اشرفیوں کی تھیلی اور جو کی روٹی

رئیس فاطمہ  ہفتہ 31 جنوری 2015
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

سلطان محمود غزنوی اولیائے کرام سے دلی عقیدت رکھتا تھا۔ وہ اکثر اپنے دربار میں امراء و عمائدین سے روحانی موضوعات پہ بات کیا کرتا تھا۔ ایک دن ایک امیر نے جس کا نام عبدالرحمن تھا،کچھ کہنے کی اجازت طلب کی۔ شاہ نے اجازت مرحمت فرمائی تو اس نے کہا کہ ’’خرقان میں ایک ایسے ولی اﷲ موجود ہیں جن کے پیر و مرشد حضرت بایزید بسطامیؒ ہیں۔ ان کا نام شیخ ابوالحسن ہے۔میری استدعا ہے کہ آپ بھی ان کے نیاز حاصل کریں، آپ کو روحانی خوشی محسوس ہو گی۔‘‘

سلطان محمود غزنوی نے اپنے حلقۂ احباب کے ساتھ خرقان جانے کا پروگرام بنایا اور خرقان جا پہنچا۔ عبدالرحمن نے ایک قاصد کو ہمراہ لیا اور شیخ کی خانقاہ میں جا پہنچا۔ قاصد نے شیخ کو سلطان کا پیغام دیا اور بتایا کہ سلطان محمود خود چل کر آپ کی زیارت کے لیے غزنی سے تشریف لائے ہیں اور خواہش مند ہیں کہ آپ شاہ کے خیمے پر تشریف لائیں۔

شیخ ابوالحسن نے فرمایا ’’مجھے اس ملاقات سے معذور جانو‘‘ قاصد نے حسب حکم سلطان، قرآن مجید کی وہ آیت پڑھ کر سنائی جس کا مفہوم تھا ’’اطاعت کرو اﷲ کی اور اس کے رسولؐ کی اور حاکم کی جو تم میں سے ہو‘‘ آیت سن کر شیخ نے فرمایا کہ میں ابھی ’’اطیعواﷲ‘‘ میں ایسا غرق ہوں کہ ’’اطیعو الرسول‘‘ کے معاملے میں نادم و شرمسار ہوں۔ کاش میں اپنی زندگی میں اطاعت رسول کا مقام حاصل کر سکوں‘‘ یہ کہہ کر شیخ زار و قطار رونے لگے۔

پھر کچھ دیر توقف کیا اور فرمایا ’’سلطان سے کہنا کہ ایسی صورت میں حاکم کی اطاعت کی جانب کیونکر متوجہ ہو سکتا ہوں۔ ابھی تو ابتدائی منزل میں ہوں۔ قاصد اور امیر عبدالرحمٰن نے واپس جا کر سلطان کو تمام احوال بتا دیا۔ شیخ ابوالحسن کا جواب سن کر سلطان محمود آبدیدہ ہو گیا اور دیوانہ وار بغیر کسی اہتمام کے شیخ کے خیمے کی طرف روانہ ہو گیا۔

جب سلطان خانقاہ میں داخل ہوا تو شیخ مصلیٰ بچھائے بیٹھے تھے۔ سلطان ادب سے دو زانوں ہو کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ شیخ نے آنے کی وجہ پوچھی تو سلطان نے کہا کہ وہ صرف حضرت کا دیدار کرنے اور نصیحت لینے آیا تھا۔ خاصی دیر تک وہ شیخ ابوالحسن کی باتیں سنتا رہا اور جب واپسی کی اجازت چاہی تو شیخ سے کہا کہ وہ اسے کچھ ایسی نصیحتیں کریں جو دین و دنیا دونوں میں کام آئیں۔ شیخ نے فرمایا (1) ایسی چیزوں سے پرہیز کرو جن سے اﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔

(2) حقوق العباد کا خاص خیال رکھو۔ (3) خلق خدا کے ساتھ نرمی اور ہمدردی سے پیش آؤ۔ (4) سخاوت اور رحم دلی کو اپنا شعار بناؤ۔ جاتے جاتے سلطان نے عرض کی کہ خاص طور سے شیخ اس کے لیے دعا فرمائیں۔ شیخ ابوالحسن نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھا دیے اور کہا ’’محمود ۔ اﷲ تیری عاقبت سنوارے‘‘ دعا کے بعد سلطان نے اشرفیوں کی ایک تھیلی بطور نذرانہ شیخ کی خدمت میں پیش کی۔ شیخ نے وہ تھیلی لے کر ایک طرف رکھ دی اور سلطان کے آگے جو کی ایک روٹی رکھ کر کہا کہ ’’تمہاری دعوت کے لیے یہی جو کی روٹی ہے۔

اسے کھاؤ اور میری دعوت قبول کرو‘‘ بادشاہ نے ایک نوالہ جو کی روٹی کا توڑ کر منہ میں رکھا تو نگلا نہ گیا کہ سلطان کا حلق ایسی سخت غذا کا شناسا نہ تھا۔ شیخ نے نوالہ اٹکتا دیکھا تو پوچھا ’’کیا ہوا؟۔ کیا نوالہ اٹک رہا ہے؟‘‘ سلطان نے بمشکل اثبات میں سر ہلایا تو شیخ نے اشرفیوں کی تھیلی اس کو واپس کرتے ہوئے کہا ’’یہ اشرفیوں کی تھیلی بھی میرے حلق میں اٹک جائے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح تمہارے حلق میں جو کی روٹی اٹک گئی۔ کیوں کہ یہ بادشاہوں کی خوراک نہیں ہے، بلکہ یہ اشرفیاں ان کی خوراک ہیں۔

ان اشرفیوں کی تھیلی کو فوراً اٹھا لو، ان پر نہ تمہارا حق ہے نہ میرا، یہ قوم کی امانت ہیں، اگر تم ان کو قوم کی مرضی کے خلاف خرچ کرو گے اور رعایا سے خیانت کرو گے تو عذاب الٰہی کسی نہ کسی صورت میں تمہارا مقدر بنے گا۔ جا اور امانت میں خیانت کا مرتکب نہ بن‘‘ سلطان دم بخود رہ گیا اور خود کو شیخ کے سامنے نہایت حقیر محسوس کرنے لگا۔ پھر اس نے اشرفیوں کے متعلق پوچھا کہ وہ ان کا کیا کرے تو شیخ نے جواب دیا۔ ’’ان اشرفیوں کو ان سفید پوش ضرورت مندوں میں تقسیم کر جو بظاہر مسکین اور غریب نظر نہیں آتے، کہ ان کی خاندانی شرافت اور اعلیٰ نسبی انھیں ہاتھ پھیلانے سے روکتی ہے۔

وہ بظاہر آسودہ حال ہیں لیکن مفلسی نے ان کے سینوں کو زخمی کیا ہوا ہے۔ یہی سب سے زیادہ ان اشرفیوں کے مستحق ہیں۔ اگر تو نے ان اشرفیوں کو اپنے خاندان اور قریبی رشتے داروں میں تقسیم کیا تو یاد رکھ قیامت کے دن یہی حسرت زدہ اور تنگ دست خدا کے سامنے تیرا گریبان پکڑ کر انصاف مانگیں گے تب تیرا ٹھکانہ کہاں ہو گا، اس کا ادراک تجھے ہونا چاہیے۔ تجھے خدا نے رعایا کا نگہبان بنایا ہے نہ کہ اپنے خزانے بھرنے کا حق دیا ہے‘‘ سلطان محمود وہاں سے رخصت ہوا تو قلب ماہیت ہو چکی تھی۔ وہ سلطان سے فقیر بن چکا تھا۔

حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی کا مقام اولیائے کرام میں بہت بلند ہے۔ اپنے وقت کے معروف صوفی اور شاعر فرید الدین عطار (استاد حافظ) نے ’’تذکرۃ اولیاء‘‘ میں شیخ کا ذکر نہایت ادب سے کیا ہے۔ انھوں نے شیخ کو ’’سلطان سلاطین مشائخ‘‘ کہا ہے ان کے علاوہ مولانا رومی، فرید الدین عطار، خواجہ عبداﷲ انصاری، جامی اور دیگر شعرا نے بہت سے اشعار عقیدت کے طور پر شیخ کے لیے کہے ہیں۔

شیخ ابوالحسن 962 عیسوی بمطابق 325 ہجری میں خرقان میں پیدا ہوئے اور 10 محرم 1033ء/ 425 ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ شیخ کے ملفوظات میں فلسفیانہ نظریات کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مریدوں نے ان کی وفات کے بعد ان کے ملفوظات کو ’’نورالعلوم‘‘ کے نام سے ایک کتابی شکل میں مرتب کیا جس کا صرف ایک ہی نسخہ دستیاب ہے۔ جو برٹش میوزیم کی لائبریری میں موجود ہے۔ شیخ نے خانقاہ کے دروازے پہ لکھوا رکھا تھا کہ ’’ہر وہ شخص جو یہاں آئے گا۔ اسے کھانا دیا جائے گا۔

اس سے اس کے عقیدے، مسلک یا مذہب کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں کوئی صوفی نہیں ہوں نہ ہی سائنس کا کوئی علم رکھتا ہوں، نہ ہی کوئی پرہیزگار انسان ہوں، اے خدا تو واحد ہے۔ میں تیری یکتائی کا حصہ ہوں۔ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی انسان کو خوشی اور مسرت کیسے دے سکتا ہوں کہ تیری خوشنودی اور میری روحانی خوشی اسی میں ہے‘‘

ایک شخص سے سوال پوچھا گیا کہ ’’تم نے خدا کو کہاں پایا؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’جب کبھی مجھے اپنا آپ نظر نہیں آیا‘‘ اس پوری کائنات میں جو کچھ ہے وہ اس کا عکس تمہارے دل میں بھی موجود ہے، تم میں اتنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ اسے دیکھ سکو، محسوس کر سکو، محبت خدا ہے، جو شخص کسی کی بھی محبت میں گرفتار ہوا اسے خدا مل گیا، جسے خدا مل گیا وہ اپنی ذات بھلا بیٹھا۔‘‘شیخ ابوالحسن فلسفہ وحدت الوجود کے قائل تھے اور خلق خدا سے محبت کو عشق الٰہی کا زینہ جانتے تھے۔ غالبؔ کے اس مصرعے کی تشریح بھی یہی ہے یعنی:

عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
جب سے دنیا آباد ہوئی ہے خدا نے ہمیشہ اولیاء اور صوفیائے کرام کے ذریعے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ حیات ابدی کا مطلب ہے مرنے کے بعد بھی لوگوں کے لیے زندہ رہنا اور لوگوں میں بلا تفریق مذہب و مسلک پیار بانٹنا۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام کے مزارات اور درگاہوں پہ کسی آنے والے سے اس کا مذہب، مسلک یا عقیدہ نہیں پوچھا جاتا، کہ گلاب، موتیا، چنبیلی، موگرہ اور رات کی رانی کی مسحور کن خوشبو سب کے لیے یکساں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔