سابق گورنر کا کیا بنے گا

عبدالقادر حسن  ہفتہ 31 جنوری 2015
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

وطن عزیز پاکستان جیسے انتہائی بگڑے ہوئے ملک میں کسی لکھنے والے کے لیے موضوعات کی کوئی کمی نہیں کیونکہ اس کی ہر کَل بگڑی ہوئی ہے اور اس میں گزرنے والا ہر لمحہ اپنے ساتھ ایک نیا موضوع لے کر آتا ہے لیکن روزانہ لکھنے والے بھی اس کے موضوعات سے تنگ آ جاتے ہیں اس لیے کہ ہر موضوع دلخراش ہوتا ہے اور اس پر لکھنے میں دل مزید دکھنے لگتا ہے۔

خدا بھلا کرے پنجاب کے مستعفی گورنر جناب چوہدری محمد سرور صاحب کا جنہوں نے آپ بیتی اور ہڈبیتی بیان کر کے سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے۔ یہ کسی گورنر کی نہیں ایک دل جلے بے پناہ محب وطن کا واویلا ہے۔ پوری قوم نے شاید پہلی بار کسی مستعفی اہم حکمران کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی اس کے دل کے ساتھ دل ملایا ہے۔ ملک بھر میں اخباری مضامین لکھنے والے گورنر سرور کے استعفیٰ پر لکھ رہے ہیں۔

کالم نگار بھی اور ان کے علاوہ مضمون نگار بھی جو اپنے مضمونوں کو کالم کا نام دیتے ہیں بہرکیف اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اور اتنا کچھ لکھا جائے گا کہ اس پر مزید کچھ عرض کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی سوائے اس شکریے کے جو پوری قوم گورنر صاحب کا صدق دل سے ادا کر رہی ہے۔ تعجب ہے کہ میاں صاحبان جو اپنے ساتھیوں کو ٹھونک بچا کر کوئی منصب دیتے ہیں اور یہ ٹھونکنا بجانا بعض اوقات اسی حد تک طول بھی کھینچ جاتا ہے کہ بعض نہایت ہی اہم عہدے موزوں یعنی ٹھونک بجا کر معیار خاص پر پورا نہ اترنے والے کے دستیاب نہ ہونے سے خالی بھی رہ جاتے ہیں اور ضروری سرکاری کام مؤخر ہوتے رہتے ہیں لیکن کسی کی بددعا لگی یا کیا ہوا کہ میاں صاحبان ایک نہایت ہی اہم عہدے پر اپنی مشہور زمانہ مردم شناسی میں مار کھا گئے اور ایک ایسے بے ضرر شخص کو جو ان کی طرح کاروباری تھا پنجاب جیسے صوبے کی گورنری پر مامور کر بیٹھے۔

خدا جانے انھوں نے کیا سمجھا شاید اپنی کاروباری برادری کے ایک کامیاب شخص کو قابل اعتبار جانا یا اس سے بیرون ملک کاروباری کامیابی کا ہنر سیکھنا تھا لیکن ان کو بظاہر اس کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ہر فن مولا ہیں اور اقتدار کے حالیہ دور سے پہلے کے مقتدرانہ ادوار میں وہ ایک واقعی شریف اور مشفق دوست کی طرح حکومت کرتے رہے لیکن اقتدار کے اس نئے دور میں نہ جانے ان کو کیا ہو گیا کہ وہ اپنے سیاسی مرکز پنجاب جیسے صوبے میں ایک حساس اور دیانت دار شخص کو بڑے ہی اہم عہدے پر بٹھانے کے مرتکب ہو گئے۔ انھوں نے تو اپنی اس پسند کو پنجاب ہی نہیں پورے ملک کی سب سے بڑی رہائش گاہ میں لا بٹھایا۔

جو بذات خود ایک ریاست ہے اور اس میں بے موسما ہر موسم بھی آتا ہے مثلاً گرمیوں میں اس کا ایک گوشہ ایسا تعمیر کیا گیا ہے جہاں سخت سردی کا احساس ہوتا ہے۔ مشینی سہی لیکن یہ کپکپا دینے والی سردی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ میں نے بھی اسے محسوس کیا تھا۔ یہاں بچوں کا ایک اسکول بھی ہے اور ایک ڈیری فارم بھی، شہد کے چھتے بھی ہیں اور انواع و اقسام کے کھانوں کی تیاری کا ایک خصوصی باورچی خانہ بھی۔ ایک چھوٹا سا باغ اور سبزی اگانے کا بندوست بھی ہے۔ شاید آپ کو تعجب ہو کہ ایک خاص دکان بھی ہے جہاں بازار سے سستا سودا ملتا ہے اور یہ عمارت تو ہے ہی ایک تاریخی عمارت جو ایک سکھ سردار اور حاکم کی خصوصی رہائش گاہ تھی بعد میں یہ انگریز حکمرانوں کی تحویل میں آ گئی جنہوں نے اس کو چارچاند لگا دیے۔

قیام پاکستان کے بعد یہاں ملک غلام مصطفی کھر صاحب جیسے گورنر بھی رہے جنہوں نے اس تاریخی مقام کے اندرونی کلچر کو چارچاند لگا دیے۔ کھر صاحب گورنری سے پہلے کہا کرتے تھے وہ گورنر بن کر گورنر ہاؤس کے قریب کسی خیمے میں رہیں گے لیکن یہ تو شاعرانہ اور انقلابانہ باتیں تھیں جب وہ گورنر بن کر یہاں داخل ہوئے تو اس کی بلند دیواروں کے اوپر پہلی بار لوہے کی تاریں لگائی گئیں جو اب تک لگی ہوئی ہیں اور یہاں گورنر ہاؤس کے گیٹ کے باہر رکشے بھی آنے جانے شروع ہو گئے۔

اسی بدلے ہوئے اور ایکڑوں میں وسیع و عریض ہاؤس میں جناب چوہدری سرور صاحب کو آرام کے لیے لا بٹھایا لیکن اس ہاؤس کی حیران کن خوبیاں اور سہولتیں ان کے مزاج کو راس نہ آئیں اور وہ پہلے تو حالات پر مختلف انداز میں کئی موقعوں پر اظہار ناپسندیدگی کرتے رہے اور جب باز نہ آئے تو بالآخر وہ کرائے کے ایک گھر میں منتقل ہو گئے اور اس عجیب و غریب ہاؤس کو چھوڑ دیا۔ انھوں نے خود چھوڑا یا چھڑایا گیا یہ سب بے معنی باتیں ہیں۔ وہ جس قسم کے ماحول اور حالات کے عادی بن چکے تھے پاکستان ان کا ہلکا سا عکس بھی نہیں تھا۔ وہ برطانیہ سے آئے تھے جہاں وہ ایک کامیاب کاروباری زندگی بسر کر رہے تھے جو انھوں نے اپنے دست ہنر اور محنت سے تعمیر کی تھی جب کہ وہ ان کے بقول پاکستان میں بسوں کے اڈوں پر گرم انڈے فروخت کیا کرتے تھے۔

وہ برطانیہ گئے تو وہاں کے خوبصورت اور قانون قاعدے کے پابند ماحول میں زندہ رہے۔ یہاں پاکستان میں صورت حال اس کے بالکل برعکس تھی۔ بہت پہلے ہمارے ایک عزیز از جان مرحوم دوست عبدالرزاق متوطن لندن کے بیٹے اپنے ملک کے شوق میں یہاں آئے لیکن چند دن بعد یہاں کے ماحول سے گھبرا کر واپس دوڑ گئے۔ ایک بیٹا کہنے لگا کہ چچا جان یہاں دکان پر جائیں تو دھوکا، کسی دفتر میں جائیں تو رشوت، ہم تو ان حالات سے پریشان ہو گئے ہیں اور نیا گھر بیچ کر واپس جا رہے ہیں۔ میں نے اس بچے سے کہا کہ ہماری داد دو جو ان حالات میں بھی یہاں ڈٹے ہوئے ہیں لیکن اس کے برعکس گورنر چوہدری سرور صاحب اسی ماحول میں رہیں گے اور حالات کے خلاف ایک نئی جنگ شروع کریں گے۔ وہ ایک نیک نام شخص ہیں اور ان کی شہرت بہت اچھی ہے۔

اگر کسی سیاسی پارٹی میں نہ پھنس گئے اور پھنسانے والے جال لگا کر تاک میں بیٹھ گئے ہیں۔ یہی کیا کم ہے کہ لوگ یورپی ملکوں کی شہریت پر ناز کرتے ہیں اور یہ برطانوی شہریت کو ترک کر کے پاکستان آئے ہیں۔ ہمارے ایک بڑے لیڈر شیخ الاسلام طاہر القادری صاحب ملکہ برطانیہ کے ایک محکوم ملک کینیڈا کی شہریت بھی چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔

جناب سابق گورنر صاحب سے پھر سے درخواست ہے کہ وہ اب جب پاکستان میں مقیم رہیں گے تو کوشش کریں کہ اپنی بے داغ زندگی پر کوئی پاکستانی داغ نہ لگنے دیں۔ وہ اپنی جو شخصیت ثابت کر چکے ہیں وہ ہم پاکستانیوں کے لیے بالکل نئی بلکہ بڑی حد تک ناقابل یقین بھی ہے۔ ہماری یہ دلی اور روحانی خواہش ہے کہ وہ اپنی اسی شخصیت کی جگمگاہٹ کے ساتھ ہمارے اوپر ضوفشاں رہیں اور ہمارے اندھیروں کو اجالوں میں بدل نہ سکیں تو اس قوم کو اجالوں کی ایک جھلک ضرور دکھا دیں۔ ان کی مہربانی ہو گی ورنہ ہم تو اس دنیا میں چار و ناچار اپنا وقت گزار ہی لیں گے البتہ مولانا حسین احمد دیوبند کے بقول

گزر تو جائے گی تیری بغیر بھی لیکن
بہت اداس بہت بے قرار گزرے گی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔