حکمرانی ایک فن ہے جس سے نابلد ہوں،وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ سے خصوصی گفتگو

رضا الرحمٰن / عارف محمود  اتوار 22 فروری 2015
پولیس کو غیرسیاسی کرنا ہمارا سب سے بڑا کارنامہ ہے، کوشش ہے کہ گوادر پورٹ ہمیں ملے۔ فوٹو: فائل

پولیس کو غیرسیاسی کرنا ہمارا سب سے بڑا کارنامہ ہے، کوشش ہے کہ گوادر پورٹ ہمیں ملے۔ فوٹو: فائل

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ ہیں جن کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔ وہ زمانۂ طالب علمی ہی سے بلوچ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ اس کے بعد سیاسی جماعت بی این وائی ایم کی تشکیل میں متحرک رہے۔

پھر بلوچستان نیشنل موومنٹ کے نام سے سیاسی جماعت بنائی اور نیشنل پارٹی بنانے میں فعال کردار ادا کیا۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ قبل ازیں تعلیم اور صحت کے صوبائی وزیر بھی رہے ہیں اور سینیٹر کی حیثیت سے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کے لیے بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ سینیٹ میں 18ویں آئینی ترمیم کے لیے قائم کئی گئی کمیٹی میں وہ بلوچستان سے شامل تھے۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے پارٹی کو چاروں صوبوں تک پھیلانے کا سہرا بھی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے سر جاتا ہے۔ اس وقت سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا سے اہم شخصیات نیشنل پارٹی میں شامل ہیں اور اپنے صوبوں میں پارٹی کو فعال بنارہی ہیں۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ملکی اور صوبے کے حالات کے حوالے سے ایکسپریس نے خصوصی انٹرویو کیا، جسے قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔

سوال: حکومت کو اپنے وژن میں کس حد تک کام یابی ملی؟

ڈاکٹرعبدالمالک: جب ہم آئے تھے تو ایک تو پارٹی کا مینو فیسٹو تھا، پھر جب حکومت بنی، بلوچستان کے مجموعی مسائل پر ایک دستاویز بنائی، اسے ہم نے میاں صاحب کو دیا۔ جب ہم آئے تھے سب سے بڑا مسئلہ سیاسی تھا، جس میں مسخ شدہ نعشیں، لاپتا افراد، ڈیتھ اسکواڈ، اغواء کار وں کے بڑے بڑے گینگ تھے۔ دوسری طرف جو مسئلہ تھا بلوچ انسرجینسی کا مسئلہ تھا پھر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ یہ ہمارے وہ مسئلے تھے، جن کو حل کیے بغیر ہم بلوچستان میں ڈیویلپمنٹ کا مرحلہ شروع نہیں کرسکتے تھے۔ یہ ایک سائیڈ پر رکھے۔ پھر بلوچستان میں دوسری جانب اکنامک اسپیکٹ تھا۔ ہمارا اسٹرکچر بریک ڈاؤن میں تھا۔ سب سے زیادہ پرابلم پولیس اور لیویز میں تھا۔ باقی محکمے ایجوکیشن، ہیلتھ سب بے ڈھنگے سے تھے۔ اس کے ساتھ انرجی سیکٹر کے مسائل بھی سامنے آرہے تھے۔ ہماری بجلی کی ضرورت1600 میگا واٹ ہے اور ٹرانسمیشن لائنوں سے جو بجلی مل رہی تھی وہ600 میگا واٹ تھی اور وہ بھی تین سے چار سو میگاواٹ مل پاتی تھی۔ پھر ہمارے تمام بڑے ہائی ویز پر کام رکا ہوا تھا۔ پانی کا مین پراجیکٹ کچھی کینال تھی، وہ رکی ہوئی تھی۔ اسپتالوں میں، اسکولوں میں، کالجز میں ڈیسک، ایکویپمنٹ نہیں تھے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے جب یہ سلسلہ شروع کیا تو سب سے زیادہ کام یابی جو ملی وہ یہ ہے کہ ہم نے پولیس کو غیرسیاسی کیا پولیس کو سیاست سے ہم نے نکال دیا۔ ہم نے بھرتیاں ہوں یا جو بھی مسئلہ ہو تمام معاملات آئی جی صاحب کو دیے۔ پولیس کی لیویز کی ٹریننگ شروع کی۔ اس سے پولیس کا رول بہتر ہوگیا۔ آج آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہزار پولیس اہل کاروں کو پاک آرمی سے تربیت دلوائی اور اسی طرح کوئٹہ کا جو امن و امان کا مسئلہ رہا، اس میں چاہے ایف سی ہو یا دوسرے ادارے پولیس کسی سے پیچھے نہیں رہتی۔ پولیس میں اعتماد آگیا ہے۔ امن و امان کے حوالے سے بہت سے فیصلے ہوئے فیڈرل گورنمنٹ نے مدد کی۔ فورسز کے اداروں خاص کر کمانڈنٹ سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ نے مدد کی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سرکاری کارڈ ہولڈر نہیں تھے، لیکن ہم نے کارڈ ہولڈر کم کیے ہیں جن کی وجہ سے جو ہماری آر سی ڈی ہائی وے تھی مستونگ کوئٹہ قلات خضدار محفوظ ہوگئے۔ خضدار میں یہ ہورہا تھا کہ مہینے میں پچیس دن بند رہتا تھا۔ پہلی مرتبہ خضدار کے ڈپٹی کمشنر کے حق میں وہاں کی خواتین نے جلوس نکالا۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری ہائی ویز محفوظ ہوگئی ہیں۔ اغواء کی وارداتیں بہت کم ہوگئی ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ اغواء نہیں ہورہے لیکن بہت کم ہوگئے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ بہت کم ہوئی ہے۔ یہ مجموعی اقدامات جو ہم نے کیے ، ان سے یہ ہوا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی۔ اسی دوران ہم نے اور وفاقی حکومت نے جو آل پارٹیز کانفرنس کی تھی، جس میں عسکری قیادت اور سیاسی قیادت دونوں موجود تھیں، انہوں نے مجھے یہ اختیار دیا کہ بلوچ مزاحمت کاروں سے بات کریں۔ میرے خیال میں یہ ایک بڑا فیصلہ تھا، جو وفاقی حکومت اور فوج نے کیا۔ دوسری جانب جو ہمارا ترقیاتی عمل رک گیا تھا گوادر رتوڈیرو روڈ اب اس میںFWO نے کام شروع کردیا ہے۔ پنجگور اور نال کے درمیان سفر میں آٹھ گھنٹے لگتے تھے، وہ اب دو گھنٹے پر آگیا ہے۔ وہاں80 فی صد کام چھے سے سات ماہ میں مکمل ہوگیا ہے۔ گوادر تربت، تربت ہوشاب روڈز پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ کوئٹہ چمن روڈز جو این ایچ اے کے روڈز تھے، وہ بھی بہتر ہوگئے ہیں۔

انرجی سیکٹر میں یہ پیشرفت ہوئی کہ دادو خضدار، لورالائی ڈیرہ غازی دونوں ٹرانسمیشن لائنیں مکمل ہوگئیں۔ ہمارے سسٹم میں مزید 600 میگاواٹ بجلی آگئی۔ یہ وہ پراجیکٹس تھے جو وفاقی حکومت نے کیے اور مجموعی طور پر گذشتہ سال جو پی ایس ڈی پی فیڈرل حکومت کی تھی پہلی مرتبہ50/45 ارب روپے مل گئے۔ گذشتہ سال ہم نے بھی اپنی پی ایس ڈی پی خرچ کی اور90 ارب روپے کے قریب ایسی اسکیمیں شروع کیں۔ اس سال بھی ہماری اتنی ہی اسکیمیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے چیزوں کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے اور ایک نہ چلنے والی گورنمنٹ کو ہم نے چلنے والی گورنمنٹ بنادیا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تعلیم کو ہم نے بہت بہتر بنادیا ہے لیکن ایجوکیشن میں ہم نے بہت سی اصلاحات کی ہیں۔ ہم نے انفارمیشن سسٹم بنایا ہے۔

اس طرح ہم بلوچستان کے تمام اسکولوں کی کوئٹہ سے نگرانی کرسکتے ہیں کہ ان میں کتنے ٹیچرز ہیں۔ یہ بہت بڑا پراجیکٹ ہے، جو خوابوں میں تو ٹھیک ہے لیکن عملاً مشکل ہے۔ اسی طرح نقل کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے ہم نے میٹرک میں سیکریٹری، ایم پی ایز اور ایم این ایز کو شامل کیا۔ بچوں کو مفت کتابیں دیں۔ مارچ میں ہم انشاء اﷲ اسکول بھرو مہم چلائیں گے۔ ہمارے جتنے بچے باہر ہیں۔ ان کو اسکولوں میں بھجوائیں گے۔ محکمۂ تعلیم میں غلط بھرتیوں کے خلاف ہم نے کمیٹیاں بنائی ہیں، انکوائریاں چل رہی ہیں۔ اسی طرح کوشش کی کہ ہم تینوں میڈیکل کالجز کو فنکشنل بنادیں۔ تربت کالج کے لیے انٹرویو کرلیے ہیں، خضدار اور لورالائی کالجز کے لیے انٹرویو کررہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ مارچ سے کلاسز شروع کرکے طلباء اور طالبات کو داخلے دے دیں۔

اس وقت ہم ایکٹیو رول کررہے ہیں۔ پانچ چھے اضلاع کو چھوڑ کر میں تمام اضلاع میں ایم پی ایز اور وزراء کے ساتھ گیا ہوں۔ میرے خیال میں بحیثیت وزیراعلیٰ اتنے دورے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ گذشتہ ماہ میں اضلاع بیلہ، چاغی، کچھی گیا۔ ہم جاتے بھی ہیں لوگ بھی ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم اپنا 99 فی صد وقت بلوچستان میں گزارتے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن میں تبدیلی لے کر آئے ہیں۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔

سوال: مزاحمت کاروں سے بات چیت کے لیے آپ نے کیا اقدام کیے۔ اس حوالے سے کسی کے ساتھ کوئی رابطہ ہے؟

ڈاکٹرعبدالمالک: یہ بہت حساس مسئلہ ہے۔ ہم نے اس پر کافی کام کیا ہے۔ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن پر ہمیں وفاقی حکومت سے بات کرنی ہے۔ میں ان کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ ہم کوشش کررہے ہیں کہ مزاحمت کاروں کو قائل کریں کہ آپ بلوچوں کے مسائل پر جو ان کے وسائل کے ہوں یا ثقافت، کلچر اور معاش کے ہوں، آپ ان کے لیے جمہوری انداز میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر پاکستان کی فیڈریشن کے اندر لڑیں۔ میں اگر کہوں کہ مجھے اتنی بڑی کام یابی ہوئی ہے، میں نہیں کہہ سکتا۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ میں مایوس نہیں ہوں۔ میں ان چیزوں پر لگا ہوا ہوں، جس دن میں مایوس ہوگیا عوام کو بتادوں گا۔

سوال: کیا یہ سب کچھ آپ بااختیار ہو کر کررہے ہیں؟

ڈاکٹر عبدالمالک: جب یہ مخلوط حکومت بنی تو اے پی سی میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بیٹھی تھی انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا کہ آپ جاکر بات کرلیں، تو مجھے فیڈرل گورنمنٹ کی طرف سے مینڈیٹ حاصل ہے، لیکن باقی جگہوں پر انسرجنسی کے حوالے سے ہمارے لیڈر صاحبان وہ آن بورڈ نہیں ہورہے، لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے مجھے اختیار حاصل ہے۔

سوال: خان آف قلات کی واپسی کی جو باتیں ہورہی ہیں، وہ کس حد تک درست ہیں؟

ڈاکٹرعبدالمالک: مطلب یہ ہے کہ ہم مختلف آپشنز پر کام کر رہے ہیں۔ خان آف قلات بھی ان میں سے ایک آپشن ہے، کیوںکہ ہم سمجھتے ہیں کہ خان صاحب ہمارے بڑے ہیں۔ وہ یہاں آکر لوگوں کی زیادہ خدمت کرسکتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ جتنے بھی ہمارے لوگ ہیں، سب یہاں آجائیں سیاست کریں۔ پہلے بھی ہم لوگوں نے سیاست کی ہے، پہلے بھی پارلیمنٹ میں رہے ہیں۔ ہم بھی پارلیمنٹ میں ہیں کل ہم پارلیمنٹ میں نہیں ہوں گے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جمہوریت کی صدی ہے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/m3.jpg

سوال: آپ نے اکنامک فورم میں بھی کہا کہ وفاقی حکومت مکمل سپورٹ کررہی ہے۔ وفاقی پی ایس ڈی پی جو ریلیز ہوئی ہے آپ اسے سو فی صد کہتے ہیں اور اگلے دن ہی آپ کے وزیر کا بیان آتا ہے کہ اس میں پچاس فی صد کٹوتی ہوگئی ہے۔ یہ تضاد کیوں ہے؟

ڈاکٹر عبدالمالک: مجھے پتا نہیں ابھی تک اے سی ایس نے یا فنانس سیکریٹری نے ایسا کوئی نوٹ نہیں بھجوایا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں کٹوتی ہوئی ہے، لیکن ایک بات میں بتادوں کہ یہ50/60 ارب روپے سے کچھ نہیں ہوگا۔ بلوچستان کو500/400 ارب روپے ملنا چاہییں۔ اس وقت ہمارے پاس اسمال سائز کے200 ڈیمز ہیں، جن کے لیے بلینز روپے چاہییں۔ اسی طرح یہاں کمیونیکیشن سسٹم ہے۔ 40 پچاس ارب روپے اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔ ہمارے بچے اسکولوں سے باہر ہیں، بارہ ہزار سیٹلمنٹس میں اسکول نہیں ہیں، ہم بارہ ہزار اسکول دیں تو بھی اس کا 63 بلین روپے خرچہ ہے۔ ہمارا ٹوٹل بجٹ40 ارب روپے ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کے حوالے سے میں نے وزیراعظم کو زیارت میں بھی کہا کہ آپ نے جتنا دیا، یہ بلوچستان کے لیے کافی نہیں ہے۔ ہم صرف کوئٹہ میں دو ڈیمز بنائیں تو اس وقت 15,14 ارب روپے لاگت آئے گی، لیکن جب شروع کریں گے تو شاید20 ارب روپے تک لگ جائیں۔

سوال: یہ اچھا نہیں ہوتا کہ اکنامک فورم کوئٹہ میں یا گوادر میں کیا جاتا تو سرمایہ کاروں پر اچھا اثر ملتا؟

ڈاکٹرعبدالمالک: میں آپ سے متفق ہوں۔ ہمیں ڈونرز اور سفارت کاروں کو بتانا تھا کہ یہ ہمارے مسائل ہیں ۔ ہمیں تو اپنا کیس پیش کرنا ہے۔ جہاں ہمیں سرمایہ کار اور سفارت کار ملیں گے وہاں رزلٹ بہتر آئے گا۔

سوال: گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی پر اپوزیشن اور دوسرے لوگوں کو اعتراض ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹرعبدالمالک: مجھے پتا نہیں کہ روٹ تبدیل کیا ہے یا نہیں کیا، لیکن میں نے وفاقی حکومت سے سفارش کی ہے کہ اگر آپ اس روٹ کو یہاں ژوب سے ملالیں تو اچھا آئیڈیا ہے۔ اس وقت یہ ہورہا ہے کہ گوادر ٹو ڈیرو سے ملائیں گے اور ہم کہتے ہیں کہ اس کو اس طرح ملائیں تو بہتر ہے، لیکن اگر ہم چیزوں کو متنازعہ کرلیں گے تو آگے نہیں جائیں گے، لیکن ان کے اپنے وسائل ہیں، اس کو وہ دیکھ رہے ہیں۔

سوال: ریکوڈک کے معاملے کا کیا بنا۔ ایک اطلاع ہے کہ اس پروجیکٹ کے تحت کانوں سے یورینیم بھی نکالی گئی ہے، اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا؟

ڈاکٹرعبدالمالک: اس کی فزیبلٹی رپورٹ بہت ضخیم ہے، 30/28 جلدوں پر مشتمل۔ اس میں یورینیم نہیں ہے۔ یہ کاپر گولڈ پروجیکٹ ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کو معاشی اور فنی اعتبار سے نہیں دیکھتے، صرف سیاسی انداز میں دیکھتے ہیں۔ ہمیں اسے دونوں حوالوں سے دیکھنا چاہیے۔ سیاسی انداز میں تو ہم کلیئر ہیں کہ یہ پروجیکٹ بلوچستان کا ہے۔ اس کا فائدہ بھی بلوچستان کو پہنچنا چاہیے، چاغی کو پہنچنا چاہیے۔ لیکن انہیں کیسے یہ فائدہ پہنچنا چاہیے؟ یہ ایک سوال ہے۔ ریکوڈک پر میری اپنی رائے بھی ہے۔ میری پارٹی کی اور میری ذاتی رائے بھی ہے کہ میں ریکوڈک کو عوام کے مفاد میں بلوچستان کے مفاد میں جتنا شفاف بناسکتا ہوں بناؤں گا۔ اگر کوئی مجھے کہے کہ آپ ریکوڈک پر سودے بازی کررہے ہیں، جو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میرا ایمان ہے کہ اﷲتعالیٰ مجھ سے غلطی سے بھی ایسا نہ کرائے۔ یہ بڑا ٹیکنیکل مسئلہ ہے۔ میں شعوری طور پر کوئی غلط فیصلہ نہیں کروں گا، جو بلوچستان اور یہاں کے عوام کے خلاف ہو۔ ریکوڈک کو میں جتنا شفاف کرسکتا ہوں کروں گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بہتان بازی کرنے کے بجائے حقیقت پسند بن جائیں۔ ڈیڑھ سال میں میرے پاس جتنے بھی لوگ آئے میں نے کہا کہ میں تو ریکوڈک کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں، جب اسے سمجھ لو ں گا تو پھر اس پر بات کروں گا۔ میں نے وفاقی حکومت سے بھی بات کی ہے کہ وفاقی حکومت ہمیں اپنے ماہرین دے دے ، ہم مل کر ریکوڈک کو جتنا شفاف اور ملک و بلوچستان کے مفاد میں بناسکتے ہیں بنائیں گے۔

سوال: مخلوط حکومت میں اتحادی جماعتیں ہیں خصوصاً مسلم لیگ (ن)۔ ق لیگ بھی ساتھ ہے۔ آپ کے اور ان کے درمیان تناؤ کیوں ہے؟

ڈاکٹرعبدالمالک: میں تو اس گیم میں تھا ہی نہیں۔ ہم نے تو مسلم لیگ کو لکھ کر دے دیا تھا کہ جسے آپ نام زد کریں گے نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ اسے سپورٹ کرے گی اور ہم نے کبھی مطالبہ بھی نہیں کیا کہ آپ ہمیں وزارت اعلیٰ دے دیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور مسلم لیگی لیڈر شپ نے مجھے نام زد کیا۔ میری شروع دن سے کوشش رہی ہے، آج بھی ہے، کہ مخلوط حکومت کو مثبت انداز میں چلاؤں اور تمام اتحادی ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلوں۔ اتحادی اتحادی ہوتے ہیں کبھی اوپر نیچے معاملات ہوجاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک وہ مجھے سمجھتے ہیں کہ میں اسے صحیح طور پر چلاسکتا ہوں۔ میں اسے چلاؤں گا اور جس وقت میں نے محسوس کیا کہ میں اپنا اعتماد کھوچکا ہوں تو پھر میں جو ایک سیاسی طریقۂ کار ہوتا ہے اسی پر چلوں گا، لیکن میری کوشش ہے کہ مخلوط حکومت میں چاہے ن لیگ کے دوست ہوں یا ق کے دوست، پشتونخواملی عوامی پارٹی یا میری جماعت کے ساتھی ہوں، سب کو ساتھ لے کر چلوں۔ ہماری پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس دو روز سے جاری ہے اور ہماری پارٹی میں بھی اتنی شدید تنقید ہوتی ہے، شاید وہ دوسرے لوگ نہ کریں جتنی ہم آپس میں کرتے ہیں۔ میں کوشش کررہا ہوں جب تک میری ذمہ داری ہے، میں کیپٹن ہوں، میں اس شِپ کو داؤ پر نہ لگاؤں، اس کو بہتر طور پر چلاؤں۔

سوال: اس دعوے میں کس حد تک سچ ہے کہ اڑھائی اڑھائی سال حکومت کرنے کا کوئی معاہدہ ہوا ہے ؟

جواب: اس پر آپ لوگوں نے خبریں بھی شایع کی ہیں۔ پتا نہیں آپ لوگوں کو کہاں سے ملی ہیں۔ ان مذاکرات میں میں نہیں تھا جو مذاکرات لیڈر شپ نے کیے ہیں۔ اگر اڑھائی، اڑھائی سال کیے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر پانچ پانچ سال بھی کے تو بھی ٹھیک ہے۔ دو دو سال بھی کے ہیں تو ٹھیک ہے۔ وہ مذاکرات محمود خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو اور میاں نواز شریف اور نواب ثناء اﷲ نے کیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری وزارت اعلیٰ کوئی ایشو نہیں۔ اصل مقصد بلوچستان ہے، بلوچستان کے عوام ہیں، یہاں کے حالات ہیں، جو بھی حالات ٹھیک کرسکتا ہے میں اس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہوں۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/m11.jpg

سوال: یہ آپ کے علم میں نہیں کیا اس بارے میں آپ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اس وقت آپ پارٹی صدر بھی تھے۔

ڈاکٹرعبدالمالک : میں صدر تھا لیکن جو مذاکرات ہوئے وہ میر حاصل خان بزنجو نے کیے تھے۔ کچھ چیزیں تنظیمی ہیں جو میں نہیں بتا سکتا۔

سوال: صوبائی خود مختاری کے حوالے سے آپ نے دوسری جماعتوں سے مل کر جدوجہد کی، اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ میئر شپ کا فیصلہ بھی اسلام آباد میں کیا گیا؟

ڈاکٹرعبدالمالک: یہ ایسی باتیں ہیں کہ میئر شپ کا فیصلہ پارٹی کے سربراہ کرتے ہیں، اگر مسلم لیگ کے صدر نوازشریف ہیں تو وہی فیصلہ کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسلم لیگ کی دور اندیشی ہے جس نے یہاں افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کیا ہے۔ ورنہ آج آپ کا سوال مختلف ہوتا کہ یہاں کونسلر کتنے میں فروخت ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں میں نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حکومت کو غیرجانب دار رکھا۔ میں نے یہ ضرور کہا کہ کلیم اﷲ اچھے امیدوار ہیں لیکن میں نے حکومتی مشینری کہیں بھی استعمال نہیں کی۔ میں نے چیف سیکریٹری سے سختی کے ساتھ کہا کہ جوہدایات چیف الیکشن کمشنر کی ہیں ان پر عمل درآمد کریں، کیوںکہ ہم نے اپنی زندگی میں ہمیشہ الیکشن کمیشن پاور کی بات کی ہے۔ غیرجانب دار الیکشن کمیشن کی بات کی ہے، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ کہیں پر کسی نے بھی آواز نہیں نکالی، اگر میں گڑ بڑ کرتا تو ہر جگہ سے آواز آتی کہ یہاں ڈی سی نے یہ کیا وہاں وہ کیا، بل کہ مستونگ میں تو ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ہمارے تین ڈسٹرکٹ ممبران دوبارہ گنتی میں ہار گئے۔ دوبارہ گنتی اسسٹنٹ کمشنر نے کرائی تھی۔ اگر میں مداخلت کرتا تو کچھ اور نتیجہ آتا۔ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ جتنی جمہوریت مضبوط ہوگی اتنا ہی اچھا ہوگا۔ اب آپ دیکھیں کہ اٹھارھویں ترمیم بہت بڑا کارنامہ ہے۔ جب پاکستان کی سیاسی آئینی تاریخ لکھی جائے گی اس میں اٹھارھویں ترمیم کا بہت اونچا مقام ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اٹھارھویں ترمیم کو صحیح معنوں میں لاگو نہ کریں یا بہت سے لوگ جو وفاقی حکومت میں بیٹھے ہیں، وہ وزارتیں بنا رہے ہیں، صحت کی وزارت ہے، سیاحت کی وزارت ہے، تعلیم کی وزارت ہے، جو آئینی نہیں ہے۔ فیڈرل ازم کا صحیح مفہوم ہی یہی ہے کہ اختیارات مرکز سے صوبے ، صوبے سے ڈسٹرکٹ اور یوسی سطح پر منتقل ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اختیارات کو نیچے تک پہنچائیں۔ چاہے تعلیم، صحت، واٹر سپلائی حوالے سے اختیارات ہوں، یہ یونین کونسل لیول تک جانے چاہییں۔ اٹھارھویں ترمیم کے بعد مجھے دہلی یونیورسٹی میں بلایا گیا۔ ہم نے اٹھارھویں ترمیم کے بارے میں بتایا، تو کوئی بھی یقین نہیں کررہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں آپ لوگ کنکرینٹ لسٹ کو بھی ختم کردیں۔ دیکھیں اٹھارھویں ترمیم کے حوالے سے کچھ وفاقی حکومت کی اور کچھ ہماری ذمے داریاں ہیں۔ پولیس کو ٹھیک کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلوچستان کو آن بورڈ کرے، بے روزگاری کو ختم کرنے میں ہماری مدد کرے، ہمیں میگا پراجیکٹ دے، جو پنجاب اور اسلام آباد میں شروع کیے ہیں۔ اگر ہم کہیں وفاقی حکومت ہمیں اسکول بنا کر دے، تو یہ صحیح نہیں، یہ ہماری ذمے داری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم لوگ چیزوں کو مثبت انداز میں دیکھیں تو ہم چیزوں کو بہتر کرسکتے ہیں۔

سوال: اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے جو اختیارات منتقل ہوئے ہیں آپ ان سے کس حد تک مطمئن ہیں؟

ڈاکٹرعبدالمالک: دیکھیں اگر آپ کہیں کہ اٹھارھویں ترمیم سے میں مطمئن ہوں، تو میں مطمئن نہیں ہوں۔ ہماری پارٹی کی ترجیح تین محکمے تھے دفاع، خارجہ امور اور کرنسی مرکز کودے دیں۔ لیکن مرکز کے پاس پانچ محکمے ہیں۔ پارٹII کی جتنی کلاز ہیں وہ انڈر ڈومن آف سی سی آئی آئی ہیں۔ یہ وفاقی حکومت کا نہیں، ڈومن سی سی آئی کا ہے اور سی سی آئی میں ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں۔ تومیں سمجھتا ہوں کہ جو ملا ہے یہ ٹھیک ہے مزید کے لیے ہمیں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ گوادرپورٹ ہمیں ملے۔ دنیا میں بڑے بڑے پورٹس لوکل باڈیز کو ملے ہیں ہم تو صوبہ ہیں۔ اگر ہمیں پورٹ مل جائے تو اس کا تمام ترقیاتی عمل ہماری نگرانی میں ہوگا۔ اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

سوال: اکیسویں ترمیم کو آپ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ ایک اچھا اقدام ہے؟

ڈاکٹرعبدالمالک: اکیسویں ترمیم ایک اچھا اقدام ہے۔ کوئی بھی جمہوری شخص اکیسویں ترمیم کو بہت اچھا نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ ترمیم جن حالات میں کی گئی ان میں اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا، کیوںکہ ہم مذہبی انتہاپسندی میں بہت دور جاچکے ہیں اور چیزیں سنبھالی نہیں جارہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جو چیزیں ہم نے دی ہیں وہ اس وقت کے لیے ضروری تھیں۔ اس پر ہم نے کافی مشاورت کی۔ اگر اس سے پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی ختم ہوجائے یا کم ہوجائے، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بڑی ترمیم ہے۔

سوال: مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اگر اختلاف نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ جون2014ء میں صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے، اس کے بعد ابھی تک نہیں ہوا۔ اے سی ایس کے بارے میں باہر بات کرتے ہیں کہ اس کا باقاعدہ ٹینڈر ہوتا ہے، اس کی بولی لگ رہی ہوتی ہے16کروڑ،18کروڑ روپے کی۔ اس لیے اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوپارہا ہے۔

ڈاکٹرعبدالمالک: جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔ البتہ مسلم لیگ کے دوستوں کو کچھ تحفظات تھے وہ ہم نے مختلف فورمز میں بیٹھ کر دور کیے اور کوشش کررہے ہیں کہ جلد ہی کابینہ کا اجلاس ہو، تاکہ ہم جلد کمیٹیاں بنائیں اور صحیح معنوں میں فعال ہوجائیں۔ اگر کسی کی پوسٹنگ رہتی ہے یا رہ گئی ہے، تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ جی بولیاں لگی ہیں، شاید اس کی اور وجوہات ہوں گی جو پوسٹیں خالی ہیں ہم جلد انہیں پُر کررہے ہیں۔

سوال: ڈاکٹر صاحب! اگر میر حاصل بزنجو نے کوئی اڑھائی سال کا معاہدہ کیا ہے تو پھر آپ کے پاس کیا وقت رہے گا یہ کام کرنے کے لیے؟

ڈاکٹرعبدالمالک: جب میں منسٹر تھا اور اب وزیراعلیٰ ہوں۔ میں اقتدار میں زیادہ بہ ہوش وحواس ہوتا ہوں۔ اگر میں نے آپ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور میں اسے پورا نہیں کروں گا تو میں برا محسوس کروں گا۔ جب تک ہم بلوچستان کی خدمت کرسکتے ہیں کریں گے، نہیں ہوا تو کسی اور حوالے سے کریں گے۔ اقتدار تو ہر چیز نہیں ہے۔

سوال: اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی خدمت کرلیں گے؟

ڈاکٹرعبدالمالک: میری تربیت ایسی ہوئی ہے کہ مجھے اقتدار کے ڈھنگ نہیں آتے۔ یہ میں بہت سی جگہوں پر کہ چکا ہوں کہ ہماری تربیت تو نعرے بازی میں ہوتی ہے۔ مجھ اب اقتدار ملا ہے، حکم رانی ایک فن ہے، جس سے میں نابلد ہوں۔

سوال: یہ اچھا نہیں ہوتا کہ اکنامک فورم کوئٹہ میں یا گوادر میں کیا جاتا تو سرمایہ کاروں پر اچھا اثر ملتا؟

ڈاکٹرعبدالمالک: میں آپ سے متفق ہوں۔ ہمیں ڈونرز اور سفارت کاروںکو بتانا تھا کہ یہ ہمارے مسائل ہیں ۔ ہمیں تو اپنا کیس پیش کرنا ہے۔ جہاں ہمیں سرمایہ کار اور سفارت کار ملیں گے وہاں رزلٹ بہتر آئے گا۔

سوال: گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی پر اپوزیشن اور دوسرے لوگوں کو اعتراض ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹرعبدالمالک: مجھے پتا نہیں کہ روٹ تبدیل کیا ہے یا نہیں کیا، لیکن میں نے وفاقی حکومت سے سفارش کی ہے کہ اگر آپ اس روٹ کو یہاں ژوب سے ملالیں تو اچھا آئیڈیا ہے۔ اس وقت یہ ہورہا ہے کہ گوادر ٹو ڈیرو سے ملائیں گے اور ہم کہتے ہیں کہ اس کو اس طرح ملائیں تو بہتر ہے، لیکن اگر ہم چیزوں کو متنازعہ کرلیں گے تو آگے نہیں جائیں گے، لیکن ان کے اپنے وسائل ہیں، اس کو وہ دیکھ رہے ہیں۔

سوال: ریکوڈک کے معاملے کا کیا بنا۔ ایک اطلاع ہے کہ اس پروجیکٹ کے تحت کانوں سے یورینیم بھی نکالی گئی ہے، اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا؟

ڈاکٹرعبدالمالک: اس کی فزیبلٹی رپورٹ بہت ضخیم ہے، 30/28 جلدوں پر مشتمل۔ اس میں یورینیم نہیں ہے۔ یہ کاپر گولڈ پروجیکٹ ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چیزوں کو معاشی اور فنی اعتبار سے نہیں دیکھتے، صرف سیاسی انداز میں دیکھتے ہیں۔ ہمیں اسے دونوں حوالوں سے دیکھنا چاہیے۔ سیاسی انداز میں تو ہم کلیئر ہیں کہ یہ پروجیکٹ بلوچستان کا ہے۔ اس کا فائدہ بھی بلوچستان کو پہنچنا چاہیے، چاغی کو پہنچنا چاہیے۔ لیکن انہیں کیسے یہ فائدہ پہنچنا چاہیے؟ یہ ایک سوال ہے۔ ریکوڈک پر میری اپنی رائے بھی ہے۔ میری پارٹی کی اور میری ذاتی رائے بھی ہے کہ میں ریکوڈک کو عوام کے مفاد میں بلوچستان کے مفاد میں جتنا شفاف بناسکتا ہوں بناؤں گا۔ اگر کوئی مجھے کہے کہ آپ ریکوڈک پر سودے بازی کررہے ہیں، جو میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میرا ایمان ہے کہ اﷲتعالیٰ مجھ سے غلطی سے بھی ایسا نہ کرائے۔ یہ بڑا ٹیکنیکل مسئلہ ہے۔ میں شعوری طور پر کوئی غلط فیصلہ نہیں کروں گا، جو بلوچستان اور یہاں کے عوام کے خلاف ہو۔ ریکوڈک کو میں جتنا شفاف کرسکتا ہوں کروں گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بہتان بازی کرنے کے بجائے حقیقت پسند بن جائیں۔ ڈیڑھ سال میں میرے پاس جتنے بھی لوگ آئے میں نے کہا کہ میں تو ریکوڈک کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں، جب اسے سمجھ لو ں گا تو پھر اس پر بات کروں گا۔ میں نے وفاقی حکومت سے بھی بات کی ہے کہ وفاقی حکومت ہمیں اپنے ماہرین دے دے ، ہم مل کر ریکوڈک کو جتنا شفاف اور ملک و بلوچستان کے مفاد میں بناسکتے ہیں بنائیں گے۔

http://www.express.pk/wp-content/uploads/2015/02/m21.jpg

سوال: مخلوط حکومت میں اتحادی جماعتیں ہیں خصوصاً مسلم لیگ (ن)۔ ق لیگ بھی ساتھ ہے۔ آپ کے اور ان کے درمیان تناؤ کیوں ہے؟

ڈاکٹرعبدالمالک: میں تو اس گیم میں تھا ہی نہیں۔ ہم نے تو مسلم لیگ کو لکھ کر دے دیا تھا کہ جسے آپ نام زد کریں گے نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ اسے سپورٹ کرے گی اور ہم نے کبھی مطالبہ بھی نہیں کیا کہ آپ ہمیں وزارت اعلیٰ دے دیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور مسلم لیگی لیڈر شپ نے مجھے نام زد کیا۔ میری شروع دن سے کوشش رہی ہے، آج بھی ہے، کہ مخلوط حکومت کو مثبت انداز میں چلاؤں اور تمام اتحادی ساتھیوں کو ساتھ لے کر چلوں۔ اتحادی اتحادی ہوتے ہیں کبھی اوپر نیچے معاملات ہوجاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جب تک وہ مجھے سمجھتے ہیں کہ میں اسے صحیح طور پر چلاسکتا ہوں۔ میں اسے چلاؤں گا اور جس وقت میں نے محسوس کیا کہ میں اپنا اعتماد کھوچکا ہوں تو پھر میں جو ایک سیاسی طریقۂ کار ہوتا ہے اسی پر چلوں گا، لیکن میری کوشش ہے کہ مخلوط حکومت میں چاہے ن لیگ کے دوست ہوں یا ق کے دوست، پشتونخواملی عوامی پارٹی یا میری جماعت کے ساتھی ہوں، سب کو ساتھ لے کر چلوں۔ ہماری پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کا اجلاس دو روز سے جاری ہے اور ہماری پارٹی میں بھی اتنی شدید تنقید ہوتی ہے، شاید وہ دوسرے لوگ نہ کریں جتنی ہم آپس میں کرتے ہیں۔ میں کوشش کررہا ہوں جب تک میری ذمہ داری ہے، میں کیپٹن ہوں، میں اس شِپ کو داؤ پر نہ لگاؤں، اس کو بہتر طور پر چلاؤں۔

سوال: اس دعوے میں کس حد تک سچ ہے کہ اڑھائی اڑھائی سال حکومت کرنے کا کوئی معاہدہ ہوا ہے ؟

ڈاکٹرعبدالمالک: اس پر آپ لوگوں نے خبریں بھی شایع کی ہیں۔ پتا نہیں آپ لوگوں کو کہاں سے ملی ہیں۔ ان مذاکرات میں میں نہیں تھا جو مذاکرات لیڈر شپ نے کیے ہیں۔ اگر اڑھائی، اڑھائی سال کیے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر پانچ پانچ سال بھی کے تو بھی ٹھیک ہے۔ دو دو سال بھی کے ہیں تو ٹھیک ہے۔ وہ مذاکرات محمود خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو اور میاں نواز شریف اور نواب ثناء اﷲ نے کیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میری وزارت اعلیٰ کوئی ایشو نہیں۔ اصل مقصد بلوچستان ہے، بلوچستان کے عوام ہیں، یہاں کے حالات ہیں، جو بھی حالات ٹھیک کرسکتا ہے میں اس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہوں۔

سوال: یہ آپ کے علم میں نہیں کیا اس بارے میں آپ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اس وقت آپ پارٹی صدر بھی تھے۔

ڈاکٹرعبدالمالک : میں صدر تھا لیکن جو مذاکرات ہوئے وہ میر حاصل خان بزنجو نے کیے تھے۔ کچھ چیزیں تنظیمی ہیں جو میں نہیں بتا سکتا۔

سوال: صوبائی خود مختاری کے حوالے سے آپ نے دوسری جماعتوں سے مل کر جدوجہد کی، اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں کہ میئر شپ کا فیصلہ بھی اسلام آباد میں کیا گیا؟

ڈاکٹرعبدالمالک: یہ ایسی باتیں ہیں کہ میئر شپ کا فیصلہ پارٹی کے سربراہ کرتے ہیں، اگر مسلم لیگ کے صدر نوازشریف ہیں تو وہی فیصلہ کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسلم لیگ کی دور اندیشی ہے جس نے یہاں افہام و تفہیم کا ماحول پیدا کیا ہے۔ ورنہ آج آپ کا سوال مختلف ہوتا کہ یہاں کونسلر کتنے میں فروخت ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں میں نے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حکومت کو غیرجانب دار رکھا۔ میں نے یہ ضرور کہا کہ کلیم اﷲ اچھے امیدوار ہیں لیکن میں نے حکومتی مشینری کہیں بھی استعمال نہیں کی۔ میں نے چیف سیکریٹری سے سختی کے ساتھ کہا کہ جوہدایات چیف الیکشن کمشنر کی ہیں ان پر عمل درآمد کریں، کیوںکہ ہم نے اپنی زندگی میں ہمیشہ الیکشن کمیشن پاور کی بات کی ہے۔ غیرجانب دار الیکشن کمیشن کی بات کی ہے، تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ کہیں پر کسی نے بھی آواز نہیں نکالی، اگر میں گڑ بڑ کرتا تو ہر جگہ سے آواز آتی کہ یہاں ڈی سی نے یہ کیا وہاں وہ کیا، بل کہ مستونگ میں تو ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ہمارے تین ڈسٹرکٹ ممبران دوبارہ گنتی میں ہار گئے۔ دوبارہ گنتی اسسٹنٹ کمشنر نے کرائی تھی۔ اگر میں مداخلت کرتا تو کچھ اور نتیجہ آتا۔ ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ جتنی جمہوریت مضبوط ہوگی اتنا ہی اچھا ہوگا۔ اب آپ دیکھیں کہ اٹھارھویں ترمیم بہت بڑا کارنامہ ہے۔ جب پاکستان کی سیاسی آئینی تاریخ لکھی جائے گی اس میں اٹھارھویں ترمیم کا بہت اونچا مقام ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اٹھارھویں ترمیم کو صحیح معنوں میں لاگو نہ کریں یا بہت سے لوگ جو وفاقی حکومت میں بیٹھے ہیں، وہ وزارتیں بنا رہے ہیں، صحت کی وزارت ہے، سیاحت کی وزارت ہے، تعلیم کی وزارت ہے، جو آئینی نہیں ہے۔ فیڈرل ازم کا صحیح مفہوم ہی یہی ہے کہ اختیارات مرکز سے صوبے ، صوبے سے ڈسٹرکٹ اور یوسی سطح پر منتقل ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اختیارات کو نیچے تک پہنچائیں۔ چاہے تعلیم، صحت، واٹر سپلائی حوالے سے اختیارات ہوں، یہ یونین کونسل لیول تک جانے چاہییں۔ اٹھارھویں ترمیم کے بعد مجھے دہلی یونیورسٹی میں بلایا گیا۔ ہم نے اٹھارھویں ترمیم کے بارے میں بتایا، تو کوئی بھی یقین نہیں کررہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں آپ لوگ کنکرینٹ لسٹ کو بھی ختم کردیں۔ دیکھیں اٹھارھویں ترمیم کے حوالے سے کچھ وفاقی حکومت کی اور کچھ ہماری ذمے داریاں ہیں۔ پولیس کو ٹھیک کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلوچستان کو آن بورڈ کرے، بے روزگاری کو ختم کرنے میں ہماری مدد کرے، ہمیں میگا پراجیکٹ دے، جو پنجاب اور اسلام آباد میں شروع کیے ہیں۔ اگر ہم کہیں وفاقی حکومت ہمیں اسکول بنا کر دے، تو یہ صحیح نہیں، یہ ہماری ذمے داری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم لوگ چیزوں کو مثبت انداز میں دیکھیں تو ہم چیزوں کو بہتر کرسکتے ہیں۔

سوال: اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے جو اختیارات منتقل ہوئے ہیں آپ ان سے کس حد تک مطمئن ہیں؟

ڈاکٹرعبدالمالک: دیکھیں اگر آپ کہیں کہ اٹھارھویں ترمیم سے میں مطمئن ہوں، تو میں مطمئن نہیں ہوں۔ ہماری پارٹی کی ترجیح تین محکمے تھے دفاع، خارجہ امور اور کرنسی مرکز کودے دیں۔ لیکن مرکز کے پاس پانچ محکمے ہیں۔ پارٹII کی جتنی کلاز ہیں وہ انڈر ڈومن آف سی سی آئی آئی ہیں۔ یہ وفاقی حکومت کا نہیں، ڈومن سی سی آئی کا ہے اور سی سی آئی میں ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں۔ تومیں سمجھتا ہوں کہ جو ملا ہے یہ ٹھیک ہے مزید کے لیے ہمیں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ گوادرپورٹ ہمیں ملے۔ دنیا میں بڑے بڑے پورٹس لوکل باڈیز کو ملے ہیں ہم تو صوبہ ہیں۔ اگر ہمیں پورٹ مل جائے تو اس کا تمام ترقیاتی عمل ہماری نگرانی میں ہوگا۔ اس کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

سوال: اکیسویں ترمیم کو آپ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا یہ ایک اچھا اقدام ہے؟

ڈاکٹرعبدالمالک: اکیسویں ترمیم ایک اچھا اقدام ہے۔ کوئی بھی جمہوری شخص اکیسویں ترمیم کو بہت اچھا نہیں کہہ سکتا۔ لیکن یہ ترمیم جن حالات میں کی گئی ان میں اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا، کیوںکہ ہم مذہبی انتہاپسندی میں بہت دور جاچکے ہیں اور چیزیں سنبھالی نہیں جارہیں۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ جو چیزیں ہم نے دی ہیں وہ اس وقت کے لیے ضروری تھیں۔ اس پر ہم نے کافی مشاورت کی۔ اگر اس سے پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی ختم ہوجائے یا کم ہوجائے، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بڑی ترمیم ہے۔

سوال: مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اگر اختلاف نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ جون2014ء میں صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوتا ہے، اس کے بعد ابھی تک نہیں ہوا۔ اے سی ایس کے بارے میں باہر بات کرتے ہیں کہ اس کا باقاعدہ ٹینڈر ہوتا ہے، اس کی بولی لگ رہی ہوتی ہے16کروڑ،18کروڑ روپے کی۔ اس لیے اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوپارہا ہے۔

ڈاکٹرعبدالمالک: جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔ البتہ مسلم لیگ کے دوستوں کو کچھ تحفظات تھے وہ ہم نے مختلف فورمز میں بیٹھ کر دور کیے اور کوشش کررہے ہیں کہ جلد ہی کابینہ کا اجلاس ہو، تاکہ ہم جلد کمیٹیاں بنائیں اور صحیح معنوں میں فعال ہوجائیں۔ اگر کسی کی پوسٹنگ رہتی ہے یا رہ گئی ہے، تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ جی بولیاں لگی ہیں، شاید اس کی اور وجوہات ہوں گی جو پوسٹیں خالی ہیں ہم جلد انہیں پُر کررہے ہیں۔

سوال: ڈاکٹر صاحب! اگر میر حاصل بزنجو نے کوئی اڑھائی سال کا معاہدہ کیا ہے تو پھر آپ کے پاس کیا وقت رہے گا یہ کام کرنے کے لیے؟

ڈاکٹرعبدالمالک: جب میں منسٹر تھا اور اب وزیراعلیٰ ہوں۔ میں اقتدار میں زیادہ بہ ہوش وحواس ہوتا ہوں۔ اگر میں نے آپ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور میں اسے پورا نہیں کروں گا تو میں برا محسوس کروں گا۔ جب تک ہم بلوچستان کی خدمت کرسکتے ہیں کریں گے، نہیں ہوا تو کسی اور حوالے سے کریں گے۔ اقتدار تو ہر چیز نہیں ہے۔

سوال: اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی خدمت کرلیں گے؟

ڈاکٹرعبدالمالک: میری تربیت ایسی ہوئی ہے کہ مجھے اقتدار کے ڈھنگ نہیں آتے۔ یہ میں بہت سی جگہوں پر کہ چکا ہوں کہ ہماری تربیت تو نعرے بازی میں ہوتی ہے۔ مجھ اب اقتدار ملا ہے، حکم رانی ایک فن ہے، جس سے میں نابلد ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔