یونان ۔۔ سٹیرنگ ناآزمودہ ڈرائیور کے ہاتھ میں؟؟

رضا ہاشمی  اتوار 1 فروری 2015
پہلی اشتراکی حکومت آنے کے بعد دیکھتے ہیں کہ یونان میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ یونان کے مسقبل کو دیکھ کر ہم اپنے ہاں بھی ’تبدیلی‘ کے مستقبل کے بارے بھی غور کرسکتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

پہلی اشتراکی حکومت آنے کے بعد دیکھتے ہیں کہ یونان میں کیا تبدیلی آتی ہے۔ یونان کے مسقبل کو دیکھ کر ہم اپنے ہاں بھی ’تبدیلی‘ کے مستقبل کے بارے بھی غور کرسکتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

گزشتہ دنوں رونما ہونے والے واقعات کی نوعیت کے اعتبار سے کافی ہنگامہ خیز دن تھے۔ نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ دنیا بھر میں ہونے والے واقعات نے میڈیا کو مصروف رکھا۔

اوباما کا دورہ بھارت ہو یا پھر سعودی شاہ، شاہ عبداللہ کی وفات، ہمارے ۤآرمی چیف جنرل راحیل شریف کا چین جانا ہو یا لبنان اسرائیل کشیدگی، یہ سب اپنی نوعیت کے اہم مسحور کن اور بااثر واقعات رہے ہیں اور انہیں ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے خاطر خواہ کوریج بھی دی۔ بین الاقوامی واقعات کے اس تواتر میں ہمارے میڈیا کے لئے شاید کم پر کشش مگر نہایت اہم صورتحال یورپی ملک یونان میں سامنے آئی ہے جہاں ہونے والے انتخابات میں بائیں بازو کی کٹرجماعت سریزا اقتدار میں آگئی ہے۔

یونان جنوبی یورپ کا ایک اہم ملک ہے جو اِس وقت یورو زون کا حصہ بھی ہے۔ یورو زون کے ممالک کی کرنسی ایک ہے۔ یونان نے سنہ 2000 میں یورو زون میں شمولیت اختیار کی۔ اچھے اقتصادی اشارعیوں والا یہ ملک سنہ 2010 میں اپنی تاریخ کی بدترین اقتصادی ابتری کا شکار ہوگیا۔ بڑھتے ہوئے بیرونی قرضے، جی ڈی پی میں کمی اور کم ترین شرح نمو کا حامل یہ ملک 2010 میں دیوالیہ ہونے کو ہی تھا کہ یورپی یونین، آئی ایم ایف اور مرکزی یورپی بینک نے اسے سنبھالا اور اسے دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیئے تقریبا 240 بلین ڈالر کا قرضہ دیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ عوامی اخراجات (بجٹ) میں کٹوتی کی شرائط بھی رکھی گئیں۔ حکومت پر یہ لازم کیا گیا کہ وہ عوام کو دی جانے والی سہولیات (سبسڈی، پینشن میں کٹوتی، کم سے کم تنخواہ) اور ٹیکس زیادہ سے زیادہ کرے تاکہ بجٹ خسارہ پورا ہوسکے جو کہ قرض واپس کرنے میں مدد گار ہو۔

اُس وقت کی حکومتی پارٹی نیو ڈیموکریسی نے یہ شرائط من وعن تسلیم کیں۔ اس کے نتیجے میں تقریباً 4 سال کے عرصے کے اندر عوام بلبلا کررہ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب بائیں بازو کی کٹر جماعت سریزا اقتدار کی دوڑ میں ابھر کر سامنے آئی۔ سریزا خود کو کیمونسٹ پاپولسٹ یعنی اشتراکی عوامیت پسند جماعت کہلاتی ہے۔ اس کی قیادت کم عمر، پرجوش، شعلہ بیاں، پُرکشش  اور نئے خیالات کے حامل الیکسس تسیپراس کے ہاتھ میں تھی۔

انہوں نے اپنی الیکشن مہم یونان کو ذلت اور غلامی کے دور سے نکالنے کے نعرے پر چلائی۔ انہوں نے اس بات کا بارہا اعادہ بلکہ وعدہ کیا کہ وہ حکومت میں آکر عوامی کفایت شعاری اور بجٹ کٹوتیوں کا خاتمہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ نیا یونان ہوگیا ہے جہاں ذلت اور غلامی کا تصور تک نہیں ہوگا۔ ۔ اُن سے یہ بھی شائبہ ۤآیا کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی قوت کے کہنے پر قرضے ادا نہیں کریں گے۔ مختصراً یہ کہ ان کی تقریروں میں شعلہ بیانی بھی تھی، کڑک بھی تھی اور چمک بھی تھی جس نے پوری یونانی عوام کو مسحور کرلیا۔

انتخابات ہوئے اور الیکسس تسیپراس جیت گئے۔ انہوں نے ایوان میں 300 میں سے 149 نشستیں جیت لیں۔ انہوں نے کٹر دائیں بازو کی جماعت گرینڈ انڈیپینڈنس کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا فیصلہ کیا۔ تین دن قبل نیکٹائی کو ناپسند کرنے والا یونان کا یہ کم عمر ترین وزیراعظم اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھال چکا ہے۔ اس ساری صورتحال نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یونان کی نئی حکومت اپنے ملک کے ذمے قرض دینے سے انکار کردے گی؟ تو اگر ایسا ہوا تو یونان کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یونان یورپی یونین سے نکل جائے گا؟ یورپی یونین کو اس سے کیا فرق پڑے گا؟ یونان کہ جس کی معاشی صورتحال اس وقت قدرے بہتری کی جانب گامزن تھی، میں اس سیاسی تبدیلی کے کیا معنی ہے؟ کیا یہ یورپ کے دوسرے ممالک کی عوام کے لئے قابل تقلید ہوسکتا ہے؟ یورپی یونین کے ایک اہم ملک میں ایک اشتراکیت پسند حکومت، امریکہ اور یورپی یونین کے لئے کتنی مشکلات لاسکتی ہے؟ روس کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ اس سب کے ممکنہ جوابات کے لئے ہمیں نئی حکومت کے ریکارڈ پر موجود بیانات کو دیکھانا ہوگا۔

عالمی افق پر دیکھا جائے تو ماضی قریب میں جو بھی عوامیت پسند حکومتیں بنیں وہ زیادہ دیر نہیں چل سکیں یا کم ازکم وہ نتائج نہیں دے سکیں جس کے وعدے کئے گئے تھے۔ مثال کے طور پر مصر میں اخوان المسلمین کے جس کی حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا یا پھر صوبے کی سطح پر دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت، جو اپنی ہی وجہ سے جلد ہی گھر کی ہوئیں۔ (مثالیں اس سے زیادہ ہیں)۔

الیکسس تسیپراس ایک کرشماتی لیڈر ضرور ہیں مگر ان کی باتوں میں تضاد جھلکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ وہ یونان کا قرض معاف کروالیں گے (واپس نہیں دیں گے) دوسری جانب انکا کہنا ہے کہ وہ یورو زون سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ ایک جانب انکے وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ وہ مثلث (آئی ایم ایف، یورپی یونین، یورپی مرکزی بینک) سے قرض کی ادائیگی کے بارے کوئی بات نہیں کریں گے دوسری جانب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ کسی تباہ کن صورتحال میں نہیں جائیں گے مگر قرض معاف کروانا ہے۔

تو یہ بات توعیاں ہے کہ اپنی انتخابی مہم کےوعدوں کے برعکس اب وہ کوئی بھی ایسا شدید قدم نہیں اٹھانے جارہے جس کی قیمت شاید یونان نہ چکا پائے۔ یورپی یونین کو بھی شاید اس بات کا ادراک ہے کہ اب یونان ان کی ضرورت نہیں رہا جیسا کہ دو تین سال قبل تھا بلکہ اب یونان کو یورپی یونین کی ضرورت ہے اس لئے یورو زون کا لیڈر ملک جرمنی بارہا یہ تنبیہ کرچکا ہے کہ یونان اپنے قرض کو لیکر معاہدوں کا احترام کرے اور اس بات کا اشارہ بھی دیا گیا ہے کہ عوامی کفایت شعاری کی خلاف ورزی بھی اسے پسند نہیں آئی اور اب کسی بھی صورتحال میں جرمنی یونان کی مدد نہیں کرے گا کیونکہ خود جرمنی میں جرمن عوام کے ٹیکس کے پیسے سے یونان کی مدد کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

سیاسی طور پر یونان میں اقتصادی ابتری کے خلاف عوامی ردعمل پورے یورو زون کے لئے اہم پیغام ہے۔ اقتصادی دباؤ کا شکار یوروزون خاص طور پر اسپین جیسے ممالک جہاں پہلے ہی علیحدگی کی ہوا چل رہی ہے (گو کہ اس میں  جغرافیائی عنصر زیادہ غالب ہے) وہاں کی عوام کے لئے سوچنے کا یہ نیا زاویہ ہوسکتا ہے مگر پھر یہ یونان کی نئی حکومت کی کارکردگی پر منحصر ہوگا کہ دیگر ممالک کی عوام ان کی تقلید کرے یا پھر عبرت پکڑے۔ جہاں تک بات ہے روس کی تو یونان کی نئی حکومت نے سب سے پہلے روس کے سفیر سے مل کر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ انکا جھکاؤ روس کی جانب ہوگا۔ اس سے پہلے الیکسس تسیپراس یورپی یونین کی روس پر پابندیوں پر کڑی تنقید کرچکے ہیں۔

اس صورتحال میں اگر روس مکمل طور پر پشت پناہی کرے تو یونان سرمایہ دارانہ بلاک کے لئے انکے درمیان رہتے ہوئے گلے کی ہڈی بن سکتا ہے۔ مگرامکان غاالب یہی ہے کہ یونان ایسا قدم نہیں اٹھائے گا اور شاید عقلمندی کا مظاہرہ بھی یہی ہوگا کہ دنیا کی دونوں اقتصادی بلاکس سے تعلقات قائم رکھے جائیں۔ فی الحال الیکس تپراس کو اپنے وعدوں کے مطابق قرضہ معاف کروانا ہے، ملک میں پانچ لاکھ نوکریاں پیدا کرنی ہیں اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنی ہیں جس میں توانائی بڑا مسئلہ ہے اور یہ سب  ٹیکس میں چھوٹ دیتے ہوئے کرنا ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ ہوتا کیا ہے کیونکہ گاڑی کا سٹیرنگ ناتجربہ کار ڈرائیور کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے پاس بھی تبدیلی کے دعوے دار موجود ہیں تو یونان کے مسقبل کو دیکھ کر ہم اپنے ہاں بھی ’تبدیلی‘ کے مستقبل کے بارے بھی غور کرسکتے ہیں ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔