چلیے جادونگری میں کمال دکھاتےجادو گروں کے شعبدوں کے پیچھے کون سے بھید چُھپے ہیں

سید بابر علی / اشرف میمن  اتوار 1 مارچ 2015
جانیے کیا ہے ان کی زندگی، کیسے ہیں ان کے حالات اور ان کے پیشے سے جُڑے دل چسپ واقعات ۔  فوٹو : فائل

جانیے کیا ہے ان کی زندگی، کیسے ہیں ان کے حالات اور ان کے پیشے سے جُڑے دل چسپ واقعات ۔ فوٹو : فائل

جادو ٹونے، جنتر منتر کے ماہر ہونے کے دعوے داروں کو جہاں خود پر یقین رکھنے والوں کی بڑی تعداد میسر ہے، وہاں ان کے مخالفین بھی موجود ہیں، جو اسے توہم پرستی قرار دیتے ہیں، لیکن شعبدہ گروں اور ان کے کمالات کا انکار کسی کو نہیں۔

یہ ایک قدیم فن ہے، جو کئی برس قبل تک یقیناً عام انسان کو خوف اور حیرت میں مبتلا کرنے کے ساتھ آسانی سے اپنا معتقد بنانے کا ذریعہ بھی رہا ہو گا، لیکن موجودہ دور میں ہاتھ کی صفائی کے کسی بھی مظاہرے کو ’میجک ٹرک‘ مانا جاتا ہے اور اس کا ماہر ’میجیشن‘ کہلاتا ہے۔

زمانۂ قدیم میں شعبدہ بازوں، ٹھگوں کے ہاتھوں جہالت اور توہم پرستی کی وجہ سے لوگ طرح طرح سے بے وقوف بنتے رہے اور شاید آج جدید دور میں بھی نوسرباز، اور کہا جاتا ہے کہ ہیپناٹزم کے ماہر یہی کام کررہے ہیں، لیکن اب یہ سب اتنا آسان نہیں رہا۔

یورپ میں بھی شعبدہ بازوں کا شور رہا اور دور جدید کے مشہور میجیشنز میں سے بھی زیادہ تر یورپ اور مغربی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ سہولیات اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ممالک میں تو آج بھی جنترمنتر اور جادو پر یقین رکھنے والے موجود ہیں اور اپنے مسائل اور مشکلات حل کروانے کے لیے ’جادوگروں‘ سے رجوع کرتے ہیں۔ افریقی ممالک میں اب بھی وچ ڈاکٹروں (عامل) کے ذریعے علاج کو ترجیح دی جاتی ہے۔ افریقی ملک ’لیسو تھو‘ اس کام میں سرفہرست ہے۔

پُراسرار علوم کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اور اس کے ماہرین کے نزدیک ’’جادو‘‘ کو دو حصوں کالا اور سفید میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ عام تصور یہ ہے کہ کالے عمل کے لیے جنوں اور بدروحوں کی مدد لی جاتی ہے اور یہ غلط مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ سفید جادو نیکی کے دیوتاؤں اور ارواح کی مدد سے جائز اور اچھی مراد پوری کرنے کا ذریعہ ہے۔

ہمارے معاشرے میں جعلی عاملوں کا بڑا زور ہے، جو تعویز گنڈے کے ماہر ظاہر کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جن بھوت اتارنے سے لے کر محبت کی شادی اور طلاق تک کے معاملات حل کرسکتے ہیں۔ ہندو مت میں جادو کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ آج بھی بھارت میں سادھو اور جوگی اپنے چمتکار دکھا کر سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔

دوسری طرف بھارت میں ’میجک‘ سکھانے کے متعدد ادارے بھی قائم ہوچکے ہیں اور اسے ایک فن کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستان میں بھی میجیشنز موجود ہیں، جو بھرے مجمع میں ’کمالات‘ دکھا کر اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں۔ تاہم ہر شعبے کی طرح اس ملک میں یہ فن بھی سرکاری سرپرستی اور توجہ سے محروم ہے۔

٭منور خان اور مظفر خان
ان بھائیوں نے ’میجک‘ کو بہ طور پیشہ اپنایا ہے۔ ان کے والد منظور حسین نے پی ٹی وی پر اداکار کی حیثیت سے شہرت پائی۔ والد کی وجہ سے ان بھائیوں کو میجک سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ گریجویشن کے بعد یہ ہر اُس شخص کے پاس گئے جس سے کوئی معمولی ٹرک بھی سیکھنے کی امید تھی۔

امریکی الوژنسٹ ڈیوڈ کاپر فیلڈ اور آنجہانی امریکی اسٹیج میجیشن لینس برٹن کو ماننے والے یہ دونوں بھائی ہیپناٹزم اور ٹیلی پیتھی میں بھی ماہر ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے انٹرنیٹ اور کتب کا مطالعہ بھی کیا۔ سات سال قبل ایک ریئلٹی شو ’دَم ہے‘ نے انہیں شہرت سے نوازا۔ اس شو میں منور خان اور مظفر خان نے مختلف فنون کے سو سے زاید ماہروں کو شکست دے کر دس لاکھ روپے جیتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لوگوں میں اس فن کا شعور اور دل چسپی بڑھائی جانی چاہیے۔

منور خان نے بتایا کہ ہم اسکولوں اور مختلف پروگراموں میں اپنے شوز کے بعد لوگوں پر اپنی ’ٹرکس‘ بھی ظاہر کرتے ہیں۔ ہم بتاتے ہیں کہ کس الوژن کے پیچھے کون سی ٹِرک استعمال کی۔ یہ دونوں مختلف ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ ہم سے عجیب و غریب فرمائشیں کرتے ہیں، خصوصاً خواتین ہم ساس یا شوہر کو ’راہ راست‘ پر لانے کا مطالبہ بھی کرتی ہیں۔ مظفر خان کا کہنا ہے کہ کچھ نوسر باز چند ٹرکس سیکھ کر خواتین کو بے وقوف بناتے ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں مارننگ شوز میں ایسے جعلی عاملوں اور دھوکے بازوں کی تشہیر بھی کی جارہی ہے۔

دیگر میجیشنز کی طرح منور خان بھی جادوئی کمالات (عمارت کو نظروں سے اوجھل کرنا، کسی انسان کے دھڑ کو دو حصوں میں تقسیم کرنا، پانی پر چلنا) کو کیمرے اور میجیشن کی مہارت قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کسی عمارت یا یادگار کو غائب کرنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا مشکل اس کام میں خرچ ہونے والی رقم کا حصول ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایسے الوژن میں کوئی بھی عمارت یا مجسمہ صرف ایک سمت سے ہی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے، اور وہاں موجود افراد کو ایک مخصوص سمت میں بٹھایا جاتا ہے۔ لیکن اس الوژن کے لیے بہت خطیر رقم درکار ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر دوسرا میجیشن ایم سی بی ٹاور، حبیب بینک پلازہ یا مینار پاکستان کو نظروں سے اوجھل کرنے کے دعوے کرتا رہتا ہے کیوں کہ اسے پتا ہے کہ چند منٹ کے اس الوژن (فریبِ نظر) کے لیے حکومتی یا انفرادی طور پر کوئی بھی لاکھوں، کروڑوں روپے خرچ نہیں کرے گا اور نہ ہی اُس کا دعویٰ غلط ثابت ہوسکے گا۔

مظفرخان کا کہنا ہے کہ اسٹیج پر پرفارم کرتے وقت موسیقی، روشنی اور ٹیم میں شامل ہر فرد کا صحیح وقت پر اپنا کام کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے،۔ چند لمحے کی تاخیر بھی شعبدے باز کی موت یا زخمی ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ چند سال قبل وہ ایک میجک شو میں رسی کے ٹکڑے کر کے اُسے جوڑنے کا مظاہرہ کرر ہے تھے۔ اسی اثنا میں بیک گراؤنڈ میوزک بند ہوگیا، جس کی وجہ سے اُن کے ہاتھ کا انگوٹھا کٹ گیا تھا۔

ایسے ہی ایک واقعہ مظفر خان نے سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ 5 سال قبل ایک شو کے دوران مجھے خالی ڈبے سے برآمد ہونا تھا۔ میں اُس ڈبے میں بنے خفیہ خانے میں موجود تھا۔ لیکن میرا اسسٹنٹ مجھے باہر نکالنا بھول کر دوسرے میجک دکھانے میں مصروف ہوگیا۔ اس خفیہ خانے کی خاص بات یہ ہے کہ اسے باہر ہی سے کوئی کھول سکتا ہے۔ کچھ دیر تک بند رہنے کی وجہ سے میرا دم گھٹنے لگا۔ تقریباً 10منٹ بعد اس شو میں موجود میجیشن نفیس کو میری غیرموجودگی کا احساس ہوا اور اس نے مجھے باہر نکالا۔ اگر وہ نہیں ہوتے تو شاید میں آج زندہ نہ ہوتا۔

ٹیلی پیتھی کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ہم نے اس بارے میں بہت سے مفروضے قائم کر رکھے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹیلی پیتھی سے آپ آواز سن کر کسی کے بھی دماغ کو تابع کرکے اپنے حکم کا غلام بناسکتے ہیں، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس علم کے لیے آپ کی اپنے معمول سے بہت اچھی انڈراسٹینڈنگ ہونی چاہیے۔

میری اور چھوٹے بھائی مظفر کی آپس میں بہت زیادہ بنتی ہے۔ اسی وجہ سے میں اُس کا دماغ پڑھ سکتا ہوں اور اس کا مظاہرہ ہم نے ’دم ہے‘ میں بھی کیا تھا۔ اس شو میں موجود حاضرین نے ہمیں کاغذ پر جو بات لکھ کردی وہی بات مظفر نے آنکھ اور کان بند ہونے کے باوجود میرے دماغ کو پڑھ کر بتادی تھی۔

٭ شاہ رخ ظہور خان
کراچی یونیورسٹٰی سے گریجویشن کرنے والے شاہ رُخ ظہور خان کو بچپن ہی سے کچھ منفرد کرنے کا شوق جادوئی کمالات کی اس دنیا میں لے آیا۔ میٹرک کے امتحانات کے بعد جب لڑکے سیرسپاٹوں میں اپنا وقت گزارتے ہیں، شاہ رُخ نے اپنے اس وقت کو ضائع کرنے کے بجائے مثبت طریقے سے استعمال کرنے کا ارادہ کیا اور شعبدے بازی (میجک) کے تربیتی ادارے میں داخلہ لے لیا۔ چھے ماہ کے بنیادی کورس کے دوران اس فن میں شاہ رخ کی دل چسپی بڑھ چکی تھی۔

شاہ رخ کا کہنا ہے کہ ابتدا میں والدین نے ان کی کافی مخالفت کی تھی، لیکن اب وہ بھی میرے اس فن کو سراہتے ہیں۔ انہوں نے بنیادی کورس کے بعد انٹرنیٹ پر معلومات کے ساتھ اس فن کی مشقیں جاری رکھیں۔ ابتدا میں محدود پیمانے پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ چار سال قبل ایک مارننگ شو میں جانے کا اتفاق ہوا، جس کے بعد انہیں میڈیا پر پذیرائی ملنا شروع ہوئی۔

شاہ رُخ ظہور ایک نجی ٹی وی پر ’دھوکا‘ کے نام سے ڈیڑھ سال تک فریبِ نظر پر پروگرام کرچکے ہیں۔ مشہور امریکی میجیشن کرس اینجل کو اپنا گُرو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فن کا اسکوپ مغربی ممالک میں تو یقیناً بہت زیادہ ہے لیکن پاکستان میں اس کی سرپرستی نہیں کی جارہی۔ شاہ رخ کے مطابق پاکستان میں لوگ اب بھی الوژن یا فریب نظر کو کالے جادو سے تعبیر کرتے ہیں، جو کہ بالکل غلط ہے۔ یہی سوچ ہمارے یہاں میجیشن یا الوژنسٹ کو فن کار کی حیثیت سے تسلیم کرنے میں رکاوٹ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نوٹ پھاڑ کر جوڑنا، پانی کی سطح اور شیشے کے ٹکڑوں چلنا، رسی سے سانپ بنا دینا، سکے کو غائب کرنا یا پھول بنادینا، یہاں تک کہ کسی بڑی عمارت کو نظروں سے اوجھل کردینا بھی محض کیمرے کی تیکنیک اور میجیشن کی مہارت کا نتیجہ ہے۔ شاہ رخ کا کہنا ہے کہ وہ بھی اسی تیکنیک کی مدد سے مینار پاکستان یا کسی بھی عمارت کو نظروں سے غائب کر سکتے ہیں لیکن اس شعبدے کے لیے بھاری سرمایہ اور وقت درکار ہے۔

سافٹ ویئر ہاؤس میں ایپلی کیشن ڈیویلپر کی حیثیت سے کام کرنے والے شاہ رخ ایک نجی انسٹیٹیوٹ میں گرافک ڈیزائننگ کے مضمون کے مدرس بھی ہیں۔ وہ اپنے دفتر کے ساتھیوں اور طالب علموں کو بہت سے شعبدے (ٹرکس) بلامعاوضہ سکھاتے ہیں۔ شاہ رُخ کا کہنا ہے کہ یہ کام صرف شوق کی حد تک ٹھیک ہے، کیوں کہ یہ مکمل طور پر ہوائی روزی ہے۔

آپ ایک ماہ میں لاکھوں روپے بھی کما سکتے ہیں اور ایک ماہ میں ایک ہزار روپے بھی نہیں کما پاتے، لیکن میں ان تمام باتوں کے باوجود اس فن کو اپنے بچوں میں ضرور منتقل کروں گا، کیوں کہ اس سے نہ صرف ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ آپ لوگوں کو اپنا گرویدہ بھی بنا سکتے ہیں۔

الوژنسٹ اور میجیشن کا فرق اُنہوں نے یوں واضح کیا کہ میجک شو کم لاگت اور معمولی شعبدوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن کسی الوژن کے لیے بڑا اسٹیج اور آئٹم کی نوعیت کے مطابق رقم بھی درکار ہوتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ انسانی دھڑ کو دو حصوں میں تقسیم کرنا، ہوا میں اڑنا، سر تن سے جدا کردینا اور اس نوعیت کے دیگر آئٹمز الوژن میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے مختلف شعبدے اور انہیں پرفارم کرنے کی ٹرکس بھی سمجھائیں۔

شاہ رُخ اپنی آنکھوں کی مدد سے چمچے اور کانٹے کو موڑنے کے فن میں بھی طاق ہیں۔ اس انوکھی صلاحیت کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ اس کام کے لیے پورے دماغ کی توانائی کو ایک جگہ مرتکز کیا جاتا ہے، اور اس توانائی کو چمچے کانٹے موڑنے یا بلب جلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ لوگ اسے بھی جادو سمجھتے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے البتہ یہ کمال برسوں کی مشق سے حاصل ہوتا ہے۔

شاہ رخ کا کہنا ہے کہ کسی بھی آرٹسٹ کی طرح ہم بھی چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے فن کو سراہیں، ہمارے شوز میں ہر قسم کے تماشائی موجود ہوتے ہیں، کچھ اسٹیج پر ہمارے آئٹمز دیکھ کر ہمیں سراہتے ہیں اور کچھ ہم پر ہوٹنگ کرتے ہیں۔ انہیں نازیبا زبان استعمال کرتا دیکھ کر ہمارا دل خراب ہو جاتا ہے اور ہم اپنا شو جلدی ختم کر دیتے ہیں۔

٭ ارشد حسین اسٹریٹ میجیشن
اسٹریٹ میجیشن ارشد حسین کی کہانی کچھ انوکھی ہے۔ ایک روز سڑک پر مجمع دیکھ کر رک گئے۔ سحرزدہ چہروں سے ہوتی ہوئی نظر ایک نوجوان پر پڑی، جو جادوئی کمالات دِکھا رہا تھا۔

یہ پہلا موقع تھا، جب اْن کی آنکھوں کے سامنے اچانک رومال غائب ہوگیا اور راکھ نے ہزار روپے کے نوٹ کی شکل اختیار کر لی۔ مجمع چھٹا، تو ساحر کے پاس پہنچ گئے۔ کمالات سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ جواب میں سات ہزار روپے کا تقاضا کیا گیا۔ جیب میں ساڑھے چار ہزار روپے تھے، جو فوراً حوالے کر دیے۔ ساحر نے کچھ چیزیں ہاتھ میں تھمائیں۔ جْھکا، اور کان میں سرگوشیاں کرنے لگا۔

یہ نقطئہ آغاز تھا، اْس سفر کا جس نے ارشد حسین کو جادو کی حیرت بھری دنیا میں دھکیل دیا۔ کسی کو باقاعدہ استاد نہیں کیا۔ ٹِرکس کا ہمیشہ تنہا تعاقب کرتے رہے۔ جہاں ملیں، معاوضہ ادا کرکے سیکھ لیں۔ ٹی وی شوز نے اْن کی شہرت کو مہمیز کیا۔ ٹی وی پر 70 سے زاید شوز کرچکے ہیں، جن میں سے دو ’’دم ہے‘‘ اور ’’جادو‘‘ بے حد مقبول ہوئے۔

نجی تقریبات کی تعداد تو سیکڑوں میں ہے۔ اْن کے مشہور آئٹمز میں سامنے والے کا دماغ پڑھنا، کولڈ ڈرنک کے کین میں سکہ داخل کرنا، زمین کو ہاتھ لگائے بغیر مٹی اٹھانا، چْھوئے بغیر تسمے باندھ دینا اور شیشے سے سکہ گزارنا نمایاں ہیں۔

بلا کے بذلہ سنج اور چٹکلے سنانے کے ماہر ارشد لباس کے معاملے میں دیگر میجیشینز سے مختلف واقع ہوئے ہیں۔ عام طور سے شعبدے باز سوٹ پہنتا ہے، آستینیں اور جیبیں اشیا چھپانے میں معاون ہوتی ہیں، مگر ارشد ہمیشہ آدھے بازو کی شرٹ میں نظر آتے ہیں۔ ڈیوڈ کاپر فیلڈ کے وہ مداح ہیں۔ گائیکی کے علاوہ گٹار، ڈرم اور دیگر انسٹرومینٹس سے بھی رشتہ رہا۔بعد میں اِس شعبے سے الگ ہوگئے۔ آغاز میں سیکھی ہوئی ’’ٹِرکس‘‘ دوست احباب کے سامنے پیش کیا کرتے تھے۔ وقت شوق کے لیے مہمیز کا کام کرتا رہا۔ کتابوں کا مطالعہ شروع کیا۔

امریکا سے سی ڈیز منگوائیں، جن کے لیے ٹھیک ٹھاک پیسے خرچ کرنے پڑے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کے ’’دم ہے‘‘ نامی اْس ریالٹی شو کے سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی۔ اس پروگرام کی بدولت انہیں پورے ملک میں پہچانا جانے لگا۔ یہ ایک بڑی کام یابی تھی۔ ’’دم ہے‘‘ کے توسط سے اْنھیں ایک اور پرائیویٹ چینل کے شو ’’جادو‘‘ میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔ 26 اقساط پر مشتمل اِس شو کی بہت پزیرائی ہوئی۔ آنے والے دنوں میں اْنھیں متعدد ٹی وی چینلز کے شوز میں مدعو کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

میجیشین کے حوالے سے ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ کیا ہے؟ اِس بابت کہتے ہیں،’’میرا تجربہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں میجیشین کو عزت دی جاتی ہے۔ اب اِسے آرٹسٹ تسلیم کر لیا گیا ہے۔

ویسے بھی یہ پرفارمنگ آرٹ ہے۔‘‘ الوژنز میں اُن کی مہارت پر بات ہوئی، تو کہنے لگے،’’دنیا کے دوسرے ممالک کے میجیشین جو الوژنز کرسکتے ہیں، وہ میں بھی کرسکتا ہوں۔ مسئلہ اسپانسر کا ہے۔ دراصل الوژنز بہت آسان ہوتے ہیں، معاملہ تیکنیک، پریکٹس اور سرمائے کا ہے۔ میں بھی ہاتھی، ریل کا انجن اور ٹائی ٹینک غائب کرسکتا ہوں۔

اگر اسپانسر ہو، تو ڈیوڈ کاپر فیلڈ کی طرح مجسمئہ آزادی غائب کرسکتا ہوں۔‘‘ اْن کے مطابق جب تک آپ ’ٹِرک‘ سمجھ نہیں پاتے، فقط تب ہی تک وہ جادو ہے۔ سِکھانے کا سلسلہ بھی برسوں سے جاری ہے۔ ہر عمر کے افراد اْن سے ’’ٹِرکس‘‘ سیکھ چکے ہیں۔ فیس معمولی ہے۔ ’’معاوضہ کم رکھنے کی وجہ بڑھتی منہگائی ہے۔ فیس زیادہ ہوں گی، تو کون سیکھنے آئے گا۔‘‘

ارشد کے نزدیک الوژن نظر کا دھوکا ہے، مگر چند کم فہم اِسے نظربندی سمجھ لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، میجیشین ایک ایسی صورت حال پیدا کردیتا ہے، جس سے حاضرین کی نظر دھوکا کھا جاتی ہے۔ وہ نظربندی کو پوری طرح رد کرتے ہوئے کہتے ہیں، میجک میں اس کی نہ تو ضرورت ہے، نہ ہی گنجایش۔ ماضی کی طرح کیا آج بھی حاضرین یہ خیال کرتے ہیں کہ میجیشین پْراسرار قوتوں کا حامل ہوتا ہے؟ اِس تعلق سے کہتے ہیں، ’’نہیں۔ لوگ یہ سمجھ چکے ہیں کہ میجک ایک فن ہے۔

وہ اِس سے محظوظ ہوتے ہیں، البتہ اب بھی کچھ افراد ایسے ہیں، جو ڈر جاتے ہیں۔ اس میں کچھ پراسرار نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے یہ فن عام ہوگا، غلطی فہمیاں گھٹتی جائیں گی۔‘‘

دنیا کے بڑے شعبدے باز اور اُن کے بڑے دعوے
٭ ڈیوڈ کاپر فیلڈ
شہرۂ آفاق میجیشن ڈیوڈ کاپر فیلڈ کا تعلق امریکا سے ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ فضا میں آزادانہ سفر کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ کسی سہارے کے بغیر چند لمحوں میں دیوار چین کو بھی عبور کر سکتے ہیں۔ انہیں اس صدی کا عظیم کا ’جادوگر‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ امریکا کے مجسمۂ آزادی کو نظروں سے اوجھل کرنے کا شعبدہ دکھانے والا یہ میجیشن کا اسٹیج پر بھی متعدد بار فضا میں بلند ہوچکا ہے۔

بھرے مجمع میں غائب ہونے کا شعبدہ انہیں اپنے فن میں یکتا و منفرد اور غیرمعمولی قابلیت کا حامل ثابت کرتا ہے۔ شعبدے بازی کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ کی یہ صلاحیت مافوق الفطرت ہے، جس کا مظاہرہ وہ اپنی عملی زندگی میں بھی کرتا رہتا ہے۔ فضا میں اڑنے اور غائب ہونے کا کمال کاپر فیلڈ کی دنیا بھر میں شہرت کا باعث بنا۔ اس فن میں مہارت اور کمال اس میجیشن کی طویل عرصے کی محنت اور ریاضت کا نتیجہ ہے۔

٭ ڈاکٹر منتصر المنصور
دبئی کے ’بُرج الخلیفہ‘ کو دنیا کی شان دار اور سب سے بڑی عمارت قرار دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر منتصر المنصور کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے اور وہ ایک میجیشن ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ وہ ’بُرج الخلیفہ‘ کو چند لمحوں کے لیے انسانی آنکھ سے اوجھل کر سکتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے اس کمال کا مظاہرہ کسی اسپانسر سے مشروط کیا تھا۔

وہ پہلے عرب شہری ہیں، جسے دو بار ’مرلن ایوارڈ‘ دیا جاچکا ہے۔ میجک کی دنیا میں اس ایوارڈ کو ’آسکر‘ تصور جاتا ہے۔ ڈاکٹر منتصر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ دبئی کے ایئرپورٹ سے کوئی بوئنگ طیارہ غائب کر کے اسے ابوظبی کے ہوائی اڈّے پر ظاہر کر سکتے ہیں۔

٭کرس اینجل
کرس اینجل کا تعلق امریکا سے ہے۔ بچپن سے ہی جادوئی کمالات میں دل چسپی رکھنے والے کرس اینجل نے بارہ سال کی عمر میں پہلی بار اسٹیج پر پرفارم کیا۔ شعبدے بازی میں ہیری ہیڈونی ان کا رول ماڈل ہے۔

کرس اینجل کو تاریخ میں سب سے زیادہ ٹی وی شوز کرنے والے میجیشن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ کرس کو گذشتہ دہائی کے عظیم میجیشن کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔ جادوئی کمالات میں غیر معمولی مہارت رکھنے والے کرس اینجل اب تک متعدد ورلڈ ریکارڈ بھی قائم کر چکے ہیں۔

٭ڈائنمو
برطانیہ کے ’ڈائنمو‘ اپنے انوکھے اور حیرت زدہ کردینے والے کمالات کی بدولت دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ وہ لندن کی سڑکوں پر ایک ڈبل ڈیکر کے ساتھ فضا میں اڑتے نظر آئے، جس پر راہ گیر انگشت بدنداں رہ گئے۔

آخر کوئی انسان کیسے فضا میں پرواز کر سکتا ہے؟ تاہم ڈائنمو کا یہ کرتب محض نظر بندی تھا۔ ڈائنمو دریائے ٹیمز کے پانی پر چلنے کا مظاہرہ بھی کرچکے ہیں۔

جادوگروں کا عالمی میلہ
دنیا میں شعبدہ بازی کے متعدد میلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، جن میں روم میں ’سپر میجک‘ کے نام سے منعقدہ میلہ اہمیت کا حامل ہے۔ میجیشنز کے اس عالمی میلے میں ’تھیٹر ایونٹ‘ کے نام سے ایک پروگرام بھی کیا جاتا ہے، جس میں دنیا بھر کے جادوگرخوب صورتی کا جشن منانے اور شاعری کے ساتھ جادو کا تال میل کرنے کے ساتھ جادوئی کمالات کے میدان میں نئی تحقیق یا ٹرکس سے دوسروں کو متعارف کرواتے ہیں۔

شعبدے بازی کی اقسام
شعبدے بازی اگرچہ ایک مشکل فن ہے، لیکن مسلسل مشق، ہاتھ کی صفائی اور جدید آلات کے استعمال نے شعبدے بازوں کی مشکلات کافی حد تک کم کردی ہیں۔ یہ فن کار شاہی درباروں سے لے کر دور جدید میں سڑکوں اور مخصوص مقامات تک شائقین کو اپنے فن سے محظوظ کرتے چلے آرہے ہیں۔ میجیشن اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مختلف ایفیکٹس بھی استعمال کرتے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:

٭ پروڈکشن: اس ایفیکٹ میں میجیشن بہ ظاہر کچھ نہ ہوتے ہوئے بہت سی چیزیں ظاہر کر دیتا ہے۔ اس میں خالی ہیٹ سے خرگوش نکالنا۔ ہوا میں اون کا گچھا بنانا، خالی بالٹی میں سے سکوں کی برسات کرنا، کڑھائی میں سے فاختہ نکالنا یا میجیشن کا خالی اسٹیج پر دھویں کے بادلوں میں نمودار ہونا شامل ہیں۔

٭غائب کرنا: اس ایفیکٹ میں میجیشن کسی ڈبے میں سے سکے، پنجرے میں سے فاختہ، الماری میں سے لڑکی یا لڑکا یہاں تک کہ کسی بھی عمارت یا مجسمے کو غائب کرتے ہیں۔ پروڈکشن میں یہی تیکنک ریورس میں استعمال کی جاتی ہے۔

٭ ٹرانفارمیشن (کایا پلٹ): اس طریقے میں شعبدے باز کسی بھی شے کی ہیئت تبدیل کردیتا ہے۔ رومال یا کپڑے کا رنگ تبدیل کرنا، کسی انسان کو شیر یا بکری کا روپ دے دینا بھی اسی ایفیکٹ کے مرہون منت ہے۔

٭ری اسٹوریشن (ازسرِ نو بحالی): اس ایفیکٹ میں میجیشن کسی بھی شے کو تباہ کرکے اصلی شکل میں واپس لے آتا ہے۔ رسی کو ٹکڑوں میں کاٹنا، اخبار کو پرزہ پرزہ کرنا، کسی انسانی جسم کو کاٹ کا دو حصوں میں تقسیم کردینا یا شیشے کو کرچی کرچی کرکے اصلی شکل میں لانا ری اسٹوریشن ایفیکٹ ہوتا ہے۔

٭ٹرانسپورٹیشن (نقل و حرکت): اس دل چسپ ایفیکٹ کی مدد سے شعبدے باز اون کے گولے سے انگوٹھی، بلب کے اندر چُڑیا، دوسرے کی جیب سے سکہ یا نوٹ نکال کر دکھاتا ہے۔ یہ ایفیکٹ غائب ہونے اور پروڈکشن کے اشتراک سے بھی پرفارم کیا جاسکتا ہے۔

٭ لیوی ٹیشن ( ہوا میں اُڑنا): اس ایفیکٹ میں میجیشن گریویٹی (کششِ ثقل) کے برعکس ہوا میں اڑتا نظر آتا ہے، یہ چاندی کی گیند کو کپڑوں پر اڑاتا، اپنے معاون یا کسی شے کو ہوا میں معلق کرسکتا ہے۔ ڈیوڈکاپر فیلڈ اسی ایفیکٹ کی بدولت ہوا میں اُڑنے کا مظاہرہ کرتا ہے۔

٭ پینی ٹریشن (نفوذ): شعبدے باز اس ایفیکٹ کو کسی بھی ٹھوس شے میں سرایت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسٹیل کے چھلوں کو ایک دوسرے میں داخل کرنا، جلتی ہوئی موم بتی یا تلوار کو سینے یا بازو میں پیوست کرنا اور شیشے میں سے گزرنا اس ایفیکٹ کے مرہون منت ہے۔

کچھ مشہور شعبدے اور اُن کی ٹرکس
اس کام میں ہاتھ کی صفائی سے زیادہ پراسرار معاملہ میجیشن کا اپنے کمال کی ’حقیقت‘ کو صیغہ راز میں رکھنا ہے۔ چند دہائیوں قبل تک اپنی ٹرکس کو ظاہر کرنا میجیشن کے لیے موت سمجھا جاتا تھا، لیکن اب بہت سے ٹی وی شوزان رازوں سے پردہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔

٭ ہوا میں اُڑنا: فلائنگ مین کہلانے والے امریکی میجیشن ڈیوڈ کاپر کو ہوا میں اڑنے والے الوژن کے لیے سامان فراہم کرنے والے امریکی شہری John Gaughan کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ نے اس کے لیے پنکھوں کے طرز کی arrays (ترتیب) استعمال کی، جو نظر نہ آنے والے ایک چوتھائی ملی میٹر موٹی تاروں سے منسلک تھیں، ان میں سے ہر تار دس کلو وزن سہار سکتی ہے۔

ٹانگوں اور کپڑوں کے اندر چھپے ان تاروں کی مدد سے ڈیوڈ کاپر نے ہوا میں مختلف زاویوں سے اُڑنے کا مظاہرہ کیا۔ کچھ شعبدے باز ہوا میں اڑنے کے لیے باریک مگر مضبوط تاروں کا سہارا لیتے ہیں۔ کچھ ہوا میں معلق ہونے کے لیے طاقت ور مقناطیس کا استعمال کرتے ہیں۔ڈائنمو بھی لندن کی سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بس کے ساتھ ساتھ ہوا میں معلق رہنے کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ اس میجک کے لیے ڈائنمو نے بہت ہی سادہ سی تیکنیک استعمال کی۔

ویڈیو میں بس کی چھت پر ٹکا ہوا ہاتھ در حقیقت دھات کا بنا ہوا تھا اور باریک دھاتی تاروں سے منسلک ایک جنگلے نے ڈائنمو کو بس اس ہاتھ سے منسلک کیا ہوا تھا۔ ڈائنمو نے الٹے ہاتھ اور پیروں کو آزادانہ حرکت دے کر وہاں موجود افراد کو کسی قسم کا شک نہیں ہونے دیا۔

٭ پانی پر چلنا: اس انوکھے شعبدے میں میجیشن پانی پر چل کر ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر پہنچ جاتا ہے۔ اس میجک کو کرس اینجل اور ڈائنمو کر چکے ہیں، ان دونوں میجیشن نے پانی پر چلنے کے لیے پلاسٹک سے بنے ہلکے مگر مضبوط شیشے ’پلیکسی گلاس‘ کی مدد سے یہ شعبدہ سر انجام دیا تھا۔

٭ عمارت کو غائب کرنا: کسی عمارت کو غائب کرنے کے لیے روشنی اور کیمرا ِٹرک بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اس طرح کے شعبدے میں میجیشن وہاں موجود افراد کو ایک مخصوص سمت میں بٹھاتے ہیں۔ ڈیوڈ کاپر فیلڈ نے بھی ’مجسمئہ آزادی‘ کو نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے ’اسٹیچو آف لبرٹی‘ کو نہیں بلکہ وہاں موجود حاظرین کو حرکت دی تھی۔

ڈیوڈ نے اسٹیج پر حاضرین کے لیے نشستوں کا اہتمام ایسے پلیٹ فارم پر کیا جسے اُن کے علم میں لائے بنا دوسری سمت میں حرکت دی جاسکے۔ کاپر فیلڈ نے اسٹیج پر دو بڑے مینار بھی بنائے تھے جنہوں نے ایک محراب کی شکل اختیار کرلی تھی درحقیقت ان میناروں نے بڑے پردے کو سہارا دیا ہوا تھا۔ حاضرین مجسمۂ آزادی کو اس محراب کے ذریعے ہی دیکھ سکتے تھے۔

ان دونوں میناروں پر بہت تیز روشنی کی گئی تھی جس نے لوگوں کو نائٹ بلائنڈ کردیا تھا۔ ڈیوڈ نے مجسمے پر لگی تیز روشنیوں کے علاوہ ایک خفیہ جگہ پر بھی خفیہ لائٹس لگائی تھیں۔

اس ِٹرک کے شروع ہوتے ہیں ڈیوڈ کے معاونین نے مجسمۂ آزادی پر جلنے والی روشنیوں کو بند کر کے دوسری لائٹس کو کھول دیا تھا، جو پردے کے پیچھے اُڑنے والے ہیلی کاپٹروں کے گرد دائرے بنا رہی تھیں۔ ان ہی چند لمحوں میں اسٹیج کی سمت بھی تبدیل کی گئی تھی اور وہاں موجود لوگ پرد ے پر بنی اسکرین پر موجود منظر دیکھ رہے تھے جس میں سب کچھ ایک جیسا تھا سوائے مجسمئہ آزادی کے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔