’گھر‘ بہتر انسان بنانے کا کارخانہ

مولانا وحید الدین خان  اتوار 22 فروری 2015
 والدین کا فرض ہے کہ وہ اگلی نسل کو باحوصلہ اور باشعور بنا کر زندگی کے میدان میں داخل کرے۔فوٹو: فائل

والدین کا فرض ہے کہ وہ اگلی نسل کو باحوصلہ اور باشعور بنا کر زندگی کے میدان میں داخل کرے۔فوٹو: فائل

ماں کی حیثیت سے عورت کا کردار اگلی نسل کی تیاری ہے۔ انسان کی نسل ایک رواں دریا کی مانند ہے جس میں ہر وقت پرانا پانی بہہ کر چلا جاتا ہے اور نیا پانی اس کی جگہ لے لیتا ہے۔یہی معاملہ انسانی قافلے کا ہے۔ یہاں بھی مسلسل ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسل جاتی رہتی ہے اور نئی نسل اس کی جگہ لیتی رہتی ہے۔ ماں کا کام اِسی نئی نسل کی تیاری ہے۔ ماں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ہر بار اگلی نسل کے لیے بہتر انسان بنا کر بھیجے۔

بہتر انسان کون ہے۔ بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر زندگی کا حوصلہ ہو۔ جو منفی سوچ سے بلند ہو اور مثبت سوچ کا حامل ہو۔ جو اپنے ذہن کے اعتبار سے اس قابل ہو کہ وہ تعمیری بنیادوں پر زندگی کی منصوبہ بندی کر سکے جو اپنے سماج کے لیے کوئی نیا پرابلم پیدا نہ کرے۔ جو اپنے سماج کا دینے والا ممبر ہو (Giver Member) ہو، نہ کہ صرف لینے والا ممبر (Taker Member)۔

اس معاملے میں ماں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو ہم چند مثالوں کے ذریعے واضح کریں گے۔ ان مثالوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کے اندر وہ چیز پیدا کرے جس کو پختگی (Maturity) کہا جاتا ہے وہ ناپختگی (Immaturity) کا ذہن لے کر اپنی اولاد کو سماج میں نہ بھیجے۔

امریکا کی ایک خاتون نینسی اَلوا ایڈیسن کا ایک بیٹا تھا۔ اُس کا نام ٹامس ایڈیسن (وفات:1931ء) تھا۔ وہ پیدائشی طور پر کم سنتا تھا۔ اس کے اسکول ٹیچر نے دیکھا کہ وہ کلاس میں ٹیچر کی باتوں کو سُن نہیں پاتا اور اسکول کے کام کو ٹھیک سے نہیں کرتا۔ اسکول ٹیچر اس پر غصہ ہو گیا۔ اس نے ایڈیسن کو معذور بچہ (Retarded Boy) قرار دے کر اس کو اسکول سے خارج کر دیا۔

لیکن ایڈیسن کی ماں نے یہاں ایک تعمیری رول ادا کیا۔ اس نے ایڈیسن کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ تم ایک معذور بچے نہیں ہو بلکہ یہ معذوری تمہارے لیے ایک چیلنج ہے۔ تم اپنی فطری صلاحیتوں کو استعمال کرو اور اس چیلنج کا مقابلہ کرکے تم ایک کامیاب انسان بن سکتے ہو۔ ماں نے ایڈیسن کی تعلیم کو اپنا مشن بنا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیسن کا نام تاریخ میں ایک بڑے سائنسداں کی حیثیت سے درج کیا گیا۔

اسی طرح عام ذہن یہ ہے کہ جو آدمی دولت مند گھر میں پیدا ہو، اُس کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے اور جو آدمی غریب گھر میں پیدا ہو، اس کو بدقسمت انسان کہا جاتا ہے۔ یہاں ماں کا رول یہ ہے کہ اگر اس کا بچہ غریب گھر میں پیدا ہوا ہے تو وہ اس کو بتائے کہ غریب ہونا کوئی محرومی کی بات نہیں۔ ایسی ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو زندگی کا یہ فلسفہ بتائے کہ دولت مند بچے کے پاس اگر دولت ہوتی ہے تو غریب بچے کے پاس بڑھا ہوا محرک (Incentive) موجود ہوتا ہے۔ یہ محرک اُس کی زندگی کی طاقت بن کر اس کا ساتھ دیتا ہے:

If a rich person is born with a silver spoon in his mouth, the poor person is born with an incentive spoon in his mouth.

ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو بتائے کہ ہر امیر بچے کے باپ اور دادا غریب ہی تھے، پھر وہ محنت کرکے امیر بنے۔ اسی طرح تم بھی محنت کرکے سب کچھ حاصل کر سکتے ہو۔

اِسی طرح ایک اور فکری گمراہی ہے۔ ماں کو چاہیے کہ اس گمراہی سے وہ اپنے بچے کو باہر نکالے۔ وہ یہ کہ عام طور پر انسانی طبقات کو محروم اور غیر محروم (Haves and have nots) میں تقسیم کیا جاتا ہے مگر یہ ایک غلط ڈا ئی کاٹمی (Wrong Dichotomy) ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن میں ایک شخص محروم طبقے کا فرد ہوتا ہے لیکن بعد میں وہ ایک غیر محروم طبقے کا فرد بن جاتا ہے۔ مثلاً سی وی رمن، جی ڈی برلا، آبرائے، دھیرو بھائی امبانی، ڈاکٹر عبدالکلام وغیرہ۔ اس قسم کے ہزاروں لوگ ہیں جو اپنے بچپن میں بظاہر محروم طبقے سے تعلق رکھتے تھے لیکن بعد کو وہ غیر محروم طبقے کے اعلیٰ فرد بن گئے۔ اس لیے اس دنیا میں صحیح ڈائی کاٹمی محروم اور غیر محروم کی نہیں ہے بلکہ امکانی غیر محروم اور واقعی غیر محروم (Pontential haves and actual haves) کی ہے۔

کسی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی چیز حوصلہ اور مثبت شعور ہے۔ ہر پچھلی نسل کا فرض ہے کہ وہ اگلی نسل کو باحوصلہ اور باشعور بنا کر زندگی کے میدان میں داخل کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔