’’قوم‘‘ نے تہیہ کر لیا ہے

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 31 جنوری 2015
barq@email.com

[email protected]

ایک بہت بڑی سیاسی توپ کا ایک بہت ہی دھماکا خیز بیان آیا ہے۔ اتنا دھماکا خیز کہ شاید ان کے اپنے کان بھی کچھ دیر کے لیے بہرے ہو گئے ہوں گے۔ نام لینے سے فائدہ اس لیے کوئی نہیں ہے کہ ہماری تمام کی تمام بڑی بڑی سیاسی توپیں ایک جیسی ہوتی ہیں، ایک ہی جیسے گولے ڈالتی ہیں اور ایک ہی جیسے دھماکے کرتی ہیں، اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دھماکا کس نے کیا، مطلب یہ کہ کسی نے ایک بچھو سے پوچھا کہ تم لوگوں کا سردار کون ہے۔

بچھو نے کہا جس کی دم پر ہاتھ رکھو گے وہی سردار نکلے گا۔ اس لیے نام کو چھوڑیئے کام بلکہ کلام پر دھیان دیجیے کیونکہ جو دھماکا ہوا ہے ویسے ہی دھماکے تقریباً ساری توپیں یا تو کر چکی ہیں یا کر رہی ہیں یا کرنے والی ہیں۔ چلیے آپ بھی دھماکا سن لیجیے ’’قوم نے دہشت گردی ختم کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔‘‘ بیان میں باقی تو سب کچھ واضح ہے لیکن ’’قوم‘‘ کا لفظ ذرا تشریح طلب ہے۔ یہ ایک لقب ہے جو تقریباً ہر لیڈر یا توپ اپنے لیے استعمال کرتا ہے یعنی ہر بڑی توپ چاہے وہ ائر گن ہی کیوں نہ ہو خود کو ’’قوم‘‘ تصور کرتی ہے اور کہنا کہلوانا پسند کرتی ہے۔

یوں کہئے کہ یہ سیاست میں صوفیانہ بلکہ وحدت الوجود کا سلسلہ ہے جس طرح وحدت الوجود والوں کا کہنا ہے کہ اس کائنات میں صرف ایک ہی وجود کے سوا اور کوئی وجود نہیں، ٹھیک اسی طرح ہر سیاسی توپ کا بھی یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں صرف و ہی وہ ہے قوم بھی وہ ہے، ملک میں بھی وہ ہے وطن بھی وہ ہے اور اس ’’وہ‘‘ کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے، چنانچہ اس توپ نے بھی یہ زبردست انکشاف کر دیا ہے کہ ’’قوم‘‘ نے دہشت گردی ختم کرنیکا تہیہ کر لیا ہے۔

یہ تہیہ کب ہوا ،کیسے ہوا، کہاں ہوا اس کے بارے میں ہم کچھ زیادہ جان کاری نہیں رکھتے لیکن جب سیاسی توپیں کہہ رہی ہیں تو پھر ٹھیک ہی ہو گا کیونکہ سیاسی توپیں جھوٹ تو کبھی بولتیں نہیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں اور وہ بھی اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر بولتی ہیں اس لیے ہم بھی جان اور مان لیتے ہیں کہ قوم نے دہشت گردی کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیا ہو گا اور یہ اشارہ ان سرگرمیوں کی طرف لگتا ہے جو پچھلے دنوں بمقام اسلام آباد میں چل رہی ہیں جنھیں تجربہ کار لوگ اے پی سی کہتے ہیں، معلوم نہیں اس اے پی سی کا مطلب کیا ہے کچھ لوگ اسے آل پارٹیز بھی کہتے ہیں لیکن ہم جیسے نیم پڑھے لوگوں کا دھیان اگر ایک ہندی فلم کی طرف جاتا ہے۔

جس کا نام اے بی سی ڈی… یعنی اپنی باڈی کین ڈانس تھا، یہ انگریزی کے حروف بھی ہم جیسے اردو میڈیم والوں کے لیے معمہ ہوتے ہیں حالانکہ غلط ہے لیکن اے پی سی سے ہمارے ذہن میں اس فلم جیسے مفاہیم آ جاتے ہیں، خیر چھوڑیئے انگریزی کو ماریئے گولی اور اردو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ اب دہشت گردی کی خیر نہیں کیونکہ ’’قوم‘‘ نے اسے ختم کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، یہاں پر اچانک ایک کہانی بلکہ واقعے نے دور سے دم ہلانا شروع کیا ہے بلکہ بنچ پر کھڑی ہو کر ہاتھ بھی ہلا رہی ہے تو چلیے پہلے اس سے نمٹ لیتے ہیں، ہمارے والد کے پاس ایک آدمی ملازم تھا جو چارسدہ کے علاقے دوآبہ کا رہنے والا تھا۔ ایک دن اچانک اس کے خاندان پر ایک افتاد پڑی۔ علاقے کا ایک بدمعاش اور مفرور ان کا درپئے آزار ہو گیا۔

معاملہ کسی لڑکی کا تھا جس کی منگنی ہمارے اس ملازم کے بھتیجے سے ہوئی تھی لیکن وہ بدمعاش اور مفرور اس لڑکی کو اغوا کر کے لے گیا۔ اس پر اس کے جس بھتیجے سے منگنی ہوئی تھی اس نے کچھ تیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاف ماری کہ وہ اس مفرور کو نہیں چھوڑے گا۔ وہ مفرور بڑا ہی قاتل قسم کا تھا چنانچہ اس نے اس کے اس بھتیجے کو بھی قتل کر ڈالا، ہمارے اس نوکر کے کئی بھائی تھے بھرا پرا خاندان تھا چنانچہ یہ لوگ بدلہ لینے کی سعی کرنے لگے خود تو اتنے نہیں تھے لیکن کسی اجرتی قاتل کے ذریعے یہ کام کرنا چاہتے تھے کچھ زیادہ ہی سادہ دل بلکہ بے وقوف لوگ تھے چنانچہ کئی لوگوں نے ان سے پیسے اینٹھے کہ ہم اس مفرور کی ایسی کی تیسی کر دیں گے بعد میں پتہ چلا کہ ان لاف و گزاف پیسے اینٹھنے والوں میں زیادہ تر اس قاتل مفرور کے ساتھی تھے، گویا کم بخت نے تین ظلم کیے، لڑکی بھی لے گیا۔

بھتیجے کو بھی قتل کیا اور اب اپنے ہی ساتھیوں کے ذریعے پیسے بھی اینٹھ رہا تھا، کافی عرصہ اس آج کل میں گزر گیا، بے چاروں کی تھوڑی سی زمین تھی وہ بھی بیچ کر اجرتی قاتلوں کو رقمیں دیں لیکن کسی طور پر بھی اس مفرور کا بال بیکا نہ کر سکے، ایک دن ہمارے اس ملازم کا بھائی آیا ہوا تھا۔ ہمارے والد نے پوچھا، وہ کیا ہوا اس مفرور کا۔ بولا، اب ہم نے فلاں اجرتی قاتل سے بات کی ہے، وہ کام کر دے گا اور اگر اس نے بھی کام نہیں کیا تو پھر ہم خود اپنی کمر باندھ کر بدلہ لیں گے، اس پر میرے والد کو غصہ آیا، بولے کم بختو تمہاری یہ کم بخت ’’کمر‘‘ ابھی تک کھلی ہوئی ہے، اس نے لڑکی اغوا کی، آدمی قتل کیا، پیسے اینٹھے اور تم اب کہیں جا کر ’’کمر‘‘ باندھو گے، تمہاری کمر کی ایسی کی تیسی۔

نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

اس کہانی کا انجام تو پھر یہ ہوا کہ میرے والد کے سخت سست کہنے پر اس شخص نے جا کر ساری روداد اپنے باپ کو سنائی، اس کا بوڑھا باپ ایک دن آیا، رویا گڑگڑایا کہ میرے اس نکمے بیٹوں سے تو کچھ بھی بن نہیں پڑا، عزت بھی گئی جوان بھی گیا اور زمین بھی چلی گئی، خدا کے لیے آپ ہی کچھ کریں، ہمارے والد نے پھر ایک بڑے پولیس افسر سے بات کی، افسر نے علاقے کے ڈی ایس پی سے بات کی اور ڈی ایس پی نے اس خطرناک مفرور اور قاتل کے گرد گھیرا تنگ کر لیا اور یوں وہ پولیس کے ہاتھوں انجام کو پہنچا، اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم اس کہانی کے کرداروں کے ’’کمر باندھنے‘‘ کو ’’تہیہ‘‘ سے ملا رہے ہیں تو غلط سمجھ رہے ہیں بھلا تہیہ کرنے اور کمر باندھنے میں تعلق ہی کیا ہے، اس شخص کے بیٹے تو بیکار اور نکمے لوگ تھے جو اتنے عرصے بعد کہیں جا کر کمر باندھنے کا ارادہ کر رہے تھے لیکن ہماری قوم جو لیڈروں سے عبارت ہے ویسی نہیں ہے۔

اس نے دہشت گردی کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیا ہے تو کر لیا ہے اب دہشت گردی کی خیر نہیں، کوئی معمولی تہیہ ہے وہ تو بے چارے ذرا دوسرے ’’ضروری کاموں‘‘ میں مصروف تھے اس لیے ’’تہیہ‘‘ کی باری نہیں آ رہی تھی، لیکن اب تو یہ ’’تہیہ‘‘ کر چکے ہیں کوئی جا کر صف دشمنان کو خبر کر دے کہ بھئی قوم (سیاسی) نے تہیہ کر لیا ہے کہ اب اس ملک میں یا ہم رہیں گے یا دہشت گردی بلکہ خود ہمارا جی چاہنے لگا ہے کہ تھوڑی سی سعادت ہم بھی حاصل کریں اور گلے میں یہ ایک بڑا سا ڈھول ڈال کر بجائیں کہ سنو سنو… اب میرا ’’تہیہ‘‘ آ گیا ہے۔

یہاں پر وہ ایک اور کہانی بڑی تیزی سے دم ہلا رہی ہے اور ہم سنائے بغیر رہ بھی نہیں سکتے لیکن آپ سے پہلے ہی استدعا کرتے ہیں کہ اس کہانی کا تعلق کسی سے جڑنا محض اتفاق ہو گا، اس کے سارے کردار، مکالمے اور اسکرین پلے محض فرضی ہیں اس لیے روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ بلکہ روسیاہ ست، ہمارے محلے میں ایک لڑکا تھا جو یوں بھی تھا اور یوں بھی بے چارے میں یہ مینوفیکچرنگ فالٹ تھا کہ زمرے کے لحاظ سے تو ’’ہیوں‘‘ میں آتا تھا کہ لڑکا تھا لیکن باقی سب کچھ شیؤں کا تھا، آواز انداز لہجہ زبان چلت پھرت سب کچھ لڑکیوں والا تھا، ایک دن محلے کے ایک شخص سے اس کی لڑائی ہوئی اور اس شخص نے اسے تھپڑ مار دیا اس وقت تو روتا ہوا گھر چلا گیا لیکن دوپہر کو جب اس کا بڑا آ گیا تو اس سے شکایت کی، اور اپنا بدلہ لینے کے لیے کہا، بھائی نے بھی حامی بھر لی کہ میں اس شخص کو دیکھ لوں گا اس پر وہ دوڑ کر نکل گیا اور اس شخص کے دروازے پر کھڑے ہو کر زور زور سے چلانے لگا کہ اے بزدل اب ذرا نکل کر تو دکھانا، میرا لالہ آ گیا ہے۔

کافی دیر تک چلانے اور لالہ کی آمد کا ڈراوا دینے پر آخر کار وہ شخص گھر سے نکل آیا، ادھر سے اس کا لالہ بھی شور سن کر نکلا فوراً اپنے لالہ کے پاس آ کر بولا، اس مسٹنڈے نے مجھے تھپڑ مارا ہے، وہ پڑوسی اس کے بھائی کا اچھا یار دوست تھا چنانچہ دونوں نے مسکرا کر آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کی اور لالہ نے اس سے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے کہا کہ تم بھی جا کر اسے تھپڑ مارو، ہی + شی دوڑ کر اس شخص کے پاس پہنچا اور اپنے نازک ہاتھ کو تقریباً ایک انچ کے فاصلے سے تھپڑ مارنے کے انداز میں لگایا۔

اس قصے کے بارے میں تو ہم نے پہلے یہ وضاحت کی کہ کسی سے مطابقت محض اتفاقیہ ہو گی لیکن وہ پہلی والی کہانی جس میں ’’قوم‘‘ کے ’’تہیے‘‘ یا کمر باندھنے کا ذکر ہے وہ فرضی نہیں بلکہ حسب حال ہے کیوں کہ اس کا کلائمکس یہ تھا کہ بالاخر ان کی کمر باندھنے کے بجائے اس بدمعاش اور اجرتی کو پولیس نے انجام کو پہنچایا، اور ’’بھائی‘‘ کمر باندھنے کے ارادے ہی کرتے رہ گئے۔ سو اس کہانی میں دہشت گردی کا خاتمہ تو فوج کرے گی اور ’’قوم‘‘ صرف تہیہ باندھتے باندھتے اپنا کام چلاتی رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔