پاک چین کوریڈور

فرمان نواز  پير 16 فروری 2015
چھوٹے صوبوں کی آوازیں پاکستانی اور چین دونوں حکومتوں کے ضمیر کو للکارتی رہیں گی۔  فوٹو فائل

چھوٹے صوبوں کی آوازیں پاکستانی اور چین دونوں حکومتوں کے ضمیر کو للکارتی رہیں گی۔ فوٹو فائل

پاک چین کوریڈور ریکو ڈک کے بعد ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر چھوٹے صوبوں نے اعتراضات اُٹھائے ہیں۔ ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے رہنما بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اب پاک چین کوریڈور کے روٹ کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سیاستدانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

جب 2013 میں تجارتی راہداری کا نقشہ انٹرنیٹ پرمجھے ملا توحیرت ہوئی کہ اسلام آباد کے بجائے اب نیا راستہ لاہور کی طرف شارپ ٹرن لیکر پنجاب اور سندھ میں سے ہوکر گوادر پہنچتا ہے، حلانکہ دُنیا بھر میں تجارتی راہدریاں شارٹ کٹ ہوا کرتی ہیں۔ اس حوالے سےحال ہی میں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں راہدری کے روٹ کے خلاف قرارداد پیش کی گئی، جس میں مرکزی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اصلی روٹ کو تبدیل نہ کرے اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ جنگ سے تباہ حال صوبے کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوگی۔

اس سے پہلے سینٹ کے اجلاس سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز واک آوٹ کرچکے ہیں۔ اُن کا موقف تھا کہ اصل روٹ جو کہ چین نے منتخب کیا تھا اگر اُسے بدلا گیا تو ملک متحد نہیں رہے گا۔ گوکہ حکومت نے اُن کو مطمئن کرنے کیلئے یہ موقف اپنایا کہ یہ تبدیلی وقتی ہوگی جو کہ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ہے جس کے جواب میں حاجی عدیل نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ سیکورٹی کے خدشات ملک کے کس حصے میں نہیں۔ سینٹیر ھمایوں مندوخیل بھی 2014 میں اس طرح کے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں اور سینٹ سے استفعیٰ کی دھمکی بھی دی تھی۔ اس ضمن میں کچھ عرصے بعد یہ خبر منظرعام پر آئی کہ حکومت نے متبادل راستے کا آپشن بھی رکھا ہے جو خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں سے ہو کر گزرے گا۔

کیا حقیقت ہے کیا افسانہ، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر خدشہ ہے کہ پاک چین کوریڈرو پر علاقائی مفادات کا جھگڑا اس منصوبے کے آڑ میں کہیں کوئی بڑی رکاوٹ نہ کھڑی کردے۔ دوسری جانب مین یہ سوچ کر مطمئن ہوں کہ پاکستانی اور چینی میڈیا میں اس طرح کے تحفظات کو جگہ تو ملتی ہے لیکن اس کے اثرات کم ہی ہوتے ہیں۔ البتہ حکومت نے اِن آوازوں کو پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔ اُن کی نظر میں یہ آوازیں پاک چین کوریڈور کو متنازعہ بنانا چاہتی ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ چھوٹے صوبوں کی آواز کو متنازعہ بنانا انتہائی خطرناک ذہنیت ہے جس کا خمیازہ ہم 1971میں بھگت چکے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کو متنازعہ نہیں بنایا جارہا، کوئی اس کی مخالفت نہیں کررہا، بات صرف یہ ہے کہ روٹ کی تبدیلی سے پسماندہ اور مسائل میں جکڑے صوبوں کے علاقے متوقع فوائد سے محروم ہوجائیں گے اور ساتھ ہی روٹ کی لمبائی میں تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا اضافہ بھی ہوجائے گا جس کی وجہ سے اس منصوبے کے اخراجات میں مزید اضافہ ہوا۔ دوسری جانب، اصل راستہ نہ صرف مختصر ہے اور اُن علاقوں کو ایسے پراجیکٹس کی اشد ضرورت بھی ہے۔ بات رہی محفوظ راستوں کی تو فوج کے آپریشن کے بعد یہ علاقے کلیئر ہوگئے ہیں۔ لہذا اگر بنیادی سرمایہ کاری چین کررہا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس صورتِ حال کو چین بہتر حل کر سکتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے چین کے مغربی صوبوں کو ملک کے دوسرے علاقوں کے طرز پر ترقی دینے کیلئے چینی حکومت نے گریٹ ویسٹرن ڈیویلیپمنٹ اسٹریٹیجی کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ چینی حکومت اُسی کے طرز پر پاکستان کے لئے بھی ہمہ گیر پروگرام ترتیب دے سکتی ہے۔ تجارتی راہدری کی بنیاد پر پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو نہ صرف ترقی دی جاسکتی ہے بلکہ ان علاقوں سے چین افغانستان میں چینی منصوبوں کے ساتھ بھی رابطہ بھی بنا سکتا ہے۔

چھوٹے صوبوں کی آوازیں پاکستانی اور چین دونوں حکومتوں کے ضمیر کو للکارتی رہیں گی۔ دونوں حکومتوں کو پسماندہ علاقوں پر توجہ دینی چاہئے۔ یقیناً پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے اُونچی اور سمندر سے گہری ہے لیکن بعض آوازیں یا تو اس دوستی کی اونچائیوں تک پہنچ نہیں پاتی یا اس کی گہرائی میں ڈوب جاتی ہیں۔

پچھلی بار چینی صدر کا دورہ پاکستان، یہاں کے حالات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا اور اب اُن کے دورے سے پہلے منصوبے کے متعلق چھوٹے صوبوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اِس لیے بہتر ہوگا کہ یہ مسئلہ چینی صدر کے دورے سے پہلے ہی حل کرلیا جائے۔ کیونکہ چینی حکومت کے اقدامات ہی پاکستانی معیشت کو مضبوط بناسکتی ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔