ربّا میرے حال دا محرم تُوں!

 اتوار 22 فروری 2015
بزرگ کی عمر لگ بھگ 70 برس ہوگی۔ ہاتھ میں روغن کا ڈبَہ اورکچھ برش لئے وہ بھی یہی امید لئےخاموش کھڑے تھے کہ یہ کام انہیں مل جائے تو آج کے راشن کا انتظام ہو جائے۔فوٹو فائل

بزرگ کی عمر لگ بھگ 70 برس ہوگی۔ ہاتھ میں روغن کا ڈبَہ اورکچھ برش لئے وہ بھی یہی امید لئےخاموش کھڑے تھے کہ یہ کام انہیں مل جائے تو آج کے راشن کا انتظام ہو جائے۔فوٹو فائل

یہ سردیوں کی ایک خوبصورت صبح تھی اور میں اپنے کسی رشتہ دار کے گھر سے واپس اپنے گھر جا رہا تھا۔ میں ایک ویگن میں تھا اوراپنی منزل کی طرف رواں تھا۔ میرا اسٹاپ آیا اور میں نے اترتے ہوئے ایک ایسا منظر دیکھا جو کہ ہم میں سے اکثر شاید روزانہ ہی دیکھتے ہوں گے مگر زندگی کی مصروفیت کی وجہ سے اُس پر کبھی غور نہیں کرتے ہیں۔ اس میں شاید ہمارا قصور بھی نہیں کیونکہ زندگی کی دوڑ ہے ہی ایسی کہ انسان کچھ اور سوچ ہی نہیں پاتا۔

ہاں! تو میں آپکو بتا رہا تھا کہ میں نے ویگن سے اترتے ہوئے کیا دیکھا۔ جیسے ہی میں اُترا تو میرے سامنے ایک  بھیڑ لگی ہوئی  تھی اور ایک آدمی کو تقریبًا پچّیس سے تیس لوگوں نے گھیر رکھا تھا۔ مجھے لگا خدانخواستہ کوئی حادثہ یوگیا ہے۔ میں دیکھنے کے لئے آگے بڑھا تو فوری طور پر شکر ادا کیا کہ کوئی حادثہ نہیں تھا، لیکن وہ منظر کسی حادثے سے کم بھی نہیں تھا — وہ سب مزدور تھے جو ایک آدمی سے کام مانگ رہے تھے۔

کسی نے کسّی اور بیلچا اٹھا رکھا تھا تو کسی نے روغن کے برش اور ڈبّے۔ کوئی آواز لگا رہا تھا کہ مجھے لے جاؤ صاحب، تو کوئی اپنی خدمات کے بارے میں آگاہ کررہا تھا۔ کوئی آواز لگا رہا تھا کہ ’’سر جی! تِن دن توں دھیاڑی نئ لگّی۔۔۔‘‘ تو کوئی کچھ اور فریاد لگا رہا تھا، غرض سب کی خواہش تھی کہ کام انہیں ہی ملے اور وہ کم اجرت لینے کو بھی تیار تھے۔

انہی سب میں ایک بزرگ بھی تھے جن کی عمر لگ بھگ 70 برس ہوگی۔ ہاتھ میں روغن کا ڈبَہ اورکچھ برش لئے وہ بھی یہی امید لئےخاموش کھڑے تھے کہ یہ کام انہیں مل جائے تو آج کے راشن کا انتظام ہو جائے۔۔۔

بظایراس عام سے منظر نے ایک لمحے کے لیے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جو آدمی اپنی عمر کے اس حصے میں ہے، جہاں اس کا جسم شاید موسم کا ذرا سا تغیربھی برداشت نہ کر پاتا ہو اور ایک جگہ مسلسل کھڑے رہنا بھی اس کے لیے کسی اذیت سے کم نہ ہو۔ لیکن وہ اِن سب مشکلات کے باوجود اگر صبح سے شام تک  وہ کام کررہا ہے تو آخر کس قدر مجبوری میں ہوگا۔

اس طرح کے کئی بزرگ اورافراد ہمیں اپنے اردگرد دیکھنے کو ملتے ہیں،جنکی زندگیاں کسی امتحان سے کم نہیں ہیں۔ ان کی مجبوریاں اور پریشانیاں بھی شاید ہماری مجبوریوں اور پریشانیوں سے کہیں بڑھ کر ہیں اور اس پر ایسے لوگوں کی خودداری اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ اللہ پر ان کا یقین اب بھی قائم ہے اور امید ابھی ٹوٹی نہیں ہے۔

انسان کی زندگی امتحانات سے بھری پڑی ہے۔ ہم اگر اپنے گردوپیش نظر دوڑائیں تو بخوبی اس بات کی تصدیق ہوسکتی ہے، کیونکہ ہر کوئی آپ کو کسی نہ کسی امتحان سے گزرتا ہوا ضرور دکھائی دے گا۔ ہر کسی میں ایک بے چینی سی نظر آئے گی اور پریشانی روزمرّہ کے کاموں میں عیاں ہوگی۔ اس کی بڑی وجہ مایوسی ہے۔ جہاں ہمیں مضبوط ہونا ھوتا ہے وہاں ہم کمزور پڑجاتے ہیں۔ اگر یہی مشکل وقت ہم پر آجائے تو ہم اللہ سے شکوہ کرنے کے بجائے اس پر بھروسہ کرکے گزار لیں تو یقیناً ہم بہت سی پریشانیوں سے بچ جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔