ایک اور دہشت گردی

ایڈیٹوریل  جمعرات 19 فروری 2015
ملکی سلامتی اور اس کی بقا کے لیے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر حکومت کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھانا ہو گا،  فوٹو:ایکسپریس/آغا مہروز

ملکی سلامتی اور اس کی بقا کے لیے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر حکومت کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھانا ہو گا، فوٹو:ایکسپریس/آغا مہروز

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بدھ کو امام بار گاہ پر خود کش حملے اور فائرنگ سے چار افراد شہید اور 9 زخمی ہو گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق دھماکے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروہ جند اللہ نے قبول کر لی ہے۔ پاک فوج کے تعلقات عامہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افواج پاکستان حالیہ دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے یہ حملے قوم کو تقسیم کرنے کی سازش ہیں جس کا فائدہ دہشت گردوں کو ہو گا‘ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے قومی عزم کو کمزور نہیں کیا جا سکتا‘ دہشت گردی سے متاثرہ بھائیوں اور بہنوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔

گزشتہ چند روز سے ملک بھر میں خود کش دھماکوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے‘ منگل کو لاہور میں پولیس لائنز کے باہر خود کش دھماکے میں پانچ افراد شہید اور 27 زخمی ہو گئے تھے‘ اس دھماکے کی ذمے داری جماعت الاحرار نے قبول کر لی تھی۔ گزشتہ چند روز سے ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کی افواہیں پھیل رہی ہیں اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ دہشت گرد سیکیورٹی اداروں‘ اسپتالوں اور مختلف عوامی مقامات کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق محکمہ داخلہ پنجاب نے تین روز قبل بذریعہ مراسلہ آگاہ کر دیا تھا کہ لاہور میں تین دہشت گرد داخل ہو چکے ہیں جو آیندہ دو تین روز میں اہم مقامات کو نشانہ بنائیں گے۔

مشاہدے میں آیا ہے کہ متعدد بم دھماکوں کے بعد یہ خبریں آئیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا کہ دہشت گرد اپنی مذموم کارروائیاں کر سکتے ہیں مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پھرتیاں ہمیشہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد سامنے آئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب یہ اطلاع مل جاتی ہے تو دہشت گرد شہر میں داخل ہو چکے ہیں تو انھیں اپنی مذموم کارروائی کرنے سے پیشتر ہی گرفتار کر لیا جائے۔شکار پور سندھ ‘لاہور اور اسلام آباد میں ہونے والے دہشت گرد حملوں سے ایک نتیجہ یہ بھی سامنے آتاہے کہ گراس روٹ لیول پر ہماری انٹیلی جنس اور ایکشن کرنے کی صلاحیت ابھی کمزور ہے۔دہشت گرد جائے وقوعہ کے نزدیک ترین ہی پناہ حاصل کرتے ہیںتاکہ ہدف تک جلد اور باآسانی پہنچا جائے۔اگر تھانے کی سطح پر انٹیلی جنس سسٹم بہتر ہو اور آپریشن کرنے کی صلاحیت بھی ہو تو دہشت گردوں کو واردات سے پہلے ہی گرفتار کیا جا سکتا ہے‘اگر وہ مقابلہ کریں تو انھیں وہیں کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

اس لیے اب تھانے کی سطح پر پولیس کی صلاحیت بڑھانا انتہائی ضروری ہے۔امریکا میں نائن الیون کا ایک واقعہ رونما ہوا اس کے بعد امریکی حساس اور سیکیورٹی اداروں نے اس انداز میں کارروائی کی کہ اس کے بعد عالمی سطح پر مضبوط دہشت گرد دوبارہ کارروائی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جب کہ ہمارے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی اور پھرتیوں کا یہ عالم ہے کہ پے در پے بم دھماکے ہو رہے ہیں اور دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے بجائے صرف ان کی آمد کی اطلاع دی جا رہی ہے۔ ایک خبر کے مطابق 2003ء سے لے کر اب تک پنجاب اور اسلام آباد میں 63خود کش دھماکے ہوئے جن میں 1264 افراد ہلاک اور 4542 افراد زخمی ہوئے‘ ان میں گزشتہ روز اسلام آباد میں ہونے والا خود کش حملہ شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد 64 تک پہنچ گئی ہے۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ردعمل میں دہشت گرد شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں‘ اس آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کو شدید نقصان پہنچا اور ان کے محفوظ ٹھکانے تباہ ہوئے‘ کچھ عرصہ تک دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی خاطر خواہ کمی آئی اور قوم نے سکون کا سانس لیا۔ اب ایک بار پھر دہشت گردی کی وارداتوں کے سلسلے کا شروع ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ دہشت گرد ملک کے مختلف حصوں میں پھیل اور سرگرم ہو چکے ہیں‘ ان دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے حکومت کو بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرنا ہو گا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بارہا اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ اندرون ملک پھیلے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے ایک اور آپریشن ضرب عضب شروع کرنا پڑے گا۔

دہشت گرد خود کش حملوں کے لیے نوعمر نوجوانوں کو استعمال کر رہے ہیں جو بآسانی ان کے بہکاوے میں آ جاتے ہیں۔ معاشرے میں پھیلے ہوئے ان بے شناخت اور بے چہرہ دہشت گردوں کو پکڑنا کوئی آسان کام نہیں۔ تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے حمایتیوں کی ایک بڑی بااثر اور طاقتور تعداد شہروں میں موجود ہے‘ اس لیے ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے حکومت کو عوامی سطح پر تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ ملکی سلامتی اور اس کی بقا کے لیے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اختلافات بالائے طاق رکھ کر حکومت کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھانا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔