کی بستی میں داخل ہوا تو لمحے بھر کو میرا دل ڈوبا کہ میں ایک پکے گھر سے نکل کر کس جھونپڑی کی زینت بننے جارہا ہوں؟ مگر جب اُسی پکے گھر کی مالکن کا رویہ مجھے یاد آیا جس نے ایک عرصے مجھ پر سالن روٹیاں پکا کر اپنے اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرا تھا آخر کار ضرورت نہ رہنے پر کیسے اُس نے مجھے گھر سے باہر کردیا تھا تو اِس سوچ کے آتے ہی میں نے خود کو آنے والے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور جب وہ شخص اسی حالت میں مجھے بغل میں دبائے اپنے کچے سے گھر کے آنگن میں داخل ہوا توآنگن میں کھیلتے پانچ چھ بچے بیچیوں نے اُس پر نظر پڑتے ہی شور مچادیا۔ اماں! اماں! دیکھو ابا نیا چولہا لے آئے اور اپنے لئے یہ صدا سننا کہ نیا چولہا ایسا لگا کسی نے کانوں میں خوشیوں کے شادیانے بجادئیے ہوں۔

قصہ مختصر اُس گھر کی مالکن آئی جس نے بڑے پیار سے مجھے اپنے خاوند کی بغل سے نکالا اُدھر بچوں کی نظروں میں الگ ہی اشتیاق تھا۔ اس گھر کی مالکن نے ایک ململ کے کپڑے کو گیلا کرکے یوں احتیاط سے میری صفائی کی جیسے میں ابھی چکنا چور ہوجاؤں گا اور اُس کی اسی احتیاط پر مجھے اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا۔

شام تک مجھے اس گھر کے بنیادی حالات پتہ چل گئے تھے مجھے خرید کر لانے والا ایک راج مستری تھا جو روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرتا تھا دو دن پہلے ہی انھوں نے اپنے سے زیادہ بہتر حالات والے پڑوسیوں سے گیس کاپائپ لیا تھا۔ مجھ سے قبل اس گھر میں لوہے کا لکڑیوں کی مدد سے جلنے والا چولہا وہیں کچے آنگن میں پڑا تھا جسے دیکھ کر مجھے اُس کی قسمت پر افسوس ہورہا تھا اور میں سمجھ گیا تھا کہ میرے لئے محبت رکھنے والی اس گھر کی مالکن اس چولہے کے لئے کتنی ظالم ثابت ہوگی۔ کل یہ بھی کسی کباڑی کے ٹھیلے پر نظر آرہا ہوگا۔

میر ی حسرتوں پر تو پانی دوسرے دن صبح اُس وقت پھرا جب مجھے لگانے کے بعد اگلی صبح مجھ پر چائے بنائی گئی اور مجھے بند کردیا گیا اورگھر والے اُس چائے کو پاپوں کے ہمراہ اپنے گلوں سے اتارنے لگے۔ یہ کیا میں تو سوچ رہا تھا کہ چائے کے بعد اب پراٹھے پکیں گے مگر میری تو چادر گرم ہونے سے قبل ہی مجھے واپس ٹھنڈا کردیا گیا!

برابر والے آنگن کے چولہے سے آتی ہوئی توے کی آوازیں اور پراٹھوں کی خوشبو مجھے اور احساسِ کمتری میں مبتلا کررہی تھی اور میری بدقسمتی یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ صبح نکلنے والا اس گھر کا مالک شام کو جب مُنہ لٹکائے گھر میں داخل ہوا تو اُس کے منہ پر بجے بارہ دیکھ کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ اب رات کو میرے بارہ بجنے والے ہیں یعنی آج مجھ پر کچھ نہیں پکے گا!

وہ اپنی بیوی کو بتا رہا تھا کہ شہر کے حالات خراب ہونے کے باوجود بھی وہ پورے دن اپنے مخصوص اڈے پر بیٹھا رہا مگر آج کے لئے کوئی کام نہیں اور وہ جیسے خالی جیب گیا تھا ویسے ہی خالی جیب واپس آگیا۔

رات کو پھر وہی ہوا گھر میں پڑے ڈبوں کو کھنگالا گیا اورمختلف قسم کے چاول جمع کرکے پکائے گئے دال کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا لہذا میری حسرتِ آگ کے تازیے ایک بار پھر ٹھنڈے ہوگئے۔ رات ہوئی اپنے مقدروں کی طرح اس گھر کے مکین بھی سوگئے۔ صبح ایک بار پھر وہی چائے کا تماشہ مگر آج کا دن کل سے بھی زیادہ بُرا تھا کہ آج کسی سیاسی جماعت کی ہڑتال تھی اور تمام گھر والے چائے کے ہمراہ سوکھے پاپوں کو یوں خاموشی سے کھارہے تھے جیسے یہ پاپے نہیں کسی میت کا کڑوا کھانا ہو اور اُس دن رات میں میرے جلنے کی نوبت ہی نہیں آئی اور برابر کے گھر سے پھر توے کی آواز اور تازہ روٹیوں کی خوشبو مجھے سرد انگاروں پر گھسیٹ رہی تھی!

دوسرے دن تو قیامت ہی ٹوٹ گئی جب تین روزہ یومِ سوگ کی اطلاع آئی اور یہ خبر کو سنتے ہی اُس گھر کی مالکن تو اپنا کلیجہ پکڑ کر بیٹھ گئی۔ رات تک بچوں کا صبر جواب دے چکا تھا اور وہ اپنی اماں سے کہہ رہے تھے کہ اُن کے پیٹ میں آگ لگ رہی ہے کچھ کھانے کو دو اور مجھے اس لفظ آگ سے ہی نفرت محسوس ہورہی تھی۔ ایک نفرت کی آگ جو باہرجتنی تیزی سے پھیل رہی تھی اُس سے کہیں زیادہ تیزی سے گھروں کے چولہوں کی آگ کو ٹھنڈا کررہی تھی!

مجھے پتہ نہیں کہ رات کو انھوں نے کیا روکھا سوکھا کھا کر گذارا کیا مجھے بس اتنا پتہ ہے میرے جلنے کی نوبت نہیں آئی اور آج صبح تو برابر والے گھر سے بھی توے کی آوازیں نہیں آرہی تھیں شاید وہاں بھی میرا ہم نام حالات کی گرمی کے باعث ٹھنڈا ہوچکا تھا۔

تبھی اس گھر کا ایک بچہ باہر سے بھاگتا ہوا آکر اپنی ماں کو پرجوش آواز میں بتانے لگا۔ اماں باہر سڑک پرٹائروں کو آگ لگائی جارہی ہے۔ اُف میرے خُدا پھر وہی آگ کا ذکر! دو دن سے جو میں اس گھر میں ابتک دیکھ چکا تھا وہ مجھے یہ سمجھانے کو کافی تھا کہ باہر پھیلی ہوئی نفرتوں کی آگ کیسے غربت زدہ گھروں کے چولہوں کی آگ کو ٹھنڈا کررہی ہے!

احتجاج اور اپنے نظریات پیش کرنے کے تو اور بھی بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں پھر کیا ضرورت ہے کہ کبھی ہڑتال اور کبھی یومِ سوگ کے نام پر یوں سینکڑوں گھروں کو حالت سو گ میں مبتلا کردیا جائے!

روز کے کھانے کمانے والوں کے لئے تو ویسے بھی ہر وہ دن یومِ سوگ کی صورت ہی گزرتا ہے جس دن اُنھیں مزدوری نہ ملے۔ ان سوگ کا اعلان کرنے والی سیاسی جماعتیں ایک لمحے کو بھی یہ سوچنا گوارہ نہیں کرتی ہوں گی کہ آئے دن کی یہ ہڑتالیں جہاں نچلے درجے کے گھروں کے چولہے سرد کردیتی ہیں وہیں اُن کی بھوک کی آگ کئی گنا بڑھا دیتی ہیں!

لیکن اگر میں یہی شکوہ کروں تو یہ کہہ کر مسترد کردیا جائے گا کہ ایک چولہے کا تو کام ہی جلنا ہے۔ یہ ہمارے اس سیاسی ردعمل سے جل رہا ہے!

تو بھائیوں بخدا میں جل نہیں رہا ۔۔۔ مجھے تو اس بات کا رونا ہے کہ آپ کی اس لگائی جانے والی آگ کے سبب میں سرد پڑتا جارہاہوں!

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔