صحافت صحافت ہوتی ہے!

سید احسن وارثی  جمعـء 13 فروری 2015
جب ہم امریکی تعلیمی نظام، ریاستی نظام و دیگر چیزوں کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں انکے میڈیا میں احتساب کے حوالے سے اپنائی جانے والی پالیسیوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

جب ہم امریکی تعلیمی نظام، ریاستی نظام و دیگر چیزوں کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں انکے میڈیا میں احتساب کے حوالے سے اپنائی جانے والی پالیسیوں پر بھی غور کرنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں ہم ہر چیز کو منفی نگاہ سے دیکھتے ہیں، پھر چاہے کوئی چیز پاکستان کے حق میں بھی کیوں نہ ہو، لیکن ہمیں یقین نہیں آتا کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے ارد گرد بے یقینی کا ماحول، میڈیا میں بنتی ہوئی غیر ضروری خبریں اور ہمارے سیاستدانوں کا کردار ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہم نے کسی شعبے میں ایسی کوئی مثال قائم ہی نہیں کی جس کو مغربی لوگ سرہا سکیں یا اُس پر عمل کرسکیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم اہل نہیں؟ یا ہم جان بوجھ کر کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ ویسے میری ذاتی طور پر حمایت تو آپشن نمر 2 پر ہی جائے گی۔ کیونکہ ہم نے میڈیا پر اکثر دیکھا ہے ہمارے اینکرز، رپورٹرز جان بوجھ کر عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے میڈیا پر لائیو کوریج کے دوران غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور اس کے بعد میڈیا پر معذرت بھی نہیں کرتے جس کی مثال ہم پاکستان میں چند ماہ پہلے دھرنوں کے دوران نشر ہونے والی خبروں کی اٹھالیں تو کسی اور مثال کی ضرورت نہ پڑے کہ کس طرح سے میڈیا پر براہ راست لوگوں پر الزام تراشی کی جاتی رہی۔ لیکن نہ کسی نے ہرجانے کا دعوی کیا اور نہ کسی نے الزامات کو ثابت کرنے کی زحمت کی۔

پاکستان میں امریکی پالیسی اور امریکی میڈیا پر بے حد تنقید کی جاتی ہے مگر ہمیں انکی صحیح بات کو صحیح اور غلط بات کو غلط کہنا چاہیے شاید یہی اُصولی بات بھی ہے۔ مغربی میڈیا مسلمانوں کو چاہے برا سمجھے یا مسلمانوں کے لیے دہرا معیار رکھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے اصولوں اور پالیسی کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے لیے کوئی بھی بڑا فیصلہ لینے کی جسارت اور طاقت رکھتے ہیں جس کی مثال امریکی مشہور نیوز چینل این بی سی کے مشہور نیوز اینکر جرنلسٹ برائن ولیم کی ہے جوکہ وائٹ ہاوس میں این بی سی کے نیوز کورسپونڈینٹ بھی رہ چکے ہیں اور امریکی صحافت کی دنیا میں ایک جانی پہچانی ہستی ہیں۔

این بی سی نیوز کے صدر نے 10 فروری کی رات برائن ولیم کو عراق جنگ کے حوالے سے اپنی غلط کہانی اور خبر نشر کرنے پر اپنے چینل این بی سی سے 6 ماہ کے لیے معطل کردیا اور اسی وقت برائن ولیم کی جگہ ایک نئے اینکر کو اس پروگرام کے لیے ہائر بھی کرلیا جس کے بعد برائن ولیم نے غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے نہ صرف میڈیا پر آکر معافی مانگی بلکہ اپنی سزا قبول کی۔

اس فیصلے کے بعد امریکی میڈیا میں ہلچل سی مچ گئی ہے اور چہ مگوئیاں شروع ہوگئی۔ جبکہ برائن ولیم کی معطلی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب میں این بی سی نیوز ادارے کے صدر کا کہنا ہے کہ ’برائن ولیم کے لاکھوں کی تعداد میں چاہنے والے ہیں، بڑی تعداد میں لوگ انکا پروگرام دیکھتے ہیں اور ایسے حالات میں انکے پروگرام میں غلط خبر نشر ہونا تشویشناک ہے‘۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ برائن ولیم پہلے نیوز اینکر نہیں جوغلط رپورٹنگ یا خبر نشر کرنے پر معطل ہوئے ہیں بلکہ برائن ولیم سے قبل 2004 میں سی بی ایس نے بھی ایک مشہور نیوز اینکر ڈان راتھرکو غلط خبر نشر کرنے پر معطل کردیا تھا۔

امریکہ اور یورپ تو ماضی میں بھی مثالیں قائم کرچکے ہیں مگر پاکستانیوں کو یہ فخر کب حاصل ہوگا؟ جب امریکہ اپنے مشہور اینکر کو غلط خبر نشر کرنے پر معطل کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ پاکستانی میڈیا کے ادارے کب اپنے اینکرز کی غلط خبروں پر ایکشن لینگے؟ اگر ایسے فیصلے پاکستان میں بھی ہونا شروع ہوجائیں تو یہاں بھی لوگ غلطی کرنے سے پہلے دس بار نہیں بلکہ سو بار سوچیں گے کیونکہ یہ معطلی یا پابندی محض معطلی یا پابندی نہیں بلکہ ساکھ کو شدید ترین دھچکے کے مترادف ہے۔

ہم امریکی تعلیمی نظام، ریاستی نظام و دیگر چیزوں کو اپناتے ہیں یا انکی پالیسی پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں انکے میڈیا میں احتساب کے حوالے سے اپنائی جانے والی پالیسیوں پر بھی غور کرنا چاہیے جس سے عوام تک افسانوی خبروں کے بجائے حقیقی خبریں پہنچیں اور درحقیقت یہی میڈیا کا حقیقی کام ہے۔

امریکہ اور دیگر یورپ میں میڈیا کو آزادی حاصل ہے مگر صرف حقیقت بیان کرنے کے لیے نہ کہ جھوٹی خبروں کو بریکنگ نیوز بنانے کی اور ہمارے یہاں میڈیا کو آزادی حاصل ہے مگر صرف غیر ضروری خبروں کو بریکنگ نیوز بنانے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے اور دوسروں پر بے جا تنقید کرنے کی۔ ڈان ریدھر کے بعد برائن ولیم کو خبر نشر کرنے اور عوام تک جھوٹ پہنچانے کی سزا کے طور پر امریکی میڈیا کے ادارے نے انھیں ایک بڑا اینکر ہونے کے باوجود معطل کردیا جو پاکستانی میڈیا کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ ہم اپنے سیاستدانوں کو تو بہت بُرا کہتے ہیں کہ وہ اپنی کرسی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ روزانہ ٹی وی پر ٹائی سوٹ پہن کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں اور اپنی مرضی کا پیغام پہنچاتے ہیں اگر اُن کو کبھی اِس طرح معطل کرنے کی کوشش کی جائے تو کیا وہ یہ فیصلہ مان لیں گے؟ سوچیے، کیونکہ شاید یہ اہم ترین سوال ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔