بُک ریویو؛ ’’ثنائے سرور‘‘

رضاالحق صدیقی  ہفتہ 31 جنوری 2015
علی رضا نے ’’ثنائے سرور‘‘ کے وسیلے سے شاعری نہیں عبادت کی ہے،ایسی عبادت جس میں دل ہر دم حا لتِ سجود میں رہتا ہے۔ فوٹو؛ رضاالحق صدیقی

علی رضا نے ’’ثنائے سرور‘‘ کے وسیلے سے شاعری نہیں عبادت کی ہے،ایسی عبادت جس میں دل ہر دم حا لتِ سجود میں رہتا ہے۔ فوٹو؛ رضاالحق صدیقی

’’ثنائے سرور‘‘ قومی سیرت کانفرنس میں اول انعام یافتہ مجموعہِ نعت ہے۔ جس میں مدحتِ رسول کرنے والے معروف نعت گو شاعر علی رضا ہیں۔ علی رضا پی ٹی وی کے شعبہ کرنٹ افیئر کے پروڈیوسربھی ہیں اور ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ علی رضا کو پہلی بار ہم نے روزنامہ امروز کے ذریعے متعارف کرایا تھا۔ علی رضا نے سب سے پہلے’’ درود ان پر سلام ان پر‘‘ نعتوں کے انتخاب کا مجموعہ پیش کیا، وہ ’’مفہوم‘‘کے نام سے شاعری کا مجموعہ بھی شائع کرا چکے ہیں۔

نعت گوئی میں دنیائے اسلام کے پہلے نعت گو ابو طالب نے اپنے نعتیہ اشعار میں سیرت کے جن پہلووں کا احاطہ کیا ہے وہ ہیں؛

’’وہ ایسے نوری شکل والے تھے، جن کے چہرے کے وسیلے سے لوگ طلبِ باراں کرتے ہیں۔ یتیموں کی فریاد رس، بیواوں کے محافظ، احمد ہمارے اندر ایسے درخت کی جڑ سے تعلق رکھتے ہیں جن تک دراز دستوں کی دراز دستی پہنچنے سے قاصر ہے۔ پروردگار نے اپنی نصرت سے آپ کی تائید فرمائی اور اس دین کو غالب کیا، جس کی صداقت یقینی ہے‘‘

اشعار کے اس ترجمہ سے حضور پاک ﷺ کا نوری ہونا، ایسی ہستی جن کا حوالہ اور واسطہ دعاوں کے مستجاب ہونے کی ضمانت ہے۔ ایسی ذات جو رحمت و شفقت کا خزانہ ہے اور ایسی طیب و طاہر، باوقار اور معزز ہستی جو بعد از خدا بزرگ توئی کے مصداق ایسے مقام پر متمکن ہے جہاں تک کسی دوسرے کی رسائی نہیں اور وہ ایسے سورج ہیں جسے کبھی گہن نہیں لگ سکتا اور وہ دین کے آخری مرسل ہیں جو قیامت تک غالب رہے گا اور جس کی صداقت لاریب ہے۔

سیرت کے ان چار پہلووں کا احاطہ دراصل اوصافِ محمدی کو بیان کرنے کی ایک شاندار کوشش ہے۔ آئیے دیکھیں سیرت کے ان اجزاء کو ’’ ثنائے سرور‘‘ میں کس طرح منظوم کیا گیا ہے۔

پہلی صفت ہے، حضور اکرم ﷺ کا نورِ اول ہونا۔ آپ کے نوری ہونے کو علی رضا نے ثنائے سرور میں کبھی قلبِ انسانی کے حوالے سے تو کبھی شمس و قمر کے حوالے سے، کبھی صبح علم و آگہی کے حوالے سے اور کبھی ضیائے تہذیبِ اسلامی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ ہر جگہ دلیل و بعہان کے ساتھ ساتھ پاسِ ادب کی مقدس فضا کو قائم رکھا گیا ہے۔

آپ کی ذات روشنی، آپ کا نام روشنی
آپ جمالِ کبریا، آپ تمام روشنی

دوسری صفتِ محمدی یہ کہ لوگ جب آپ کے وسیلے سے دعا مانگتے ہیں تو انہیں سب کچھ ملتا ہے۔

اپنے خالق کے خزانوں کے وہ قاسم ٹھہرے
سب نے پایا ہے اسی در سے تقاضے کے بغیر

تیسری صفت یہ کہ حضورِ اکرم ﷺ کی ذات، شفقتِ مجسم باور رحمتِ عالم ہے، جہاں جہاں اللہ کی حاکمیت ہے وہاں وہاں نبیِ رحمت اللعالمین کی بے پناہ رحمت ہے۔ یہ رحمت ہوا کی طرح ہر مخلوق تک پہنچتی ہے۔ رحمت کی یہ صفت حضور کی صفتِ اولیٰ ہے اور باقی صفاتِ محمدی اس کا پرتو ہیں۔ رحمت اللعالمینی ختم المرتبت کی وہ کملی ہے جس کے اندر آپ مزمل اور مدثر ہیں۔ اس حقیقت کو علی رضا نے ’’ثنائے سرور‘‘ میں کچھ اس طرح قلم بند کیا ہے؛

تمہی بتاو بجھتے زمانوں کے سلسلو
کس عہد میں حضور کی رحمت نہیں رہی

چوتھی اور آخری صفت ختمِ نبوت ہے یعنی اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا اور نہ ہی کوئی کتاب نازل ہوگی۔ آخری نبی اور آخری کتاب ہی دینِ اسلام کی دوامیت اور اکملیت کی نشانیاں ہیں اور نہجِ البلاغہ کے الفاظ میں’’خدا نے آپ کو تمام پیغمبروں کے بعد بھیجا اور وحی کو آںحضرت ﷺ پر ختم کردیا یعنی آپ کے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوسکتا۔ آپ کی حاکمیت، آپ کی شریعت قیامت تک کے لئے قائم و دائم رہے گی‘‘، سیرتِ محمدی کے اس پہلو کو علی رضا کی نظر سے ثنائے سرور میں دیکھتے ہیں؛

وہی ہیں ختمِ رسل، ان کی شان کیا کہئیے
نہ رب ہے ان سے الگ اور نہ وہ ہیں رب سے جدا

ثنائے سرور کے شاعر علی رضا کا عقیدہ ہے کہ عشقِ رسول اس کی تخلیق کا محرک بھی ہے اور معیار بھی۔ اسی لئے شاعر پیرائیہِ اظہارِ ثنا کی خیرات شہِ لولاک ہی سے مانگتا ہے۔ اسی ذاتِ اقدس کو اپنے افکار کا مرکز مانتا ہے۔ اسی ذات والے کو قلم کی حرمت کی ضمانت سمجھتا ہے۔ وہ شعورِ نعت کو نورِ مجسم کی مظرِ کرم کا معجزہ سمجھتا ہے۔ وہ مدحتِ رسول کو جہانِ لفظ و معنی کی تسخیر کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ شعر کے اس مقدس حوالے کا احساس ہی اسے نازاں اور سرشار رکھتا ہے۔ اسی عشقِ رسول کی طاقت سے اس نے جینے کا ڈھنگ سیکھا ہے گویا محبوبِ خدا کی محبت نے صرف علی رضا کی شاعری کو ہی رفعت نہیں دی بلکہ اس کی شخصیت و کردار پر بھی مثبت اثرات مرتب کئے ہیں۔

میں سمجھتا ہوں علی رضا نے ’’ثنائے سرور‘‘ کے وسیلے سے شاعری نہیں عبادت کی ہے، ایسی عبادت جس میں دل ہر دم حالتِ سجود میں رہتا ہے۔ علی رضا نے نعت نہیں کہی نمازِ عشق ادا کی ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ رسول کا عشق اورعرفان دراصل خدا کا عشق اور عرفان ہے۔

بیانِ شانِ رسالت کر رہا ہوں
حقیقت میں عبادت کر رہا ہوں
تصور میں مرے سیرت ہے ان کی
میں قرآں کی تلاوت کر رہا ہوں

علی رضا کا یہ مجموعہِ ثنائے سرورِ کائنات 174 صفحات پر مشتمل ہے جسے نستعلیق مطبوعات، اردو بازار لاہور نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے قیمت 300روپے ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

رضاالحق صدیقی

رضاالحق صدیقی

رضا الحق صدیقی ادبستان کے نام سے بلاگ اور نیٹ ٹی وی کے کرتا دھرتا ہیں۔ اُس کے علاوہ چار کتابوں ’مبادیاتِ تشہیر‘، ’حرمین کی گلیوں میں‘، ’کتابیں بولتی ہیں‘ اور ’دیکھا تیرا امریکہ‘ کے مصنف بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔