سودی معیشت کا کارپوریٹ کلچر اور اس کا لٹریری فیسٹیول

اوریا مقبول جان  پير 23 فروری 2015
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

اگر بڑی بڑی نئے ماڈل کی چمکدار گاڑیوں سے اترتے ہوئے ڈیزائنر ملبوسات زیب تن کیے لوگ الحمرا لاہور کی روشوں پر چلتے ہوئے ہاتھوں میں انگریزی زبان میں چھپا ایک ادبی تقریب کا بروشر تھامے ایک ایسی زبان بولتے نظر آئیں جسے آپ نہ انگریزی کہہ سکیں اور نہ ہی اردو، پنجابی تو خیر ان کو چھو کر بھی نہیں گزری ہوتی کہ اس کے بولنے سے ایک میلے پن کا تصور انھیں گھیر لیتا ہے، تو یوں سمجھیں آپ لاہور لٹریری فیسٹیول کے دنوں میں اس جگہ کو دیکھ رہے ہیں۔

کارپوریٹ سرمائے کی چکاچوند سے یہ میلہ اب ہر سال لگتا ہے جس کا ماحول پیرس کی کسی کیٹ واک سے مختلف نہیں ہوتا۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں کارپوریٹ کلچر کی اشرافیہ کے ملبوسات کی نمائش چند مشہور چہروں کے ذریعے کروائی جاتی ہے اور یہاں اسی کارپوریٹ کلچر کی اشرافیہ کے لیے تخلیق کیے گئے ادب کو چند مشہور چہروں کی موجودگی اور ملبوسات کی رنگا رنگی سے مقبول بنانے کی بھونڈی سی پیش کش کی جاتی ہے۔ نہ فیشن شو میں کیٹ واک کرتی خوبصورت ماڈلز نے جو ملبوسات زیب تن کیے ہوتے ہیں وہ عام آدمی کے ذوق کی چیز ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کو استعمال کرنے کی وہ استطاعت رکھتا ہے۔

اسی طرح جو ادب ایسے لٹریری فیسٹیول میں پیش کیا جاتا ہے یا جس پر بحث کی جاتی ہے، اس کا بھی عام آدمی سے دور کا واسطہ نہیں۔ اس کا تعلق تو گزشتہ تیس سال میں پاکستان میں او لیول اور اے لیول سے جنم لینے والی ایک محدود تعداد سے ہے۔ ایک ایسی نسل جس کا اس زمین سے رشتہ صرف لاؤنج یا ڈرائنگ روم میں چھابے لٹکانے، اجرک کو فریم کروانے، یا گاؤں میں بسنے والی کسی خاتون کی کڑھائی کو جدید فیشن کے ملبوسات پر لگا کر اسے ایک علاقائی تعلق سے نوازنے تک محدود ہے۔ جو اپنے گزشتہ ماضی کی کہانیاں ایسے پڑھتے ہیں جیسے امریکا پر قابض نو آبادیاتی گورے ریڈ انڈین کے قصے پڑھا کرتے تھے۔

نو آبادیاتی گورے خودکو غیر متعصب ثابت کرنے کے لیے ان کے بارے میں نظمیں، افسانے اور ناول بھی تحریر کرتے تھے، ہالی ووڈ ان پر فلمیں بناتا تھا لیکن یہ سب کا سب صرف اور صرف تفنن طبع کے لیے ہے یا پھر کسی افسانے، ناول، ڈرامے یا تحقیق میں رنگ بھرنے کے لیے ہوتا ہے۔ میرے ملک میں لکھنے والوں کی ایک ایسی ہی نسل پیدا ہو گئی ہے جو یوں تو بہت محدود ہے لیکن یہ نسل ان لوگوں کو بہت بھاتی ہے جن کا ایجنڈا اور مقصد صرف ایک ہے کہ دنیا میں مشرق سے لے کر مغرب تک بظاہر ایک ہی طرح کا کلچر پروان چڑھے جسے وہ عرف عام میں لائف اسٹائل کہتے ہیں۔

اگر دنیا میں ہر ملک کے شہروں میں بسنے والے افراد ایک طرح کا پیزا، برگر اور چکن نہیں کھائیں گے، ایک طرح کی جینز، شرٹ اور کوٹ نہیں پہنیں گے، شیمپو، صابن، ٹوتھ پیسٹ استعمال نہیں کریں گے تو ان کارپوریٹ کمپنیوں کا مال نہیں بکے گا۔ ایسا سب کچھ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کو ایک طرح کا ادب بھی تخلیق کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا ادب جس کے تلازمے، استعارے اور صنف کی ساخت تک مغرب سے درآمد کی گئی ہو، لیکن اس میں کہانی کسی پسماندہ بستی کی سنائی جائے۔

یہ سب بھی قاری کو حیرت کے جہان میں لے جانے کے لیے کیا جاتا ہے کیونکہ جس نے اس ناول یا افسانے کو پڑھنا ہے ان کے نزدیک، غربت، بھوک، بیماری، اوپلے، میلے دانت، پھٹے پاؤں، سب ایک انوکھے ماحول کی چیزیں ہیں۔ ایسا ادب ایک خاص مقصد اور خاص تصور کے ساتھ تخلیق کیا جاتا ہے افسانوں، ناولوں، ڈراموں اور کہانیوں میں مخصوص تصور سے کردار تخلیق کیے جاتے ہیں۔ جس کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہو، اسے منفی طور پر پیش کیا جائے، جیسے گزشتہ دو سو سالوں میں جب سے انگریز یہاں آیا، فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی، ایسے ہزاروں ادیب وجود میں آئے جو یہاں کے صدیوں سے قابل احترام کرداروں کو منفی انداز میں پیش کرتے رہے اور کیا خوبصورت دعویٰ کرتے تھے کہ ہم تو حقیقت نگاری کرتے ہیں۔

ایک مولوی شیطان ہے اور ایک طوائف فرشتہ۔ کیا زمینی حقائق ہیں۔ پہلے یہ حقیقت نگاریاں علاقائی زبانوں میں ہوتی تھیں، لیکن اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ اب مال خریدنے کے لیے ایک ایسی کلاس وجود میں آ گئی ہے جو رہتی تو اپنے اپنے ملکوں میں ہے لیکن زندگی یعنی لائف اسٹائل عالمی یعنی انٹرنیشنل رکھتی ہے۔ ویسا ہی کھانا پینا، اوڑھنا، بچھونا اور اب تو ذریعہ تعلیم اور زبان بھی ویسی ہی ہوگئی ہے، ادب باقی رہ گیا تھا اب وہ بھی عالمی زبان کا اسیر ہوگیا۔ اب لاہور کے بارے میں جاننا ہو تو استاد دامن پڑھنے کے بجائے رڈ یار کپلنگ کی روایت تھامے کوئی لاہور میں پیدا ہونے والا پنجابی پڑھو جو انگریزی میں لکھتے لکھتے زیادہ معتبر ہو چکا ہے۔ یہ عام آدمی کے لیے نہیں بلکہ ان چند ہزار لوگوں کے لیے ہے جو اس طرح کے فیسٹیول کو آباد کرتے ہیں، وہ ان کے لیے لکھتا ہے۔

جان پر کنز نے جب اپنی مشہور کتاب Confession of an Economic Hitman لکھی تو دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ پچیس سال تک اس کتاب کو کسی پبلشر نے چھاپنے کی جرات تک نہ کی۔ اس لیے کہ اس نے مجبور اور چھوٹی معیشتوں کو تباہ و برباد کرنے کی سودی بینکاری اور عالمی قرضوں کے نظام سے پردہ اٹھایا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ جہاں ہم بڑے بڑے سودی مالیاتی ادارے وسائل سے مالا مال ملکوں کو بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں جیسے موٹروے، ائر پورٹ، میٹرو، ڈیم وغیرہ کے لیے قرضے دے کر ان کی معیشتیں اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، وہیں ہم ان معاشروں کے محدود طبقے کو پر تعیش زندگی گزارنے کے لیے وسائل بھی مہیا کرتے ہیں جو ان وسائل سے ہمارا ہی مال بالآخر خریدتے ہیں۔

وہ کہتا ہے جب میں افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک میں معاشی قرضوں کے لیے حکومتوں سے مذاکرات کرتا تھا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا کہ جن ملکوں کا ہم نے قرضوں سے خون نچوڑ رکھا ہے، جہاں غربت، افلاس، بھوک، بیماری اور جہالت گردش کر رہی ہے وہاں شہروں میں عالمی ریستورانوں، اور عالمی برانڈ کی دکانوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان سب کے خریدار ان کمپنیوں کے وہ اعلیٰ عہدیدار ہوتے تھے جو وہاں کے وسائل لوٹنے کے لیے قائم ہوتیں یا پھر ان این جی اوز کے اہلکار جنھیں دنیا بھر کی حکومتیں سرمایہ فراہم کرتی ہیں۔

ان دونوں طبقات کے لیے علیحدہ اسکول، علیحدہ اسپتال، علیحدہ کلب کھولے جاتے ہیں، یہ علیحدہ قسم کے شاپنگ مالوں میں خریداری کرتے ہیں اور ان کے ادب اور موسیقی کے لیے بھی علیحدہ فیسٹیول منعقد ہوتے ہیں۔ یہ فیسٹیول ایک عالمی کارپوریٹ معاشرے کی تصویر ہوتے ہیں لیکن ان میں علاقائی زبانوں، موسیقی اور ادب کو بھی نمایندگی دی جاتی ہے، جیسے کسی عجائب گھر کی گیلریوں میں ایک گیلری علاقائی ثقافت کے لیے مخصوص کر دی جائے۔

لاہور کے لٹریری فیسٹیول کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ اس سارے انگریزی ماحول میں اردو اور دیگر زبانوں کا حال اس پنجرے کے بندر کی طرح تھا جو ان کی ڈگڈئی پر ناچتا ہو۔ کیا دیر، سوات، اٹک، اوکاڑہ، دادو، شکار پور، خضدار اور سبی میں ایسا ہی ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ ہزاروں لکھنے والے اپنی انتہائی شاندار کاوشیں جو ان کے دکھوں سے بھرپور اور ان کی زندگی سے عبارت ہوتی ہیں، لے کر منوں مٹی تلے سو جاتے ہیں۔ گزر گیا وہ زمانہ جب پاک ٹی ہاؤس میں مفلوک الحال ادیب بھی عزت سے اپنی تصنیف ملک کے عظیم ادیبوں کو سنا سکتا تھا۔

جب ساری زندگی ساہیوال میں گزارنے والا مجید امجد پاکستان کے ہر بڑے ادبی رسالے میں فخر کے ساتھ چھاپا جاتا تھا۔ ایسا ادب آج بھی تخلیق ہو رہا ہے لیکن پاکستان کے اس ادب کی سودی معیشت سے جنم لینے والے کارپوریٹ کلچر کے اس لٹریری فیسٹیول کو ضرورت نہیں۔ ایسے لکھنے والے، دھرتی، دکھ اور بیماری کی بات کرتے ہیں اور وہ بھی اپنی زبان اور لہجے ہیں لیکن ان کے تو مقاصد ہی اور ہیں۔ کارپوریٹ کلچر کو ایک مرنجان مرنج ماحول اور ایسا ادب چاہیے ہوتا ہے جو عالمی زبان اور تہذیب کی اخلاقیات کا درس دیتا ہو۔

کیا کوئی ادارہ پیرس شہر میں انگریزی زبان میں لٹریری فیسٹیول منعقد کرنے کی فضول خرچی کر سکتا ہے یا پھر لندن شہر میں فرانسیسی زبان میں لٹریری فیسٹیول سجانے کی…یہ صرف مجبور معیشتوں اور سودی عالمی بینکاری سے جنم لینے والے مقروض معاشروں میں ہوتا ہے۔ جس قوم کو تباہ کرنا ہو، سب سے پہلے اس کی زبان اس سے چھینی جاتی ہے، پھر اسے جدھر چاہے مرضی ہانک دو، وہ شکایت تک نہیں کرتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔