’’بھگوڑے‘‘ کی واپسی

تنویر قیصر شاہد  منگل 10 فروری 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے برعکس، بھارت کے مرکزی دارالحکومت کی منفرد حیثیت ہے۔ دہلی کو نہ صرف بھارت کی راجدھانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ یہ ریاست اور صوبے کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ دوسرے بھارتی صوبوں کی طرح اس کا بھی علیحدہ ایک وزیراعلیٰ ہوتا ہے اور اسمبلی بھی۔ ستّر نشستوں والی اسمبلی۔ گزشتہ برسوں کے دوران تقریباً دس وزرائے اعلیٰ یہاں حکمرانی کرچکے ہیں۔

ان میں کانگریس دور کے وزرائے اعلیٰ کو غالب حیثیت حاصل رہی ہے۔ دوبار خواتین بھی وزیراعلیٰ کی بلند کرسی پر فائز رہی ہیں۔ شیلا ڈکشٹ اور سشما سوراج۔ شیلا ڈکشٹ صاحبہ، جنھیں کانگریس کی حمایت اور امداد حاصل رہی، تین مرتبہ دہلی کی وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب رہیں۔ مسلسل پندرہ برس دہلی کی بارسوخ اور طاقتور حکمران۔ بی جے پی کی اعانت یافتہ اور لڑاکا صفت سیاستدان سشما سوراج بھی دہلی کی وزیراعلیٰ بنیں لیکن کچھ عرصہ کے لیے۔ یہ وہی سشما سوراج ہیں جو کبھی بھارت کی وزیرِ اطلاعات بھی رہی ہیں اور آجکل بھارت کی وزیرِخارجہ ہیں۔

گزشتہ برس، اسی مہینے کے انھی ایام میں بھارت سمیت ساری دنیا نے دہلی میں جنم لینے والے ایک ’’عظیم سیاسی ڈرامے‘‘ کا نظارہ کیا۔ یہ ایسا ’’ڈراما‘‘ تھا جس کے ’’اسٹیج‘‘ کے تقریباً سارے کردار عام لوگ تھے، غریب دنیا کے باسی، بے نوا لیکن وہ بھارت کی ہیئتِ مقتدرہ کو منقلب کرنا چاہتے تھے۔ ان کے لیڈر بھی ایک زیریں متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ ایک ایسا فرد تھے جس نے تازہ تازہ ایک درمیانہ درجے کے سرکاری افسر کی حیثیت میں ملازمت سے استعفیٰ دیا تھا اور اب عام بھارتیوں اور پسماندہ طبقات کی نمایندگی کا دعویٰ لے کر انھیں نجات دلانے کا اعلان کررہا تھا۔

اس شخص کا نام تھا: اروند کجریوال۔ اس نے اپنے نئے سیاسی اسٹیج کا نام رکھا: عام آدمی پارٹی (AAP) یہ واقعہ ہے کہ اس پارٹی میں خواص نہیں، عام لوگ ہی شامل تھے۔ کلرک، پروفیسر، دیہاڑی دار، سیاسی جماعتوں کے غیر معروف کارکنان جنھیں دوسری سیاسی جماعتوں نے محض دریاں بچھانے اور ڈھول بجانے کے کام سونپ رکھے تھے۔ اروند کجریوال، جس نے کرپٹ بھارتی سیاست کے ایک باغی (انّا ہزارے) کے عملی اور مؤثر احتجاج سے تربیت اور فیض حاصل کیا تھا، نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کو متعارف کروایا تو عام سیاسی مگر تجربہ کار ورکرز جوق درجوق اس میں شامل ہونے لگے۔

عام لوگوں کی اس نئی جماعت کے نعرے بھی عسرت زدہ طبقات اور خاک نشینوں کے لیے بڑی کشش کا باعث تھے: سستی بجلی کی فراہمی، دہلی کے گندے مندے علاقوں اور جھگیوں جھونپڑیوں میں رہنے والوں تک دن میں تین بار باقاعدہ اور مفت پانی کا پہنچانا، رشوت خوری کا خاتمہ، پٹواریوں اور تھانے داروں اور لینڈ مافیا کی دست درازیوں سے نجات۔۔۔ ایسا منشور اور دستور سامنے لایا گیا کہ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ غریب غربا کے لیے خاص پارٹی بن گئی۔

اس کی رکنیت سازی کی مہم سو فیصد کامیاب رہی۔ کانگریس اور بی جے پی ایسی مراعات یافتہ، مقتدر اور متعصب جماعتیں اس نئی پارٹی کی غریب طبقات کے اندر تک رسائی اور سرائیت سے جڑوں تک ہل کر رہ گئیں۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کا انتخابی نشان ’’جھاڑو‘‘ رکھا گیا جو اپنی معنویت اور پیغام رسانی میں لاجواب تھا۔ الیکشن کا رَن پڑا تو AAP نے واقع معنوں میں دہلی میں جھاڑو پھیر دیا۔ کانگریس اور بی جے پی والے، جن کے پاس ارب پتی سیاستدان بھی تھے اور ہتھیاروں سے لیس غنڈے بھی، اروند کی فتح پر انگشت بدنداں رہ گئے۔

اروند کجریوال دہلی کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ یہ بھارت کی سیاسی تاریخ کا سب سے منفرد اور حیرت خیز منظر تھا۔ ریاستِ دہلی کا حکمران جھاڑو تھا۔ غریبوں کے لیے عظمت و افتخار کا نشان اور امرا کو نادم کرنے والا جھنڈا۔ برسرِاقتدار آتے ہی اروند کجریوال اور ان کے ساتھیوں نے اپنے منشور پر عمل کرنا شروع کردیا۔ دہلی بھر میں بجلی کے نرخوں میں تیس فیصد کمی کردی گئی۔ وعدوں کے مطابق عُسرت زدہ لوگوں اور جھگی نشینوں تک مفت اور صاف پانی پہنچنے لگا۔ تھانوں اور پٹوار خانوں میں رشوت خوروں پر ہاتھ ڈالا جانے لگا۔ دہلی میں واضح طور پر محسوس ہوا کہ کچھ نیا نیا ظہور پذیر ہو رہا ہے۔ اسٹیٹس کو کی بنیادیں ہلنے لگیں۔ بگڑے ہوئے دہلی سماج کی وہ طاقتیں جن کی زندگیاں محض کرپشن اور ظلم و تعدی پر استوار تھیں، چند دنوں ہی میں عام آدمی کی حکومت سے نالاں تھیں۔

یہ منظر ان کے لیے قطعی طور پر قابلِ قبول نہ تھا؛ چنانچہ جب کرپشن، مالی بدعنوانی، رشوت ستانی، لینڈ مافیا، بھتہ خوری وغیرہ کو سخت قانون کے تحت ممنوع و قابلِ سزا قرار دینے کے لیے اروند کجریوال کی قیادت میں آئین سازی کی جانے لگی تو سماج کی مذکورہ بالا قوتیں ’’عام آدمی پارٹی‘‘کے سامنے آکھڑی ہوئیں۔ مزاحمت کے پہاڑ کھڑے کیے جانے لگے۔ کانگریس اور بی جے پی نے ایکا کرلیا تاکہ اروند اور ان کے ساتھیوں کو ناکام و نامراد بنایا جاسکے۔ چنانچہ ہوا بھی ایساہی۔ مزاحم قوتیں اتنی یک جہت اور منہ زور تھیں کہ اروند صاحب کی ہمتیں ٹوٹنے لگیں۔ انھیں پہلی بار احساس ہوا کہ طاغوتی قوتوں سے پنجہ آزمائی آسان کام نہیں۔

اس کے لیے استقامت بھی درکار تھی اور صبر بھی چاہیے تھا لیکن ’’عام آدمی پارٹی‘‘کا سربراہ غصے میں آگیا۔ عجلت میں انھوں نے دہلی کی وزارتِ علیا سے استعفیٰ ہی دے دیا۔ وہ صرف 49دن حکمران رہے۔ ووٹر ناراض تھے کہ اروند کجریوال کم ہمت ٹھہرے۔ چنانچہ بعض جگہ، گزشتہ برس قومی انتخابات کے دوران، ان کا استقبال جوتوں اور گھونسوں سے کیا گیا۔ ان کے سیاسی مخالفین نے انھیں ’’بھگوڑا‘‘ کے لقب سے یاد کیا۔ اپنی ذمے داریوں سے فرار ہونے والا۔ بی جے پی نے اس ’’لقب‘‘ میں مزید رنگ بھرا۔

یہ ’’بھگوڑا‘‘ اب پھر واپس آگیا ہے۔ اروند کجریوال اور ان کی ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے ریاستِ دہلی، جو ایک سال سے صدارتی فرمان کے ماتحت بروئے کار تھی، کے انتخابات پچاس فیصد سے زائد اکثریت کے ساتھ جیت لیے ہیں۔ بی جے پی اور کانگریس بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہی ہیں۔ نریندر مودی کو شکست کا یہ دوسرا زخم لگا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں بھی ان کی پارٹی جیت نہ سکی اور دوسرے نمبر پر رہی۔ یوں سری نگر پر بی جے پی کے اقتدار کا پرچم لہرانے کی آرزو پوری نہ ہوسکی۔ اور اب دہلی میں اروند کجریوال کی یہ فتح خصوصی طور پر وزیراعظم نریندر مودی کے لیے بہت ندامت، شکست خوردگی اور پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ آیندہ ایام میں بھی یہ ’’بھگوڑا‘‘ بہت سے سرکاری اور سیاسی معاملات میں وزیراعظم ہند کے لیے مزید پریشانیوں اور ندامتوں کا باعث بنتا رہے گا۔

بی جے پی نے، سشما سوراج اور شیلا ڈکشٹ کی طرح، اپنی ایک خاتون سیاستدان (کرن بیدی) کو انتخابات میں اتارا تھا تاکہ انھیں دہلی کی وزارتِ اعلیٰ سونپی جاسکے لیکن یہ سابق پولیس افسر خاتون کامیاب نہ ہوسکی۔ وزیراعظم نریندر مودی خود کرن بیدی، جو کبھی انا ہزارے کی تحریک میں اروند کجریوال کے ساتھ رہی تھیں، کو فتح سے ہمکنار کروانے کے لیے انتخابی میدان میں اترے لیکن کامیابی ان کا مقدر نہ بن سکی۔ ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مودی جی کے دل پر کیا گزرتی ہوگی لیکن انھوں نے مسکراتے ہوئے زہر کا یہ گھونٹ نوش کرکے جمہوریت پسند ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ ’’جھاڑو‘‘ ایک بار پھر دہلی کا حاکم نظر آرہا ہے۔

یہ دہلی کے غریب ووٹروں اور بھارت بھر کے جھگی نشینوں کے لیے امید اور فتح کا مظہر بھی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ وزیراعلیٰ بن کر اروند کجریوال عجلت کا مظاہرہ کریں گے نہ غصے سے مغلوب ہوں گے۔ انھوں نے اور ان کی ’’عام آدمی پارٹی‘‘نے اپنی سابقہ غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ تحمل اور بردباری سے سیکھا گیا یہ سبق ہی ان کی نئی کامیابیوں کی بنیاد ثابت ہوا ہے۔ ہم بحیثیت مجموعی امید کرسکتے ہیں کہ کاش پاکستان میں بھی کوئی ایسی سیاسی جماعت اور سیاستدان اٹھے جو صحیح تر معنوں میں افتادگانِ خاک کا ترجمان ہو۔ اروند کجریوال اور ’’عام آدمی پارٹی‘‘ سے عمران خان خصوصاً بہت سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔