چیف صاحب نے ٹھیک کہا

حمید احمد سیٹھی  ہفتہ 31 جنوری 2015
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے 24 جنوری کے روز چکوال بار ایسوسی ایشن کے نو منتخب عہدیداران کی تقریب حلف برداری کے دوران صحیح فرمایا کہ ’’انصاف‘‘ میں تاخیر کے حوالے سے جو انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور انصاف کے طلبگاروں میں جو اضطراب پایا جاتا ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے اور اس حوالے سے عدلیہ اور وکلاء برابر کے ذمے دار ہیں‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ تیسرا فریق جو تاخیری حربوں میں حصہ ڈالتا ہے، فریقین مقدمہ میں سے ایک فریق وہ ہوتا ہے۔

جس کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ مقدمے کا فیصلہ جج کے ریٹائر ہونے یا اس کے مخالف فریق کی موت کے بعد بھی نہ ہونے پائے اور وہ اس سلسلہ میں عدلیہ، اہلکاران عدالت اور اپنے وکیل کو استعمال کرتا ہے۔ تجویز ہے کہ چیف جسٹس صاحب ایک یک رکنی کمیٹی بنا کر کسی تاخیر زدہ مقدمے کی صرف ایک فائل اسے مارک کر کے رپورٹ لے لیں اور وہ اس مقصد کے لیے کسی ایسے ہائی کورٹ بار ہی کے ممبر کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں جو صرف چیمبر پریکٹس کرتا ہو اور بے داغ شہرت رکھتا ہو۔

اس کمیٹی ممبر کی Findings کا خود جائزہ لینے کے بعد جج صاحب تادیبی کارروائی کر کے دیکھیں حالات میں بہتری آ جائے گی۔ میری یہ تجویز اندھے کنویں میں ڈول ڈالنے کے مترادف نہیں ہے۔ خوب سوچی سمجھی اور تجربے و مشاہدے کی بنیاد پر قائم کردہ ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بے شمار مقدمات کا فیصلہ اول فریقین کے بجائے ان کی آیندہ نسلیں سنتی ہیں اور آیندہ نسل دوسری بلکہ بعض اوقات تیسری ہوتی ہے۔

اکتوبر سن 2008ء میں ایک خاتون ملک کی ایک معروف کوریئر کمپنی سے پیدا ہونے والی شکایت لے کر جسٹس (ریٹائرڈ) امیر عالم خان کے چیمبر میں گئی اور ان سے قانونی مدد کی طالب ہوئی۔ خان صاحب نے بات سننے اور دستاویزات ملاحظہ کرنے کے بعد کمپنی کو قانونی نوٹس دینے کے ساتھ انھیں مبلغ Rs.15,82500 ہرجانہ ادا کرنے کا لکھا۔ خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر انھوں نے اپنے چیمبر سے خاتون کی طرف سے Consumer Court میں دعویٰ دائر کروا دیا۔ معاوضے کا یہ دعویٰ مورخہ 10 نومبر 2008ء کو عدالت میں دائر ہوا۔

دعویٰ دائر کرنے کی جو وجوہات تھیں وہ ذہنی اذیت، جذباتی تکلیف، مالی نقصان، رشتہ داروں کے سامنے شرمندگی، اعتماد کو دھچکہ وغیرہ تھیں۔ اب مقدمہ دائر کرنے کے دن سے موصوفہ کو سوا چھ سال ہو گئے وہ فیصلے کی منتظر کم اور اس اذیت سے جان چھڑانے کے لیے کچھ حاصل وصول کرنے کے بجائے کچھ خرچ کرنے کو بھی تیار ہیں۔

خاتون کو عدالت کا دروازہ کٹھکھٹانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ پس منظر یوں ہے پندرہ اگست 2008ء کو کینیڈا میں ان کی بھتیجی کی شادی پر ان کو اپنے بھائی کی طرف سے شرکت کے لیے اصرار تھا۔ ان کے لیے شرکت ممکن نہ تھی لیکن کسی بھی طرح شمولیت کو ممکن بنانے کا حل یہ نکالا کہ تحفے میں بھیجنے کے لیے دوڑ دھوپ کر کے دلہن، دولہا، بھائی اور بھابھی کے علاوہ بچوں کے لیے 17 ڈریسز تیار کیے اور 9 اگست کو ایک معروف کوریئر کمپنی کے حوالے کیے تا کہ تحفے شادی سے دو تین دن پہلے انھیں مل جائیں۔

بھائی کو سرپرائز دینے کے لیے خاتون نے شادی کی تاریخ سے ایک دن قبل کینیڈا فون کیا تا کہ تحفے ملنے کی کنفرمیشن ہو سکے اور ان کی پراکسی لگ جائے ادھر سے لاعلمی کا جواب پا کر پریشان ہوئیں اور کوریئر کمپنی سے رجوع کیا۔ وہاں سے جواب ملا کہ 14 ڈریسز کراچی پہنچے ہیں تین ڈریسز لاہور سے کراچی کے درمیان ٹرانزٹ میں گم یا چوری ہو گئے ہیں لہٰذا کمپنی اس معاملے کی انکوائری کر رہی ہے۔ اس غیر ذمے دارانہ اطلاع نے خاتون کو چکرا کر رکھ دیا۔ اتنی بڑی سبکی پر وہ بیہوش ہوتے بچیں۔ کینیڈا میں مقیم خاتون کی بھابھی کو اس وقت تک پورے واقعے کا یقین نہ آیا جب تک انھوں نے ڈاک میں بھجوائی گئی کوریئر کمپنی کی رسید نہ دیکھ لی۔ واقعہ چھوٹا لیکن فیملی کے لیے بات بڑی تھی۔

Consumer Court میں اس خاتون کی طرف سے کوریئر کمپنی کے خلاف نومبر 2008ء میں دائر کردہ دعوے میں 26 پیشیاں پڑیں جس کے بعد عدالت نے مدعیہ، مدعا علیہ اور گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے علاوہ ریکارڈ ملاحظہ کرنے کے بعد دعویٰ ڈگری کر دیا گیا جس میں پچاس ہزار Damages، وکیل کی فیس مبلغ پچیس ہزار روپے، سروس چارجز کا ریفنڈ اور گمشدہ ڈریسز کی compensation شامل کی گئی۔

یہ فرض کر لیا کہ گمشدہ ڈریسز کے علاوہ باقی تمام ڈریسز کوریئر کمپنی نے کینیڈا بھجوا دیے ہیں جب کہ متاثرین کا موقف ہے کہ نہ تو کوئی ڈریس کمپنی نے کینیڈا بھجوایا نہ ہی مدعیہ کو واپس کیا۔ اب تمام کے تمام ڈریسز کمپنی کے مال خانے میں ہیں اور اگر یہ مال خانہ پولیس کے مال خانے جیسا ہے تو یا وہ تمام ڈریسز خورد برد ہو چکے ہوں گے یا گزشتہ سوا چھ سال کے دوران انھیں دیمک چاٹ چکی ہو گی۔

ایک کیس کا احوال یہاں بیان ہو چکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوریئر کمپنی کے مال خانے یا کباڑ خانے میں پڑے وہ ڈریسز جو انھیں امانتاً بمع سروس چارجز دیے گئے کہ انھیں کینیڈا میں شادی کے تحفے کے طور پر ڈلیور کیا جائے اب شادی شدہ جوڑے کے لیے بھی بے کار ہو چکے کیونکہ شادی والے جوڑے کے اب سوا چھ سال بعد دو بچے پیدا ہو چکے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ موصوفہ مدعیہ خاتون اب خیانت مجرمانہ کا دعویٰ کرنے کا ارادہ کر رہی ہے۔

جناب چیف جسٹس کی چکوال بار ایسوسی ایشن والی تقریر جس میں انھوں نے انصاف میں تاخیر کے حوالے سے بار اور بینچ کو ان کی ذمے داری کا احساس تو دلایا ہے لیکن اب مقدمہ زیر تحریر کے پارٹ ٹو کا ذکر بھی ضروری ہو گیا ہے کیونکہ جس کوریئر کمپنی نے فیس لے کر کلائنٹ کا سامان بک کیا ہو، رسید دی ہو، سامان کا کچھ حصہ چوری یا ضایع کرنا تسلیم کیا ہو، سامان ڈلیور کرنے کے بجائے سوا چھ سال سے اپنی تحویل میں نہ جانے کس حال میں رکھا ہوا ہو۔

جس امانت یعنی ڈریسز کا اب استعمال بھی بے معنی ہو چکا ہو اور اس سے متعلق اپنا کیس بھی 19 جنوری 2010ء کو Consumer Court میں ہار چکی ہو اس کا اپیل میں ہائی کورٹ جانا ایک باعث حیرت بات ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر دو فریق مقدمہ ہوں تو ایک فریق چاہے گا کہ فیصلہ کل کے بجائے آج ہو جب کہ دوسرا فریق کوشاں رہے گا کہ زندگی گزر جائے فیصلہ زیر التوا رہے لیکن بینچ اور بار دونوں جانتے ہیں کہ Justice delayed is justice denied اور جب سیدھا آسان اور روز روشن کی طرح آر پار دکھائی دیتا کیس مدعی یعنی متاثرہ شخص کو ناکوں چنے چبوا دے تو اسے کیا کہا جائے۔

ہمارے ایک دوست جو اعلیٰ انتظامی اور عدالتی عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔ قریبی لوگوں کو اکثر مشورہ دیتے ہیں کہ معمولی تنازعے کو مل بیٹھ کر حل کر لیا کریں۔ تھانے کچہری کا رخ کرنے سے اجتناب کریں تو بہتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔